دو نوجوان سکھوں کا تعارف

ایک خاتون اور دُوسرا مرد مگر دونوں میں تین خصوصیات مشترک ہیں۔ دونوں کا تعلق سکھ مذہب سے ہے۔ دونوں کینیڈا کے شہری ہیں اور دونوں کو حال ہی میں عالمی شہرت ملی۔
نوجوان سکھ لڑکی کی عمر 25 سال ہے۔ نام ہے رُوپی کور (Rupi Kaur) جو میں گور مکھی میں لکھنا چاہتا ہوں (حالانکہ بدقسمتی سے میں اس رسم الخط سے ناواقف ہوں)
وہ پنجاب (بھارت) میں پیدا ہوئیں اور چار سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ کینیڈا میں بطور تارک وطن آباد ہوئیں۔ بچپن میں انگریزی زبان بولنا مشکل تھا تو تصویریں اور خاکے بنا کر اپنے احساسات ظاہر کرتی تھی۔ Ontario کی یونیورسٹی میں انگریزی ادب اور نثر نگاری پڑھی۔ اُس نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لئے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھنا شروع کر دیا۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو اُس نے دُودھ اور شہد کے عنوان سے اپنا پہلا شعری مجموعہ شائع کرایا‘ جس کی اب تک دس لاکھ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے تمام شعرا کے دیوانوں کو (جو گزشتہ ایک صدی میں شائع ہوئے) جمع کیا جائے تو وہ تب بھی دس لاکھ نہیں بنتے۔ اسی سال اُس کا دُوسرا شعری مجموعہ (سورج اور پھول کے عنوان سے) بھی شائع ہو گیا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اُس کی پذیرائی کیسے ہو گی۔ نیو یارک ٹائمز ہر سال سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں کی جو فہرست شائع کرتا ہے‘ رُوپی کور کا پہلا شعری مجموعہ اُس میں سرفہرست تھا۔ دُودھ اور شہد والی کتاب صرف نظموں پر ہی نہیں بلکہ نثر اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے خاکوں پر بھی مشتمل ہے۔ اس کا 25 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ہسپانوی زبان میں ترجمہ مشہور ادیبElvira Sastra نے کیا۔ میں نے رُودلی کی لکھی ہوئی صرف پانچ نظمیں پڑھیں جو مجھے اتنی غیر معیاری لگیں کہ میری رائے میں ناقابل اشاعت تھیں۔ جس شخص نے انگریزی اور اُردو کے بلند پایہ شعرا کا کلام پڑھا ہو اُس کا ذہن شاعری کا وہ بلند مقام متعین کر لیتا ہے جہاں نہ نثر نگاری پہنچ سکتی ہے نہ موسیقی اور نہ تصویر کشی۔ شاعری فنون لطیفہ کی معراج ہے۔ میں ایک کم عمر پنجابی لڑکی کو دیہاتی طرز کی شاعری کا ذوق رکھنے اور پنجابی احساسات کو سیدھی سادی انگریزی میں بیان کرنے کا حق تو دیتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کینیڈا اور امریکہ میں رہنے والوں کی طرح اپنا نام اُس کے لاکھوں مداحوں میں لکھائوں۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ میں رُوپی کور کی دیہاتی اور فوک آرٹ سے تعلق رکھنے والی شاعری کے ایک پہلو کی تعریف ضرور کروں گا اور وہ ہے اُس کی بے خوفی۔ روایت شکنی۔ بے باکی۔ اور زہر ہلاہل کو قند نہ کہنے پر اصرار اور وہ بھی مسلسل اصرار۔ ہمیں بہادر بن کر یہ تلخ حقیقت مان لینی چاہئے کہ اہل پنجاب لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی پیدائش پر آزردہ بلکہ پریشان اور غمگین ہوتے ہیں۔ اُنہیں مساوی حقوق نہیں دیتے۔ اُن کے قدرتی اور جسمانی (Biological) مسائل کو قابل اشاعت سمجھنا تو درکنار اُن کا گفتگو میں تذکرہ بھی ممنوع اور حرام سمجھتے ہیں۔ ہمارے دیس کی ہر خاتون کی ساری زندگی ہر قسم کی آزمائشوں اور عذابوں اور مصائب کا مقابلہ کرنے میں گزر جاتی ہے (جس طرح حال ہی میں سیٹلائٹ ٹائون سرگودھا میں میری آپا شمیم اپنی اولاد اور اپنی بہن طاہرہ کو چھوڑ کر خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں تو اُنہیں پہلی بار مکمل سکون ملا) سنسکرت کی ایک ضرب المثل کے مطابق ہندوستان (جس کا مطلب پاکستان بھی ہے‘ یعنی اس پورے علاقے) میں جنم لینے والی ہر لڑکی بدنصیب ہے۔ وہ غلامی کے تین ادوار میں سے گزرتی ہے۔ پہلے ماں باپ کی۔ پھر شوہر اور پھر (جب وہ بیوہ ہو جائے) اولاد کی۔ اُردو نثر میں فرسودہ سماجی تصورات کو چیلنج کرنے اور بُت شکنی کی روایت عصمت چغتائی کے ناولوں (خصوصاً ٹیڑھی لکیر) سے شروع ہو کر فہمیدہ ریاض کی شاعری تک پہنچی۔ رُوپی کور کی شاعری کے معیار کو ایک طرف رکھ دیں اُس کا کمال یہ ہے کہ اُس نے بڑی کھری کھری باتیں کی ہیں۔ اُس نے اہل پنجاب کے جاہلانہ تعصبات پر لاٹھی چارج کرنے میں اُن کا ہرگز لحاظ نہیں کیا (اور نہ ہی وہ کسی لحاظ کے حق دار ہیں) یہ سطور ایک بڑے اخبار میں اشاعت کے لئے لکھی جا رہی ہیں۔ اس لئے کالم نگار اپنے آپ کو ناقابل اشاعت باتیں لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میرے قارئین اتنے عقلمند ہیں کہ اُن کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ اہل پنجاب (بھارتی ہو یا پاکستانی) لڑکیوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں۔ سماج اُنہیں مجلس میں اونچی آواز میں ہنسنے کی اجازت تک نہیں دیتا۔ خاندانی ناموس اور عزت کا حدود اربعہ صرف بہو بیٹیوں کے انسانی حقوق کو سلب کرنے کے لئے گھڑتا اور نافذ کرتا ہے۔ رُوپی کورکی شاعری اس سماجی ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی تصنیف کو لاکھوں افراد نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ذوق و شوق سے پڑھا۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی کمال کی شاعرہ امرتا پریتم کی رُوح یہ جان کر خوش ہوئی ہو گی کہ وارث شاہ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والی ایک معصوم سادہ دل الہڑ دیہاتی لڑکی نے پنجاب کا نام پنجاب سے ہزاروں میل دُور جا کر روشن کیا۔ رُوپی کور کا تذکرہ اتنی جگہ لے گیا کہ دُوسرے سکھ نوجوان کے لئے تھوڑی جگہ بچی۔ اُس کا نام ہے جگ میت سنگھ جو کینیڈا میں وکیل ہے‘ Ontario کی صوبائی اسمبلی کا رُکن ہے اور بائیں بازو یعنی اشتراکی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت New Democracy Party کا راہنما۔ اُس کی جماعت سیاسی قوت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے مگر میت سنگھ پگڑی باندھتا ہے۔ چہرے پر خوبصورت داڑھی اور پہلو میں لٹکی ہوئی کرپان۔ کینیڈا کے ہر دل عزیز اور عوام دوست وزیر اعظم (Trudeau) فارغ وقت میں باکسنگ کر کے اپنا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش کرتے ہیں۔ ہمارا پیارا (اورراج دُلارا) جگ میت برازیل کی لڑائی مار کٹائی سے بھرپور کھیل Ju-Jutso میں مہارت رکھتا ہے۔ جگ میت کی سیاسی جماعت دو صوبوں (Alberta اور (British Columbi سے تیسرے نمبر پر ہے۔ (338 کے ایوان میں صرف 44 نشستیں۔) جگ میت سنگھ کی سیاسی جماعت کا سارے ملک میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ جگ میت کی پارٹی کا منشور چاہے کتنا زیادہ عوام دوست ہو وہ وفاقی سطح پر برسر اقتدار نہیں آ سکتی۔ جگ میت جو جتن بھی کرلے۔ وہ کینیڈا کی سیاست پر جس حد تک بھی اثر انداز ہو جائے۔ جگ میت کی شخصیت سے سارا ملک جگ مگ جگ مگ نہیں ہو سکتا۔ مگر جگ میت جس سیاسی بلندی پر پہنچ گیا ہے وہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ کمال کی بات ہے۔ اور ہر پنجابی (چاہے اُس نے کرپان نہ بھی باندھی ہو) کے لئے باعث فخر ہے۔

میں ایک کم عمر پنجابی لڑکی کو دیہاتی طرز کی شاعری کا ذوق رکھنے اور پنجابی احساسات کو سیدھی سادی انگریزی میں بیان کرنے کا حق تو دیتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کینیڈا اور امریکہ میں رہنے والوں کی طرح اپنا نام اُس کے لاکھوں مداحوں میں لکھائوں۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ میں رُوپی کور کی دیہاتی اور فوک آرٹ سے تعلق رکھنے والی شاعری کے ایک پہلو کی تعریف ضرور کروں گا اور وہ ہے اُس کی بے خوفی۔ روایت شکنی۔ بے باکی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں