باتیں میرے دُوسرے دیس کی۔۔۔۔ (2)

برطانیہ اس کالم نگارکاکس طرح دُوسرا دیس بنا؟ وہ پہلے بیان کیا چکا ہے۔ اسے دُہرائے بغیر آج آپ کو یہاںکی مزید قابل ذکر باتیں بتائی جائیںگی۔ برطانیہ میں بڑے بڑے سٹور اور ریستوران ہر سال دس ملین (ایک کروڑ) ٹن تازہ پھل، سبزیاں اور خوراک بطور کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں۔ آپ کے لئے ضائع کر دی جانے والی ساری خوراک کے حجم کا اندازہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا اگر اسے یوں بیان کیا جائے کہ اس ساری خوراک کو اکٹھا کیا جائے تو لاہورکا قذافی سٹیڈیم اس طرح بھر جائے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں قریباً چار لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کو دو وقت پیٹ بھر کرکھانا نصیب نہیں ہوتا۔ لندن میں شام کا واحد اخبارEvening Standard دس لاکھ کے قریب چھپتا ہے اور مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔اشتہارات اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں اور ظاہر ہے کہ مفت تقسیم ہونے والے اخبار میں وہ بہ افراط ہوتے ہیں۔ اس اخبار نے اس نیک کام کا بیڑا اٹھایا ہے کہ رضاکاروںکی ایک فوج دوکانوں، بڑے سٹوروں اور ریستورانوں سے استعمال میں نہ لائی جانے والی فالتو اور پھینک دی جانے والی خوراک اپنی گاڑیوں میں اکٹھا کرے اور پھر ضرورت مندوں تک اپنے خرچ پر پہنچائے اور ثواب دارین کمائے۔ جہانگیر نامی ایک باہمت اور بلند عزم نوجوان نے کراچی میں سینکڑوں Manholes پر عوام کے دیے گئے چندے سے خریدے ہوئے ڈھکنے لگوائے تو اُس کی شہرت کے ڈنکے کی آواز برطانیہ تک پہنچی۔ میں نے مندرجہ بالا سطور اُنہیں مخاطب کر کے لکھی ہیں اور جب اس ماہ کے آخر میں کراچی ایک دن کے لئے گیا تو اُنہیں مل کر ان کی توجہ اس کارِ خیرکی طرف دلائوںگا۔ لیکن فردِ واحد سارے کراچی میں عوامی خدمت کا بھاری پتھر اکیلا نہیں اُٹھا سکتا۔کتنا اچھا ہوکہ میرے قارئین اپنے اپنے شہر میں خدمت خلق کی ایسی تنظیم بنائیں (اور اگر بنی ہوئی ہو تواس میں شامل ہو جائیں) جو فالتو خوراک اکٹھی اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سنبھالے اور یہ کام اتنی خوش اسلوبی سے کرے کہ میں یہاں اپنے سفید فام دوستوں کو فخر سے بتائوں اور اُن پر اہل وطن کا رُعب ڈال سکوں (جو فی الحال صرف کرکٹ کے میدان میں ہمارے نئے کھلاڑیوں کی اچھی کارکردگی تک محدود ہے۔) جب میرے انگریز دوست گفتگو میںکرکٹ کے علاوہ پاکستان کی دُوسرے میدانوں میں کارکردگی کا تذکرہ شروع کرتے ہیں تو میں کمال چالاکی اور برق رفتاری سے موضوع بدل دیتا ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گورے سامعین میرے ماتھے پر شرمندگی کے اُبھرتے ہوئے قطروںکو دیکھ کر میرا لحاظ کرتے ہوں اور وضع داری (جس میں کوئی قوم انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی)کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے موضوع بدلنے کی اجازت دیتے ہوں۔ مجھے مختلف حربوں سے مادرِ وطن کی لاج رکھ لینے اور اسے نئے طعنوں کے تیز تیروں سے بچا لینے میں جو خوشی ملتی ہے، وہ محسوس توکی جا سکتی ہے، بیان نہیں کی جا سکتی، محبت کے لطیف جذبے کی طرح۔ 
پاناما سیکنڈل سے اڑنے والی گرد ابھی ہوا میں اُڑ رہی تھی کہ جزائرِ غرب الہندکے ایک چھوٹے ملک (جو قدرتی خوبصورتی کے لئے دُنیا بھر کے امیر سیاحوں میں بہت مقبول ہے)Bahamas میں چھپائی ہوئے کئی ارب ڈالروں کا راز فاش ہوگیا۔ مقصد اور مدعا وہی تھا جو Off Shore بنا کر ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا ہوتا ہے۔ اس انکشاف کا ہمیشہ کی طرح سارا ثواب ایک قابل احترام جرمن اخبارZeituni Suddeutscht کو جاتا ہے۔ برطانیہ میں روزنامہ گارڈین نے جن ٹیکس چوروںکی فہرست شائع کی اُس میں نئی کابینہ میں خاتون وزیر داخلہ (ہوم سیکرٹری)Amber Rudd کا نام بھی شامل ہے۔ چبھتے ہوئے سوالوںکے نوکیلے تیروںکی زد میں آجانے والی وزیرکے بیان صفائی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ سولہ سال پہلے میدان سیاست میں اُتری اور پہلے اپنے خاوندکے ساتھ مل کرکاروبار کرتی تھیں۔ اُن کی کمپنی 2000 ء سے پہلےBarhrrims میں رجسٹرڈ تھی جو پچھلے سولہ سالوں سے غیر فعال ہے۔ شمالی یورپ کا ایک ملک (جو ایک جزیرہ پر مشتمل ہے) اس حد تک برفانی ہے کہ اُس کا نام ہیIceland ہے۔ پاناما سیکنڈل کے انکشاف کے بعد دُنیا میں سب سے پہلا رد عمل یہاں ظہور پذیرہوا۔ وزیراعظم (جو وسطی امریکہ کی اس ننھی منی ریاست میں اپنی رقوم چھپانے والوں میں شامل تھے) اور اُن کی کابینہ نے فی الفور استعفیٰ دے دیا۔ دُوسری خصوصیات یہ ہیںکہ سارے ملک میں ایک بھی کتا نہیں۔ حفظان صحت کے اُصولوںکے پیش نظرکسی شخص کو پالتوکتا رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ میں نے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ جو ہرآباد میں میرے مرحوم والدین نے برسوں Alsatian نسل (جو جرمنی کے ایک علاقہ کا نام ہے) کے غیر معمولی وفادار اور تابعدار کتے کو پالا۔ جب وہ ایک حادثہ میں ہلاک ہوگیا تو آبائی گھر سے رحمت کا فرشتہ بھی چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے آپ کو خواجہ سگ پرست (آپ نے اُردوکے کلاسیکی ادب میں موصوف کا تذکرہ پڑھا ہوگا)کا لنگوٹیا سمجھتا ہوں۔ 
اب چلتے ہیں واپس آئس لینڈکی طرف جہاں نوزائیدہ بچے کا نام رکھنے کے لئے سرکاری منظوری نہیں لینی پڑتی۔ ایک سرکاری محکمہ منظور شدہ ناموںکا ریکارڈ رکھنے اور نئے ناموںکا اجازت نامہ جاری کرنے کا مجاز ہے۔ اس محکمے نے حال ہی میں جن گیارہ نئے ناموںکے لائسنس جاری کئے ہیںان میں انجلینا(Angelina) بھی شامل ہے۔ ناموںکی پالیسی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نام رکھے جائیں جو اس ملک کی ثقافت، معاشرت سے ہم آہنگ ہوں اور وہاں کی تہذیبی یگانگت کو برقرار رکھیں۔ اب آپ اپنے وطن پر نظر دوڑائیں، لگتا ہے کہ شمالی پنجاب کے شہری متوسط طبقہ میں ایک طرح کا مقابلہ ہو رہا ہے کہ کون سا گھرانہ اپنی نوزائیدہ بیٹی کا کتنا انوکھا اور چونکا دینے والا نام رکھتا ہے۔ یہ مقابلہ جتنا مضحکہ خیز ہے اتنا قابل رحم بھی ہے۔ اب میں صرف اپنے رشتہ داروں کی بیٹیوں کے نام ہی گنوائوں تو وہ لوگ جو یہ کالم پڑھتے ہیں اور اُن کے معصوم بچے جو بے قصور ہیں ناراض ہو جائیںگے۔ عائشہ،آمنہ، زینب، فاطمہ اور خدیجہ جیسے مبارک ناموں کو چھوڑ کر ایسے فضول نام رکھنا بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائیں(اگرچہ اس کی کم اُمید نظر آتی ہے۔)
روزنامہ گارڈین کی 23 ستمبرکی اشاعت میں صفحہ نمبر16کی پہلی بڑی خبر سردار محمد کے بارے میں ہے۔ حیرت ہے کہ افغان ہونے کے باوجود اس نے اپنے نام کے پہلے یا آخر میں خان کا لفظ نہیں لگایا۔ وہ افغانستان کے صوبہ ہلمند کا رہنے والا ہے۔ افغانستان میں جارحیت کا ارتکاب کرنے والی برطانوی فوج نے اُسے اپریل 2010ء میں طالبان کا مددگار ہونے کے جرم میں گرفتار کیا اور جولائی 2016 ء میں رہا کیا۔ اس دوران (سردار محمد کے لگائے ہوئے سنگین الزام کے مطابق) نہ صرف افغان سپاہیوں بلکہ برطانوی فوجیوں نے اس پر بے پناہ تشدد کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد الزام نہیں، برطانیہ کی وزارت دفاع نے تصدیق کی ہے کہ برٹش ملٹری پولیس کے سو سے زیاہ افسروںکے خلاف تشدد کے جرم کا مرتکب ہونے کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ جن فوجیوں کے خلاف جرم ثابت ہو گیا اُنہیں برطانوی قانون کے تحت کڑی سزا دی جائے گی اور تشدد کا نشانہ بننے والوںکو معقول مالی معاوضہ دیا جائے گا۔ معاوضے کی ادائیگی میں پہل امریکہ نے کی ہے۔ پچھلے سال (2015 ئ) امریکی ڈرون حملے میں پاکستان کی سر زمین پر ایک ایسے اطالوی (عمر67 سال اورکام عوامی خدمت) کو ہلاک کر دیا گیا جسے القاعدہ کے مجاہدین نے بطور یرغمال قیدی بنا رکھا تھا۔ اوباما حکومت نے اطالوی مقتول کے اہلخانہ کو دس لاکھ یورو بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس ڈرون حملے میں نہ صرف یہ اطالوی رضاکارLoporto اور 73 سالہ امریکی شہریWarren Weibvstein بھی مفت میں مارا گیا۔ 
برطانیہ کے معزز اور معتبر اخبارگارڈین نے 17ستمبر اور پھر 23 ستمبرکو چین کی دو تصویریں نمایاں طور پر شائع کیں جو اتنی دلچسپ ہیںکہ میں نے دونوںکاٹ کر سنبھال لی ہیں۔ پہلی تصویر میں ایک نیم پہاڑی علاقے کے ایک دیہاتی گھرانے کی ہے۔ انگریزی دور میں اُردوکا جو پہلا قائدہ تیارکیا گیا (جس شخص نے یہ کارنامہ سرانجام دیا اے شمس العلما کا خطاب دیا گیا) اُس میں ایک ایسا گھرانہ دکھایا گیا تھا جس میں خوش وخرم باپ حُقّے کے کش لگا رہا ہے۔ محنتی اور سگھڑ ماں چرخہ کات رہی ہے اور (میری طرح کے کھلنڈرے) بچے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ چین کی پہلی تصویر میں کیا نظر آتا ہے؟ لکڑی کا ایک مضبوط پلنگ جس پر پھولدار سرہانے اور کمبل رکھے ہوئے ہیں۔ پلنگ پر آٹھ دس سال کے دو بچے (جو غالباً بھائی ہیں) بیٹھے ایک دُوسرے کو گُدگدی کر کے ہنسا رہے ہیں۔ پلنگ کے سرہانے اُن کے ماں باپ کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے: چین کے مغربی صوبہ Xinjiang(غالباًہم اسے سنکیانگ کہتے ہیں) میں Uighur نسل کا ایک گھرانہ عیدالضحیٰ کی خوشی منا رہا ہے۔ چین میں مسلمانوں کی کل تعداد 23 ملین (دوکروڑ تین لاکھ) ہے جن میں سے نصف اس صوبے کے رہائشی ہیں۔ دُوسری تصویر پہاڑیوں پر بل کھاتی دیوار چین کی ہے۔ سات سو سال پہلےMing خاندان کے بادشاہوں نے دیوار چین کا جوحصہ تعمیر کروایا تھا، امتداد زمانہ سے اتنا خستہ ہوگیا کہ مرمت ضروری ہوگئی۔ مرمت کا کام مکمل ہوا تو پتا چلا کہ قدیم دیوار(جسے اقوام متحدہ نے انسانی تہذیب کا ورثہ قرار دیا ہے)کی شکل و صورت بہتر ہونے کی بجائے بگڑگئی۔ لگتا یہ ہے کہ پاکستان میں سڑکوںکی تعمیرکا کام ہو تو وہ چینی ماہرین کرتے ہیں اور چین کے اندر کام ہو تو ٹھیکہ پاکستانیوںکو دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تعمیری کاموںمیں کمالات دکھانے والے اہل چین نے دیوار چین کے ایک حصہ کی صورت کو اس حد تک بگاڑ لیا ہے کہ ان کی رسوائی کا قصہ کوٹھیوں پر چڑھتا، دریائوں اور سمندروں کو پھلانگتا برطانیہ تک آپہنچا ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں