عید آزاداں شکوہ ِ ملک و دیں

شاعر مشرق و مغرب علامہ اقبال کی پوری زندگی میں ہندوستان پر برطانوی راج کا سورج چمکتا رہا۔ اقبال نے ایک غلام ملک میں مسلمانوںکوعید کا تہوار مناتے ہوئے دیکھا تو اُن کادل حد درجہ مغموم ہوا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو سرزنش کی کہ ہندوستان میں سجدہ کرنے کی اجازت مل جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ سمجھ لیں کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے ہمیں یہ بھی یاد دلایا کہ ایک ہی فضا میں پرواز کرنے کے باوجود شاہین اور کرگس کے جہاں جُدا جُدا ہوتے ہیں۔ اقبال نے اپنی بے عمل، کاہل اور نالائق قوم کو یاد دلایا کہ ؎ 
بندگی میں گُھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب 
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
جب بھی عید آتی ہے تو میرے کانوں میں اقبال کی آواز گونجتی ہے۔ وہ آواز ہم سے سوال کرتی ہے کہ کیا اب ہم آزاد ہو گئے ہیں؟ کیا اب ہماری عید شکوہِ ملک ودیں کی عکاسی کرتی ہے؟ کیا ہم ایک جوئے کم آب سے نکل کر بحرِ بے کراں کی شکل اختیار کر چکے ہیں؟ کیا ہم شاہین کہلانے کے مستحق ہیں یا پہلے کی طرح کرگس بنے ہوئے ہیں؟ دیانتداری سے سوچا جائے تو ایک عام مسلمان، ایک کاشتکار، ایک بڑھئی، ایک لوہار یا کوئی بھی دستکار مغلیہ دَور میں اُتنا ہی غلام تھا (بلکہ شاید زیادہ) جتنا برطانوی راج میں۔ یہ کالم پڑھنے والے چاہے کتنا ناراض ہوں مگر وہ مجھے سچائی لکھنے سے نہیں روک سکتے کہ اگر مغلیہ دَور میں ہندوستان کے عامۃ الناس (ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کی) حالت اتنی خراب نہ ہوتی اور وہ ہر لحاظ سے غلام نہ ہوتے تو کوئی صورت نہ تھی کہ انگریز ایک صدی کے اندر اندر (جنگ پلاسی سے لے کر 1857ء میں ہونے والی پہلی جنگ آزادی تک) اُنہیں اپنے زیر نگیں اور زیر تسلط کرنے میںکامیاب ہو جاتے۔ جس طرح آپ ایک شیر کو بھیڑ بکری نہیں بنا سکتے اسی طرح ایک آزاد قوم کوبھی کوئی غیر ملکی حملہ آور اپنا غلام نہیں بنا سکتا۔ ویت نام تو مشرق بعید میں ہے، نوجوان قارئین کو وہاں نصف صدی پہلے امریکہ کی سینکڑوں گنا بڑی فوج کی بدترین شکست کے بارے میں شاید زیادہ علم نہ ہو، مگر آپ اتنی دُور نہ جائیں اور اپنے پڑوس میں (ہمارے مقابلے میں بدرجہا غریب اور مفلوک الحال) افغانستان کو دیکھ لیں جہاں پہلے برطانیہ کو (اور وہ بھی اس وقت جب وہ دُنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا) پھر سوویت یونین کو اور اس کے بعد امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کے تمام ممالک کی افواج کو عبرتناک شکست ہوئی۔
اب اپنی طرف آئیں، ہم نے یکے بعد دیگرے دو مہلک غلطیاں کیں اور اب ہم اُن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو امریکہ کا حواری اور حاشیہ نشین بنا کر اسے افغان جنگ میں جھونک دیا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کی راہ ہموار کر دی۔ جب وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوئی (جو کچھ عرصہ پہلے تک مجاہدین کہلاتے اور امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے) تو جنرل مشرف امریکہ کے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے پاکستان کے سابق دوستوں اور پرانے حلیفوں پر حملہ آور ہوگئے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ دُنیا میں جو تین ممالک طالبان کی حکومت کو وہاں کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرتے تھے اُن میں سے ایک پاکستان تھا۔ دیکھیے کہ اب ہماری طرف ہمارے ان داتا اور پرانے مائی باپ امریکہ کا کیا رویہ ہے؟ اُسے غالب کے ایک شعرکی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے ؎ 
لو وُہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
یقیناً آپ کے علم میں ہے کہ لندن کے نئے میئر (صادق خان) نہ صرف پاکستانی نژاد بلکہ مسلمان ہیں۔ اُن کو یہ عہدہ سنبھالے بمشکل ایک ماہ گزرا ہے مگر انہوں نے یہ کمال کر دکھایا کہ 9 جولائی (بروزہفتہ) لندن کے دل (ٹریفالگر سکوائر) میں عید میلے کا پہلی بار اہتمام کیا۔ ہر ملک اور رنگ و نسل کے مسلمان (مرد، عورتیں اور بچے) اس میلے میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سینکڑوں نوجوان انگریز لڑکے اور لڑکیاں بھی ذوق وشوق اور جوش و خروش سے اس میلے سے لطف اندوز ہوئے۔ افسوس کہ وہاں پاکستانی مصنوعات کا صرف ایک سٹال تھا اور پاکستانی خوراک کا ایک بھی نہیں؛ حالانکہ ہم دُنیا بھر میں اپنی خوش خوراکی کے لئے مشہور ہیں۔ موسیقی کے پروگرام کو عرب فنکاروں نے لوٹ لیا۔ پاکستان کی نمائندگی دوسرے (یا شاید تیسرے) درجے کے قوالوں نے کی۔ میں نے ایک آزاد ملک میں رہنے والے نیم آزاد مسلمانوں کو عید کی خوشی مناتے دیکھا تو مجھے پھر اقبال یاد آئے۔ وہ جس شکوہِ ملک و دیں کا مظاہرہ دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے وہ ابھی تک حسرت کے مرحلہ میں ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ لندن کی نقل کرتے ہوئے پاکستان کے تمام شہروں میں بھی عید میلہ سرکاری طور پر منعقد کیا جائے اور وہاں وہ سب کچھ ہو جو میلہ میں ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اس طرح عید کے تہوار اور شکوہ ملک و دیں کے مظاہرہ کے درمیان ٹوٹا ہوا رشتہ پھر استوار ہو جائے گا۔ عید میلوں میں شریک نہ صرف لاکھوں افراد خوش ہو جائیں گے بلکہ اقبال کی رُوح بھی اوراُس سے ہم کلام ہونے والا یہ کالم نگار بھی۔
میرا فرض ہے کہ میں آپ کو بتائوں کہ بلند معیار برطانوی اخباروں نے پہلے ہم سب کے پسندیدہ فنکار امجد صابری اور پھر فخر قوم نہیں بلکہ فخر انسانیت جناب عبدالستار ایدھی کے بارے میں تعارفی اور تعریفی مضامین شائع کئے۔ برطانیہ کے دُوسرے بڑے شہر برمنگھم میں ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں نے ایک بڑے پارک میں نماز عید ادا کی توٹیلی ویژن پر اس کی تصویریں دکھائی گئی۔ صرف روزنامہ گارڈین نے تصویر شائع کی مگر وہ اتنی کمال کی تھی کہ میں نے کاٹ کر سنبھال کر رکھ لی۔
جب آپ یہ سطور پڑھیں گے تو اُس سے کافی دن پہلے لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے ٹیسٹ میچ میں ہماری ٹیم کی کارکردگی سامنے آ چکی ہوگی جو یہ طے کرے گی کہ ہم فخر سے سر اُونچا کریں یا شرمندگی سے سر جھکائیں مگر یہ ٹیسٹ میچ شروع ہونے سے پہلے Somerset اور Sussex کی کائونٹی ٹیم سے ہونے والے مقابلوں میں ہمارے کھلاڑیوں کی اچھی کارکردگی کی برطانوی اخباروں میں کھلے دل سے تعریف کی گئی۔ انہی دنوں بازار میں پاکستانی کرکٹ پر ایک بہت اچھی کتاب آئی ہے۔ اس کا نام ہے:
White on Green : A Portrait of Pakistan's Cricket ۔۔۔ 
354 صفحوں کی یہ کتاب Richard Hellier اورPeter Oborne نے لکھی ہے۔ اس کتاب کے ہر صفحہ اور ہر صفحہ کی ہر سطر اور ہر سطر کے ہر لفظ سے اُس محبت اور چاہت کا اظہار ہوتا ہے جو مصنفین کے دل میں پاکستانی کرکٹ اور اسے کھیلنے والوں کے لئے ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے اس کتاب پر جو بڑا عمدہ تبصرہ شائع کیا وہ سارے کا سارا ترجمہ کر کے اپنے قارئین تک پہنچائے جانے کا مستحق ہے، مگر محدود جگہ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ میں صرف پہلی سطر کے ترجمہ پر اکتفا کرتا ہوں: ''(کوئی بھی) کھیل صرف ایک قوم کے ذہن کے اندر جھانکنے کی کھڑکی نہیں ہوتا بلکہ وہ اُس ذہن کے خد و خال بھی مرتب کرتا ہے‘‘۔ اب آپ میری ایک تجویز پر غور فرمائیں۔ فرمان اقبال کو دو حصوں میں بانٹ کر ہم ایسا کیوں نہ کر لیں کہ عید کو شکوہ دین کے اظہار کے لئے اُٹھا رکھیں اور کرکٹ کے کھیل کو شکوہ ملک کے لئے مخصوص کر دیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والے دنوں میں میرے اہل وطن کو ہر طرح کی خوشیاں دکھائیں۔ خصوصاً عید آزاداں منانے کی اور کرکٹ مقابلوں میں کامیابی کی۔ آخر اقبال لکھ گئے ہیں ع
عید آزاداں شکوہِ ملک و دیں
ہمیں اُن کے قول کی لاج رکھنا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں