آپ جاگیں گے تو سویرا ہوگا

ایک شاعرنے بجا طور پر شکایت کی تھی کہ اگر انسانی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے کاتب تقدیر نے پہلے سے ہی لکھ رکھے ہیں‘ تو کسی بھی شخص کے لئے خود مختاری کا دعویٰ کرنا اتنا بے معنی ہے کہ اسے تہمت کہا جا سکتا ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق بڑی مشکل قسم کی فلسفیانہ بحث سے ہے۔ کالم نگار میں اتنی فالتو عقل نہیں کہ وہ اپنے آپ کو اور اس کالم کے ذریعہ اپنے پیارے قارئین کو ان تیز دھار کانٹوں میں گھیسٹے۔ خار زاروں کا آبلہ پیمائی سیؑ رشتہ غالب کے زمانہ سے کہیں زیادہ پرُانا ہے‘ مگر ہماری عافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنے پائوں میں چھالے نہ پڑنے دیں اور اگر یہ مصیبت بن بلائے (ہم تو کسی بھی مصیبت کو آواز دے کر نہیں بلاتے) ہمارے اُوپر نازل ہو جائے ‘تو ہم خار زاروں سے محفوظ فاصلہ پر رہیں‘ مگر اس مصیبت کا کیا علاج کہ خار زار خود ہی چل کر آپ کے پاس آجائے‘ تو آپ کی زبان پر غالب کے ایک شعر کا دُوسرا مصرعہ بار بار آئے گا:
ع نہ بھاگا جائے ہے‘ مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے‘ مجھ سے 
خودمختاری کی مذکورہ بالا بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم چاروں طرف نظر دوڑائیں‘ تو ہمیں وطن عزیز میں بہت سی ایسی تہمتیں نظر آتی ہیں‘ جو بڑی تکلیف دہ ہیں‘ مگر ناقابل ِ تردید سچائیوں کے زمرہ میں آتی ہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر اربوں کھربوں کا قرضہ ہو تو اُس کے لئے آزادی کا اسم صفت محض ایک تہمت ہے۔ صرف یہی نہیں۔ ہمارے سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں پر تعلیمی ادارے ہونے کی تہمت۔ ہسپتالوں پر علاج کی تہمت۔ عدالتوں پر انصاف کی تہمت۔ پولیس پر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی تہمت۔ فرنگی بتکدوں میں کھو جانے والے پر دانشوری اور جدیدیت کی تہمت۔ تہہ محراب مسجد سو جانے والوں پر اسلامی تعلیمات کی زندہ علامت ہونے کی تہمت۔ گرگسوں کے ساتھ پل کر جوان ہونے والے پرندہ پر شاہین ہونے کی تہمت۔ قوم کو بار بار (اور کامیابی سے) دھوکہ دیتے راہ زنوںوالے گروہ پر امانت اور دیانت کی تہمت۔ غیر مناسب ہوگا کہ میں اور مثالیں دیتا جائوں۔ جتنی اُوپر دے دی ہیں۔ وہی کافی ہوں گی ‘مگر ایک سب سے بڑی مثال تو رہ گئی‘ جو آج کے کالم کا موضوع ہے۔ ہم اپنے موجودہ سیاسی نظام کو اس لئے جمہوری کہتے ہیں کہ اس میں ہر پانچ سال کے بعد انتخابات ہوتے ہیں‘ جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کثرت رائے سے چنے جاتے ہیں۔ کالم نگار آپ سے درخواست کرتا ہے کہ آپ مان لیں کہ اس نظام کو (جو سوفیصدی عوام دُشمن ہے) جمہوری کہنا اس پر ایک تہمت لگانا ہے۔ ہم شروع کرتے ہیں اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کی باعث صد ندامت کارروائی سے۔ میں پچاس سال سے ایک جمہوری ملک میں رہتا ہوں۔ یہاں بھی ٹکٹ ہوتے ہیں اور ملتے ہیں اور دیئے جاتے ہیں ‘مگر خط پوسٹ کرنے کے لئے ‘ڈاک کے ٹکٹ یاٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لئے ہیں۔ یا سنیما گھر یا تماشاگاہ میں داخلہ کے لئے ۔ میرے جو چند انگریز دو ست پاکستان کے حالات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ عمران خان کے گھر کے باہر (وسط جون میں) ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں اور جب کالم نگار سے وجہ پوچھتے ہیں‘ تو وہ شرمندگی کے عالم میں ایک ہی جواب دیتا ہے۔ع
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
صرف برطانیہ نہیں۔ یوروپ کے ہر ملک میں۔ کینیڈا اور امریکہ میں۔ ہر جمہوری ملک میں ہر حلقہ انتخاب میں ہر سیاسی جماعت کے اراکین اپنا اُمیدوار خود چنتے ہیں۔ اُس پارٹی کے قائدین (چاہے ‘وہ مغل اعظم سے بھی زیادہ جاہ و جلال کے مالک ہوں) اس عمل میںہر گز کوئی (چھوٹے سے چھوٹا) دخل نہیں دے سکتے ۔ ہمارے لیڈر منہ سے کہتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو‘ مگر عملی طور پر تمام لیڈر (دوبارہ لکھتا ہوں تمام لیڈر) ووٹر کی توہین کرنے میں ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ مجھے آج اپنے ایک مرحوم دو ست یاد آرہے ہیں۔ عمر اور مرتبہ کا بڑا فرق تھا‘ مگر دوستی کا رشتہ کا اس پر غالب آیا۔ اُن کا نام تھا۔ میر علی احمد خان تالپور (میر رسول بخش تالپور مرحوم کے بڑے بھائی) وہ ایک بڑی سیاسی جماعت (پی پی پی ) کے چوٹی کے رہنمائوں میں شامل رہنے کے بعد ایک فوجی آمر (جنرل ضیاء الحق) کی کابینہ کے بطور وزیردفاع حصہ بنے۔ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بالکل دیانتداری سے کہتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ اپنے پیش رو (جناب بھٹو مرحوم) کی کابینہ سے کہیں زیادہ جمہوری تھی۔ ان معنوں میں جمہوری کابینہ کے اراکین اپنے سربراہ (وزیراعظم یا آمر مطلق) سے اکثر اختلاف کرتے ہوئے اُس کی رائے کے برعکس فیصلہ کرنے کی آزادی رکھتے تھے۔
ہماری بڑی سیاسی جماعتیں (کم از کم دو) مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے مخالف ہیں۔ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ہاں تین بار دس دس سال فوجی آمریت کا دور آیا‘ جس پر ہر بار مقامی حکومتوں کے نظام کو فروغ ملا۔ یہ لکھتے ہوئے میرا سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے ہاں ہر فوجی آمر کا سیاسی نظام ہمارے جمہوری قائدین کے مقابلہ میں زیادہ جمہوری تھا؛ چونکہ اس میں لاکھوں عوامی نمائندے اُمور مملکت میں شریک تھے۔ ہماری موجودہ جمہوریت کی زمین میں کوئی جڑیں نہیں۔ جمہوریت کا عوام کی نچلی سطح سے وہی گہرا تعلق ہوتا ہے‘ جو گھاس کا زمین سے ہے۔ ہمارے سارے سیاسی قائدین عوام سے زیادہ سے زیادہ فاصلہ پر‘ بلکہ خوداپنی پارٹی کے کارکنوں سے بھی دُور رہتے ہیں۔ طاقت کے مخروطی اہرام کی چوٹی پر بیٹھ کر وہ نہ عوام کے احساسات اُمنگوں اور ضرورتوںکو سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ے کہ وہ بار بار ناکام ہوتے ہیں۔ بار بار ایوان ِاقتدار سے نکالے جاتے ہیں۔ اُن کی سادہ لوحی ملاحظہ فرمایئے کہ برسر عام پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ جواب حاضر ہے۔ آپ کی عوام سے دُوری اور لاتعلقی کی وجہ سے۔ عوامی مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے۔ اقتدار کے دستر خوان سے گرے ہوئے ٹکڑوں پر پلنے کی وجہ سے۔ وہ جمہوری پودا‘ جس کی جڑزمین میں پیوست ہوگی‘ اُسے کوئی نہیں اُکھاڑ سکتا‘ جو جمہوریت ایک گملے میں ہوگی ‘اُسے کبھی بھی اُٹھا کر باہر پھینکا جا سکتا ہے اور یہی ہمارے ملک میں بار بار ہوا ہے۔ پاکستان کا سیاسی نظام صرف جمہوری عمل سے چل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بلاتوقف یہ سچائی بیان کر سکتا ہوں کہ دس سال کی لولی لنگڑی اور اندھی۔ خستہ حال اور خامیوں سے بھرپور جمہوریت اپنی پیش رو دس سالہ آمریت سے ہزار درجہ بہتر تھی۔ آیئے ہم مل جل کر اس کی خامیوں کو دُور کریں۔ اسے عوام دوست بنائیں۔ دو بنیادی اصلاحات (متناسب نمائندگی اور صدارتی نظام)کو متعارف کرنے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اقتدار اور اختیار کی مرکزیت ختم کریں۔ ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیں (اور وہ بھی بااختیار اور خود مختار صوبہ )۔ قوت ِ اخوت عوام کو ہی اپنی اصل قوت بنائیں۔ گلے سڑے‘ بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ دیں۔ بنی گالہ یا بلاول ہائوس یا جاتی عمرہ سے ٹکٹ جاری کرنے کا تکلیف دہ مذاق ختم کر دیں۔ ہر سطح پر عوام کو بااختیار بنائیں(یہی رعایا اور عوام کے درمیان بنیادی فرق ہوتا ہے)۔ ہمارا ایک ہی مطمع نظر اور ایک ہی نصب العین ہو اور وہ ہو:All Power to the people. ۔ جب ہم اپنے سیاسی نظام کے چہرہ سے تمام بدنما تہمتیں ہٹائیں گے‘ تو ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف بڑھیں گے۔ آپ جاگیں گے ‘تو سویرا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں