حکمران کا ذہنی افلاس

پاکستان کی کم از کم نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اتنے برُے حالات میں زندہ ہے کہ بقول غالب ؔ: صبح کرنا شام کا لانا ہے‘ جوئے شیر کا۔ان بے چارے افتادگانِ خاک پر حکومت کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ میرے اندازے کے مطابق پانچ ہزار یا اس کے لگ بھگ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان ‘ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین‘ الیکشن جیتنے اور ہارنے والے بڑے سرکاری افسر‘جاگیر دار‘ بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ‘ بڑے کاروباری اداروں (اور بینکوں کے مالکان)‘ اخبارات اور ٹیلی ویژن کمپنیوں کے مالکان اورفوج کے جرنیل ۔ یہی ہمارے حکمران ہیں ۔ 71 سال پہلے انہیں ایک بنا بنایا ملک مل گیا۔ ایک مملکت خداداد۔ 1947 ء میں کیا ہوا؟ گورے صاحب سے آزادی ملی اور کالے صاحب کی غلامی کی زنجیروں نے ہمیں اس طرح جکڑ لیا کہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو انہیں توڑنے میں ناکام رہے اور اب عمران خان یونانی دیو مالائی کہانیوں کا افسانوی کردار ہرکولیس ( Hercules) بن کر ہمارے سیاسی افق پر اس دعویٰ کے ساتھ اُبھرے ہیں کہ وہ ہمیں اُن سے نجات دلائیں گے۔ وہ گلے سڑے اور عوام دشمن صوبائی اور وفاقی اراکین‘ فرسودہ اور بوسیدہ‘ دیمک زدہ نظام ِ کہنہ (Status Quo) کو پاش پاش نہ بھی کر سکے‘ تو اس میں ایک نظر آنے والی مثبت‘ جاندار‘ پائیدار اور عوام دو ست تبدیلی ضرور لا کر دکھائیں گے۔ بھٹو صاحب کے پاس ڈاکٹر مبشر حسن‘شیخ محمد رشید‘ جے اے رحیم‘ محمود علی قصوری اورمعراج محمد خان جیسے نظریاتی لوگ تھے۔ان میں صرف دو اوّل الذکر اُن کے ساتھ آخری دم تک رہے۔ باقی تین یکے بعد دیگرے ان سے جلد یا بدیر علیحدہ ہو گئے۔
عمران خان کے قریبی حلقے میں جناب شفقت محمود اور ڈاکٹر شیریں مزاری کے علاوہ اور کوئی دانشور نہیں۔ ایک بھی عوام دوست مفکر نہیں۔ سوائے خود عمران خان کے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ‘جس نے کوئی کتاب لکھی ہو۔ مجھے خدشہ ہے کہ اُن کے ساتھیوں کی بڑی اکثریت نے شاید کوئی اچھی کتاب پڑھی بھی نہ ہو۔ کیا وہ اُس افسر شاہی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اُن کے تبدیلی کے خواب کو عملی شکل پہنائے گی‘ جس کا ضمیر ہی مندرجہ ذیل چیزوں سے اُٹھا ہے۔ عوام د شمنی‘برتری اور بالادستی کا احساس‘ برطانوی راج کی رو ایات کے امین اور محافظ‘ اپنے سروں پر سرخاب کے پروں کی قلغی کا گمان‘ صدیوں پہلے لگائی گئی لکیروں کی فقیری اور اپنے آزمودہ نسخوں کی تکرار۔ افسرشاہی کی لیاقت دیکھنی ہو ‘تو اپنے بدترین معاشی بحران اور اربوں کھربوں کے قرضوں کو دیکھ لیں۔ قومی خزانے پر دیوالیہ پن کی ہر لحظہ اُونچی ہوتی دستک کی آواز سُن لیں۔ افسر شاہی کی دیانت دیکھنی ہو‘ تو احد چیمہ سے لے کر فواد حسن فواد کو دیکھ لیں۔ پنجاب میں بنائی گئی56 کمپنیوں کو چلانے والے بدترین بدعنوان لوگوں کے خلاف سپریم کورٹ کی قابل صد ستائش کارروائی سے معتبر اور گواہی اور کون سی ہو سکتی ہے؟ ان71 سالوں میں افسر شاہی کے تاریک آسمان پر صرف ایک روشن ستارہ جگمگایا‘ جس کا نام تھا مسعود کھدر پوش۔ ہاری کمیٹی میں اختلافی نوٹ لکھنے والا‘ سندھ طاس معاہدہ کا مخالف‘ پنجابی زبان کا پرچم بلند کرنے والا۔ ہماراالمیہ ہے کہ دس کروڑ سے زیادہ لوگ معاشی طور پر غریب ہیں اور اُن کے پانچ ہزار حکمران ذہنی طور پر‘ میں نے یہ سطر لکھی تھی‘ تو 1957 ء میں (ایم اے سیاسیات کی طالب علمی کے دوران) اپنے جرمن پروفیسر Dr. Fritters کا سکھایا ہوا سبق یاد آگیا۔ 
کارل مارکس کے نظریاتی مخالفAnarchist فلاسفرProudhon نے اشتراکیت کے خلاف کتاب لکھی‘ تو عنوان رکھا: The Philosophy of Poverty ظاہر ہے کہ کارل مارکس کو بہت غصہ آیا اور اُس نے اس کے جواب میں جو عالمانہ کتاب لکھی تھی‘ اُس کا نام تھا: The Poverty of Philosopity ۔ آپ جانتے ہیں (بقول مختار مسعود مرحوم قحط بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک غلہ اور خوراک کی قلت سے پیدا ہوتا ہے اور دوسرا قحط الرجال‘ یعنی ایک قوم میں اُن لوگوں کے نہ ہونے سے جنہوں نے صداقت۔ دیانت اور شجاعت کا سبق پڑھا ہو۔ یہ سبق پڑھنے والے قوموں پر حکمران بن کر مسلط تو ہو جاتے ہیں‘ مگر وہ ایسے امام ہر گز نہیں بن سکتے‘ جو قطبی ستارہ بن کر طوفانوں میں گھری ہوئی قوم کو راستہ دکھا سکیں۔
اس کالم نگار کی طرح کروڑوں ہموطنوں کو عمران خان کی نیک نیتی پر کوئی شک و شبہ نہیں۔ اُن کی دیانتداری پر کوئی چھوٹے سے چھوٹا سوالیہ نشان بھی نہیں لگایا جا سکتا‘مگرصرف نیک نیتی اور دیانتداری سے نہ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا جا سکتا ہے اور نہ شوکت خانم ہسپتال بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی نمل یونیورسٹی۔ اہلیت صلاحیت اور قابلیت کے بغیر اتنے بڑے کارنامے سرانجام نہیں دیے جا سکتے۔ میں عمران خان کو1964 ء سے جانتا ہوں‘ جب اُن کی عمر بارہ برس تھی اور وہ ایچی سن کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور میں وہاں پڑھاتا تھا۔ ایک عزیز دوست تصور حسین خاکوانی کے ساتھ میں تحریک انصاف میں اُس دن شامل ہوا تھا جب وہ معرضِ وجود میں آئی تھی۔ میرے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں تحریک انصاف کی زبرست اور تاریخی انتخابی کامیابی پر کتنا خوش ہوں۔ ظاہر ہے کہ میرے وہ سب ساتھی بھی اتنے ہی خوش ہوں گے‘ جو لاہور اکتوبر 2011 ء میں مینارپاکستان لاہور میں تاریخی جلسے سے پہلے عمران خان کے رفیق تھے اور یہ وہ دن تھے۔ جب کامیابی کے امکانات صفر کے قریب تھے۔ 
برطانیہ میںنصف صدی کے قیام نے مجھے سب سے اہم بات یہ سمجھائی ہے کہ اگر آپ کسی کو اپنا سیاسی قائد مانتے ہیں‘ تو اس کی خوشامد اور جی حضوری نہ کریں‘ نہ کوئی صلہ مانگیں اور نہ کوئی تمغۂ کارکردگی۔ اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں۔ موقع پرستی اور مصلحت اندیشی سے سخت پرہیز کریں۔ جو سچ سمجھیں ‘اسے بلا خوف و خطر کہیں اور لکھیں۔ کالم نگار ‘یوں بھی عمر کے اس حصے میں ہے کہ جہاں غالب ؔپہنچا تو اس نے لکھا:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
میں نے سکول کے زمانہ میں تحریک پاکستان کے مظاہروں میں حصہ لیا۔ اشک آور گیس سے پہلا تعارف1946 ء میں ہوا۔ پولیس کے لاٹھی چارج سے ہمیشہ اس لئے بچتا رہا کہ میں سپاہیوں سے زیادہ تیز دوڑ سکتا تھا۔ میں نے 1947 ء میں اپنا ملک بنتے دیکھا‘ گزرے ہوئے 71 سالوں میں اسے بگڑتے بھی دیکھا۔ اب میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں اسے پھر بنتے ہوئے‘ سنورتے ہوئے دیکھوں۔ تحریک انصاف کی کامیابی سے میری خواہش کی تکمیل کی عملی صورت پیدا ہوئی ہے۔ اس سال 14اگست کو اہل وطن نے جس والہانہ جوش و خروش سے منایا‘ اس کا میں نے یہ مطلب نکالا کہ انہیں بھی بہار آنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ انہیں بھی افق پر روشنی کی کرن نظر آئی ہے۔ اس کالم میں لکھی ہوئی سطور کے ذریعہ کالم نگار اپنے سابقہ طالب علم اور موجودہ قائد کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ وہ جلد از جلد ہر شعبہ کے ماہرین کی مجلس مشاورت بنائیں اور اس طرح کا طریق کار اپنایا جائے کہ نا صرف جناب عمران خان‘ بلکہ ان کی کابینہ کے تمام اراکین ماہرین کے عاقلانہ اور عوام دوست مشوروں سے مستفید ہو سکیں۔ چند معاشی معاہرین کے نام ایک بار پھر لکھتا ہوں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ڈاکٹر شاہدکاردار‘ جناب سبزواری‘ میرزا اشتیاق بیگ‘ محنت کش تنظیموں کے رہنما اور انجمن مزارعین (اوکاڑہ) کو پالیسی بنانے والوں میں شامل کریں۔ صحافیوں اور دانشوروں کو باقاعدگی سے ملتے رہیں تاکہ وہ اُنہیں Kitchen Cabinet کے نورتنوں کے دیئے گئے غلط مشوروں پر عمل کرنے سے باز رکھ سکیں۔ 
بقول جمال عبد الناصر ''انسانی تاریخ میں ایک رول ہیرو کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے ‘‘ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایک ایسا ہیرو مل گیا‘جو اقتدار کے گھوڑے پر بیٹھ تو گیاہے‘اب دیکھنا ہے کہ وہ شاہ سواری کے کون سے کمالات دکھاتا ہے؟سارے کے سارے حکمرانوں کے ذہنی افلاس کے باوجود۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں