تین تاریخی کردار

حال ہی میں تین شخصیات پر لندن کے ایک کتب خانے میں تین کتابیں دیکھیں۔ دل للچایا‘ مگر میں نے اسے سمجھایا کہ کتابوں کی قیمت زیادہ ہے‘ بعد ازاں لائبریری سے لے کر پڑھ لوں گا۔ انگریزدوستوں کو کرسمس کے تہوار کے موقع پر تحائف دے کر باقی لوگوں کی طرح میں بھی خطِ افلاس کے نیچے چلا جاتا ہوں۔ دِل (جو ایک فلمی گیت کے مطابق ہے ہی پاگل) عقل کی بات آسانی سے نہیں مانتا۔ اُس نے حسب معمول مچلنا شروع کر دیا۔ میں کبھی ایک کتاب اُٹھاتا کبھی دُوسری۔ میں ورق گردانی کر کے واپس شیلف پر رکھ دیتا۔ دکاندار خاتون نے یہ منظر دیکھا تو اُس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ سب کتابیں Sale پر ہیں اور نصف قیمت پر خریدی جا سکتی ہیں۔ اب دل کی بات نہ ماننا ممکن نہ رہا۔ آپ سے کیا پردہ۔ ابھی تک میں نے تینوں کتابیں لفظ بہ لفظ نہیں پڑھیں۔ (نہ معلوم وہ نوبت کب آئے گی؟) مگر میں نے ہر کتاب کے ضروری اور دلچسپ حصے اتنی توجہ سے پڑھ لئے ہیں کہ ان کے بارے میں لکھ سکوں۔
پہلی کتاب کا نام ہےTamta'sWorld۔434صفحات کی کتاب کیمبرج یونیورسٹی پریس نے شائع کی ۔ آپ کو کتاب کے نام سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ کتاب Tamta کی زندگی‘ اُس کے ماحول اور اُس دور میں رونما ہونے والے اہم واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔جنوب مغربی ایشیا کے ایک ملک آرمینیا کی رہنے والی تامتا کا تعلق اشرافیہ سے تھا ۔ وہ تیرہویں صدی کے شروع میں پیدا ہوئی اور تقریباً ساٹھ برس عمر پائی۔ تامتا اُن تمام بحرانوں‘ مصیبتوں اور عذابوں کے باوجود زندہ رہی جو تیرہویں صدی کے وسط ایشیائی ممالک میںکئی تلاطم اور طوفان پیدا کرنے کا موجب بنے ۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ منگول سلطنت کی اشرافیہ میں خواتین گھروں میں سارا وقت پردوں اور چلمنوں کے پیچھے 
چھپے رہنے کی بجائے معاشرے میں نمایاں اور مؤثر کردار ادا کرتی تھیں۔ منگول فتوحات یقینا انسانی جانوں کے بڑے پیمانے پر ضیاع کا باعث بنیں‘ مگر ان کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ اور ایشیا کے ساکن جامد ‘فرسودہ اور نیم مردہ معاشروں میں زندگی کی ایک نئی اور جاندار لہر دوڑی۔ایک غیر ملکی تہذیب اورتمدن (اپنے جارحانہ قبضہ کے باوجود) مقامی معاشرے میں اُسی طرح ایک قسم کے نشاۃ ثانیہ کا باعث بنی جس طرح اٹھارہویں سے لے کر بیسوی صدی تک کے ہندوستان میں برطانوی راج۔ تامتا وسط ایشیا کے ملک جارجیا میں ملکہ Tamar کے گھر پیدا ہوئی‘ جس کا تعلق آرمینیا کی اشرافیہ سے تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جارجیا اور آرمینیا کے لوگ مسیحی ہونے کے باوجود عیسائیت کے دو مختلف مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1210ء میں دو مصیبتیں نازل ہوئیں۔ تامتا کی والدہ وفات پاگئیں اور اس کے والد کو صلاح الدین ایوبی کی سپاہ نے گرفتار کر لیا‘ جو جارجیا پر حملہ آور ہوئی تو تامتا اُس کے خلاف لڑنے والوں میں شامل تھی۔ دفاعی جنگ ہار جانے والے قید کر لئے گئے۔ اُن کی رہائی کی شرط یہ تھی کہ تامتا کی شادی صلاح الدین ایوبی کے بھتیجے Al-Awhad سے کر دی جائے۔ وہ مشرقی اناطولیا کی ایک اہم ریاست Akitlasکا حکمران تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تامتا نے شادی کے باوجود اپنا مذہب تبدیل نہ کیا۔ بدقسمتی سے شادی سے صرف چند ماہ بعد تامتا بیوہ ہو گئی ‘اُس کا خاوند جنگ میں مارا گیا۔ تامتا کی شادی اُس کے دیور اشرف سے کر دی گئی۔ اُس نے اپنے مرحوم بھائی کا تخت سنبھالا اور دارالحکومت سے اپنی غیر حاضری کے دوران تامتا کو اپنے تخت پر بیٹھایا۔ بیس سال گزرے تو اک نئی مصیبت آگئی۔تامتا دوسری بار بیوہ ہوئی اور وہ بطور مالِ غنیمت ترک حکمران جلال الدین خوارزم شاہ کے قبضے میں چلی گئی اور اُس کے حرم میں داخل ہوئی۔ جلال الدین ‘ایران کو منگولوں کے حملے سے بچاتا ہوا1231ء میں مارا گیا۔ 1236ء میں تامتا کو ایک سلجوک سلطان نے اغوا کر لیا‘ مگر اس سے پہلے کہ وہ کسی اور حرم کا حصہ بنتی‘ اُسے منگول حملہ آوروں نے گرفتار کر کے منگولیا بھیجوا دیا‘ جہاں وہ 1245ء تک رہی۔ منگولوں نے اُسے اناطولیا کی ریاست Akhlat بھیجا‘جہاں وہ کئی سال قبل اُس وقت کے حکمران کی بیوی بن کر رہتی تھی۔ اب اُسے وہاں کا حکمران بنایا گیا اور اُس نے کاروبارِ مملکت اچھی طرح چلائے۔ منگول بادشاہ کو اُس پہ کوئی شکایت نہ ہوئی اور وہ زندگی کے آخری سانس تک تخت نشین رہی۔
دُوسری کتاب کا عنوان Empressہے۔ 308صفحات کا موضوع نور جہاں ہے۔ (میڈیم نور جہاں نہیں‘ بلکہ ملکہ نور جہان)۔ کتاب روبی لال نے لکھی اور بہت اچھی لکھی۔ روبی لال نے خاتون مصنف ہونے کی ذمہ داری اس طرح ادا کی کہ نورجہاں کی سوجھ بوجھ‘سلیقہ مندی‘ معاملہ فہمی‘ سیاسی جوڑ توڑ کرنے کے فن میں مہارت اور ذہانت کی خوبیوں کو اُجاگر کیا۔ کئی مورخوں نے نورجہاں کے کردار کو یوں مسخ کر کے پیش کیا ہے کہ جہانگیر تو سارا وقت نشے میں مدہوش رہتا تھا اور ایک بڑی چالاک اور مکار اور دغاباز خاتون اپنے خاوند کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر اُس کے تخت پر قابض ہو گئی۔روبی نے اس کی تردید کرتے ہوئے نورجہاں کی خوبیوں کو بڑی اچھی طرح اُجاگر کیا ہے۔ نور جہاں نے خود تو کوئی یادداشت نہیں لکھی‘ مگر جہانگیر نامہ میں اُس کا کثرت سے ذکر آتا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں اور سفارت کاروں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ نور جہاں شیر کاشکار کرتے ہوئے بندوق چلا سکتی تھی اور پولو کھیل سکتی تھی۔ شادی سے قبل نور جہاں کئی سال جہانگیر کے حرم میں رہی ‘مگر شادی 1611ء میں ہوئی جب اُس کی عمر 34 برس تھی۔ تب وہ بیوہ اور بچوں کی ماں تھی۔ جہانگیر نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ وہ نورجہاں سے سب سے زیادہ اُس وقت مرعوب ہواجب ایک شکار کی مہم کے دوران نور جہاں (جو ایک ایسے ہاتھی پر سوار تھی جو جھوم رہا تھا) نے چھ گولیاں چلا کر چار شیروں کو ہلاک کر دیا۔ نور جہاں محلاتی زندگی کے پس منظر سے نکل کر خود شاہی فرمان جاری کرتی تھی۔ چاندی اور سونے کے سکوں پر جہانگیر کے ساتھ اُس کا نام بھی کنندہ کیا جاتا تھا۔ وہ باقاعدگی سے جھروکے میں بیٹھتی تاکہ نا صرف اُمرا اور درباری‘ بلکہ عام لوگ اُسے دیکھ سکیں۔ جہانگیر کے مرنے کی دیر تھی‘ اُس کے سب ساتھیوں نے نظریں پھیر لیں۔ جب نور جہاں کے داماد اور چہیتے شہریار کی بجائے تخت نشینی کی جنگ شاہ جہاں نے جیت لی تو نورجہاں کے اقتدار کا سُورج غروب ہو گیا۔ اب وہ شاہدرہ میں دفن ہے۔
تیسری کتاب کا موضوع کوئی بادشاہ یا ملکہ نہیں ‘بلکہ ایک عام شہری ہیں‘ جن کا ہندوستان کی عصری تاریخ میں بلند مقام ہے۔ کتاب کا نام ہے جمال میاں ۔ان کا پورا نام تھا؛ جمال الدین عبدالوہاب فرنگی علی محلی۔454 صفحات کی کتاب آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Francis Rabinson نے لکھی۔ جمال میاں 1919ء میں لکھنو کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے دوبار ہجرت کی۔ پہلے لکھنو سے مشرقی پاکستان اور پھر وہاں سے کراچی۔ 1695ء میں شہنشاہ اورنگ زیب نے جمال میاں کے جدِ امجد کو ایک ایسی عمارت بطور تحفہ دی جو ایک یورپی تاجر کی ملکیت تھی۔ اس گھرانے نے وہاں اعلیٰ معیار کا دینی مدرسہ قائم کیا۔ جمال میاں کے والد میاں عبدالباری مسلم لیگ کے اولین اراکین میں شامل تھے۔ اُن کی عمر صرف 17 برس تھی‘ جب قائداعظم نے اُنہیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرنے کا موقع دیا۔ وہ چائے کی تجارت سے لے کر اخبار کی اشاعت تک کے کاروبار سے وابستہ رہے۔ مشرقی پاکستان جا کر وہ اصفہانی برادران کے شریک کار بن گئے۔ جمال میاں کی شخصیت کے کئی رنگ تھے۔ فاضل مصنف کو جمال میاں کی لکھی ہوئی ڈائری سے بہت مفید مواد ملا اور اُنہوں نے اپنی کمال کی دلچسپ کتاب اس نکتہ پر ختم کی کہ جمال میاں کا تعلق اشرافیہ کے اُس اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ حدر درجہ مہذب اور نستعلیق طبقے سے تھا ‘جو چند صدیاں قبل مغل سلطنت کا وفادار‘ تنخواہ دار اور تابعدار تھا۔ جمال میاں دُنیا سے گئے تو اُن کی ساتھ وہ عہد بھی ختم ہو گیا۔ اب وہ نسل دُنیا سے اُٹھ گئی جو سولہویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان پل کر درجہ رکھتی تھی۔ قر ۃ العین حیدر کی آنکھیں بند ہوئیں تو لکھنو ایک بار پھر اُجڑ گیا۔ کئی برس ہوئے جب کالم نگار اپنی بیوی کے ساتھ ایک دن کے لئے لکھنو گیا۔ وہاں کے روایتی یکہ پر دن بھر سواری کی مگر فرنگی محل نہ جا سکا۔ اب ارادہ رکھتا ہوں کہ اس سال جائوں اور یہ خواہش پوری کروں۔ جو کالم افسانوی ملکہ (تامتا) سے شروع ہوا وہ ایک اور افسانوی ملکہ (نورجہاں) سے ہوتا ہوا غیر افسانوی جمال میاں پر ختم ہوا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں