نہ جلال ہے نہ جمال

اقبال نے ضرب کلیم لکھی تو اپنی شاعری کے اس بے مثال مجموعہ کا نام لکھنے کے بعد اپنے ناسمجھ قارئین کی ذہنی حالت پر رحم کھاتے ہوئے مندرجہ ذیل سات الفاظ کا اضافہ کر دیا تاکہ پڑھنے والوں کو کتاب کے نام کا مطلب جان لینے میں سہولت ہو۔ وہ سات الفاظ یہ ہیں: یعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف ضرب کلیم کی پہلی گیارہ نظمیں پڑھنے کے بعد جب آپ بارہویں نمبر پر پہنچتے ہیں تو وہ نظم نہیں بلکہ ایک قطعہ ہے، چار مصرعوں پر مشتمل۔ عنوان ہے''ملائے حرم‘‘۔ اقبال حرم کے ملّا کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آدمی کا مقام تو تجھے نظر نہیں آتا، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو خدا تک جا پہنچے؟ دُوسرے دو مصرعوں میں اقبال مُلّائے حرم کی بے سُرور عبادت پر اپنا شاعرانہ لاٹھی چارج جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: 
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
آج کے کالم کا عنوان وہی ہے جو اسی قطعہ کے تیسرے مصرع کے آخری چار الفاظ ہیں۔ ملّا کی دی ہوئی اذان بھی اقبال کو اس لئے کھوکھلی، بے جان اور بے اثر لگی کہ اُس میں اقبال کے تصورات میں اُبھرنے والی سحر کا نام و نشان بھی سنائی نہیں دیتا۔
جب کسی قوم کی زندگی جلال و جمال سے محروم ہو جائے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو کہ اس بے جان قوم کے افراد نماز پڑھیں تو ان کی عبادت میں اقبال کو جلال نظر آئے اور جمال بھی۔ مُردہ دل اور اندھی تقلید کی وجہ سے مفلوج ذہن رکھنے والے کا جلال و جمال سے کیا واسطہ؟ جلال کا ذکر پھر کسی اور دن پر چھوڑتے ہیں۔ آج کا کالم تذکرۂ جمال تک محدود رہے گا۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ذوق زیبائی کی اصطلاح اقبال کی ہے یا فیض کی؟ جب مغل اور عثمانیہ سلطنتوں اور مسلمان حکومتوں کا شیرازہ بکھرا (اس کام میں بھی دو صدیاں لگ گئیں) تو اُن کا ذوق زیبائی بھی خواب و خیال ہو گیا۔ تاج محل، دہلی کا لال قلعہ، لاہور کا شاہی قلعہ، شالیمار باغ۔۔۔۔ ان سب کا تعلق ایک دھندلے ماضی سے ہے۔ اب ہم اُنہیں بنانے سے تو رہے، صرف (مغربی سیاحوں کی طرح) اُنہیں گھور گھور کر دیکھ سکتے ہیں؛ بلکہ اُن کا حُلیہ بگاڑنے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارا کون سا تخلیقی اور تعمیراتی کارنامہ ہے؟ کراچی میں مزارِ قائداعظم اور اسلام آباد میں فیصل مسجد،اللہ اللہ خیر سلا! اس سے آگے بڑھیں تو ہر بڑے شہر میں خوبصورت درختوں کا قتل عام اور ان کی لاشوں پر بنائی جانے والی میٹر و بس اور اورنج ٹرین نظر آتی ہے۔
ہم مغل بادشاہوں کی لکھی ہوئی خود نوشت پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانے میں لاہور کے مضافات گھنے جنگلات سے بھرے ہوئے تھے۔ انگریز آیا تو اُس نے ریل کی پٹڑی بچھانے اور اس طرح کی دُوسری ضرورتوں کے پیش نظر ان جنگلوں کا صفایا کر دیا۔ قیام پاکستان کے وقت اندرون شہر کے اردگرد ایک نہر بستی تھی (جہاں لاہوری دروازہ میں رہنے والی ایک بچی اپنی نانی کے ساتھ کپڑے دھونے جایا کرتی تھی۔ آگے چل کر یہی بچی میری بیوی اور لندن کے ایک کالج میں پروفیسر بنی۔ کپڑے دھونے سے اُس بے چاری کی جان ابھی تک نہیں چھوٹی اگرچہ اب اُسے نہر پر جا کر میلے کپڑوں پر لکڑی کے ڈنڈے (عُرف تھاپا) کی بارش نہیں کرنا پڑتی۔) نہر اور اندرون شہر کی فصیل اور بیرونی مضافات کے اندر ایک سر سبز باغ تھا۔ مدت ہوئی وہ باغ اُجڑ گیا اور اب اُس کی صرف 66 سال پہلے موجودگی ثابت کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔
پاکستان میں جو برائے نام ، جعلی اور دکھاوے کی شجر کاری مہم ہوئی وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ چترال، سوات اور ہمالیہ کی گود میں اُگنے والے لاکھوں درخت کاٹ کر اونے پونے بیچ ڈالنے کے بعد ہم بڑے حیران ہوتے ہیں کہ ہم اتنی باقاعدگی سے اتنے بڑے سیلابوں کی تباہ کاریوں کا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟ اگر ہم اپنی کھال کو اور موٹا کر لیں اور اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں تو ہمیں اقبالؔ کی برسوں پہلے دی گئی یہ سرزنش سنائی دے تو کیونکر ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
زینت رشید کراچی کی جانی پہچانی سماجی کارکن ہیں۔ میں اگلی بار کراچی گیا تو اُنہیں ملنے اور اُن کا شکریہ ادا کرنے جائوںگا۔ شکریہ اس بات کا کہ اُنہوں نے (اُردو محاورہ کے مطابق) ڈنکے کی چوٹ پرکہا ہے کہ ایک زمانے میں کراچی ایشیاء کا سب سے صاف ستھرا شہر ہوتا تھا مگر اب وُہ ایشیاء کا گندہ ترین کوڑے دان بن گیا ہے۔ معروف صحافی جناب مظہر عباس بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے وہ کہہ دیا جو اب نوشتہ دیوار ہے اور صرف عقل کے اندھوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ کراچی کی حالت صرف اُسی صورت میں بدلے گی جب تمام سیاسی، مذہبی اورسماجی جماعتیں مل کر بیٹھیں گی اور کراچی کے مسائل کا حل اتفاق رائے سے ڈھونڈ نکالیں گی اور اسے کہا جائے گا کراچی کے بچائو کا چارٹر! خلق خدا بیک زبان بولے تو آوازخلق نقارہ خدا بن جاتی ہے۔
صرف برطانیہ کا نہیں غالباً دُنیا کے سب سے موقر اور معتبر ہفت روزہ اکانومسٹ (The Economist) نے اپنی گیارہ جون کی اشاعت میں مشرق وسطیٰ میں تعمیراتی جمال کے رُلا دینے والے زوال کا ماتم کیا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ مشرقی وسطیٰ کا یورپ سے کیا واسطہ؟ یہ وُہی یورپ ہے جس کے بارے میں پچھلی صدی میں اقبال نے لکھا تھا ع
افرنگ کا ہر گوشہ ہے فردوس کی مانند
گزشتہ ایک صدی میں یورپ نے اپنا حلیہ اور بہتر بنا لیا ہے اور چھوٹے سے سمندر کے اُس پار مشرق وسطی نے اپنی صورت کو اُسی تناسب سے اور بگاڑ لیا ہے۔ اب ساری دُنیا سمٹ کر اور سُکڑ کر ایک بڑا گائوں بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی وسطیٰ تو کجا مشرق بعید بھی اہل یورپ کے لئے ایک ایسا پڑوسی بن گیا ہے جس کے حالات بہتر ہوں تو لوگ ہزاروں میل کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود خوش ہوتے ہیں؛ حالات خراب ہوں تو اُسی منطق سے پریشان اور فکر مند۔ بارہویں صدی میں عظیم عرب سیّاح ابن زُبیر (Ibn Jubayr) دمشق گئے تو اُنہوں نے لکھا کہ سارا شہر پودوں اور پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا ہے، باغات میں اس طرح گھرا ہوا ہے جس طرح چاند کے گرد اُسکا ہالہ۔ یورپی سیاحوں نے اُس کے مرکزی چوک (جس کا نام نقش جہاں تھا) کو دیکھا تو عش عش کرنے لگے۔ اسے سترہویں صدی میں ایران کے بادشاہ عباس اوّل نے تعمیر کروایا تھا۔ ایک قدیم روایت کے مطابق کوئی شخص جنت میں دوبار داخل نہیں ہو سکتا اس لئے کئی سیاح صرف اس وجہ سے اُس وقت کے دمشق کی سیر کا لُطف اُٹھانے سے باز رہتے تھے کہ اُنہوں نے یہ ارضی جنت دیکھ لی تو شاید دُوسری اور اصلی جنت میں داخلے کا حق کھو بیٹھیںگے۔ 
آپ صرف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کو دیکھیں، نصف صدی کے اندر اُس میں باغات اور کھلی جگہوں میں81کمی آئی ہے۔ ایک اوسط یورپی شہر میں کھلی جگہ کا تناسب کم از کم بارہ فیصد ہوتا ہے جبکہ مشرق وسطی میں یہ تناسب صرف دو فیصد ہے (یعنی نہ ہونے کے برابر۔) امریکہ میں ایک شہرہ آفاق یونیورسٹی ہے جس کا پورا نام ہے Massachusetts Institute of Technology (MIT) غالباً دُنیا بھر میں کسی اور یونیورسٹی نے اس سے زیادہ نوبل انعام جیتنے والے سائنسدان پیدا نہیں کئے۔ وہاں اسلامی فن تعمیر کے ماہر پروفیسر کا نام ناصر رباط ہے۔ اُنہوں نے اسلامی دُنیا میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے والے باغات پر اتنی اچھی کتاب لکھی کہ اہل امریکہ اور اہل یورپ کو یقین ہو گیا کہ جن کروڑوں لوگوں کے موجودہ حالات اتنے خراب ہیں اُن کا ماضی بڑا روشن اور قابل فخر تھا۔ 
ایک عرصہ گزرا جب آغا خان نے ملتان میں حضرت شاہ رُکن عالم رحمۃ اللہ علیہ کا اتنا شاندار مزار بنوایا کہ اُسے اُس سال میں دُنیا کی سب سے اچھی عمارت کا انعام دیا گیا۔ اُنہوں نے حال ہی میں یہ قابل صد تعریف کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ قاہرہ میں کوڑا کرکٹ سے اَٹے پڑے میدان کو شہر کے سب سے بڑے پارک میں تبدیل کر دیا۔آپ جانتے ہیں کہ غزہ کے ساحلی پٹی پر حماس کی حکومت کا اسرائیل نے اتنا زبردست گھیرائو کیا ہوا ہے کہ غزہ میں پارک بنانے کے لئے کئی ٹن مٹی کی ضرورت پیش آئی تو حماس نے اُسے مصر سے جڑی ہوئی زیر زمین سے سرنگوں کے ذریعہ سمگل کر لیا۔ دُنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ چشم فلک نے زرخیز مٹی کی سمگلنگ ہوتے ہوئے دیکھی۔ لاہور کے مقابلہ میں بیروت کے رہنے والے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے شہر کے وسطی پارک (اشرفیہ) کو چیرتی ہوئی سڑک تعمیر کی مخالفت کی تو حکومت نے سڑک کا رُخ بدل دیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ پنجاب کی حکومت بھی لاہور کے ماحول کی حفاظت کرنے والوں کی فریاد سن لیتی اور اپنے منصوبہ میں اس طرح ترمیم کر لیتی جسے اُردو محاورہ میں یوں بیان کرتے ہیں۔۔۔۔ سانپ کو اس طرح مار ڈالا گیا کہ لاٹھی ٹوٹنے سے بچ گئی! بدقسمتی سے میرے پیارے ملک میں منصوبہ بندی اس طرح کی جاتی ہے کہ سانپ کو کوئی گزند نہیں پہنچتا لیکن ہماری لاٹھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کی خواہش کے مطابق ہماری نمازیں جلال و جمال کی خوبیوںکی عکاسی کریں تو اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد کے باہر کے بیرونی ماحول میں بھی جلال و جمال پیدا کیا جائے۔ اس طرح اقبال کی ملائے حرم سے شکایت دُور ہوجائے گی اور لگے ہاتھوں ہمارا حلیہ سنور جائے گا۔ اگر بدقسمتی سے ہم نے ایسا نہ کیا تو اقبال کی رُوح کروڑوں مسلمانوں سے ہر روز یہ کہتی رہے گی ع
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں