سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو

سائبیر یا کے برف زاروں سے سردیوں کے موسم میں ‘جب درجہ حرارت صفر سے پچاس درجہ کم ہوتا ہے‘ لاکھوں پرندے خصوصاً کونجیں جن گرم ممالک میں چند ماہ تعطیلاتِ سرما گزارتی ہیں‘اُن میں پاکستان میں ضلع ڈیرہ غازی خان اور صحرائے چولستان سر فہرست ہوتے ہیں۔ ان پناہ گزین پرندوں کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ وہ جس بے وقت موت سے بھاگ کر شمال سے جنوب کی طرف ہزاروں میل کی پرواز کرنے کے بے حد مشقت آمیز عمل سے گزر رہے ہیں‘وہ موت پاکستان میں اُن کا انتظار کر رہی ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے سادہ لوگ اُن کونجوں کو آسمانوں پر بڑی ترتیب اور سلیقے سے اُڑتے دیکھتے ہیں تو بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیں کہ جب آپ یہاں تک ہمت کر کے آہی پہنچی ہیں تو واپس جاتے ہوئے سخی سرور کے مزار کا احتراماً طواف کر تی جائیں۔میں جناب ظہور دھریجہ کو اتنا معتبر راوی سمجھتا ہوں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ کونجیں اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے ضرور چکر لگاتی ہیں اور وہ بھی بار بار تو مجھے اُس کی صداقت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ میں دھریجہ صاحب کا جتنا بھی شکریہ ا دا کروں کم ہوگا کہ اُنہوں نے اپنے کالم میں دو المیوں پر گریہ زاری کی۔ ایک ہے غیر ملکی شکاریوں کے ہاتھوں ہر سال ہزاروں پرندوں کا شکار اور دوسرے یہ کہ رسوائے زمانہ لینڈ مافیا نے چولستان پر چڑھائی کر دی ہے اور وہ سراسر ناجائز اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے وہاں زمینوں پر قابض ہوتا جا رہا ہے۔ آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ کیا مجال کہ کوئی سیاسی جماعت ان دونوں ظالمانہ اور ناقابلِ معافی جرائم کے مسلسل ارتکاب کے خلاف ایک لفظ بھی کہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سرائیکی صوبے کے قیام کے حق میں آواز بلند کرنے والے بھی اپنے سرائیکی علاقے کے زمین وآسمان پر ہونے والے مظالم کو دیکھ کر اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونس لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے کالم نگار سائبیریا کی کونجوں کی پرواز کے فضائی راستے ( light Path) سے چھ ہزار میل دور رہتا ہے‘ مگر خوش قسمتی سے ہر سال دو تین بار ضرور پاکستان جاتا رہتا ہے۔ اگلی بار اُس موسم میں جائوں گا جب کونجوں کی آمد آمد ہو گی۔ سرائیکی وسیب کے رہنے والوں کی طرح میں بھی آسمان کی طرف منہ کر کے کونجوں سے ہم کلام ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں کونجوں کو سخی سرور کے علاوہ پنجاب کے کئی مزاروں کا چکر لگانے کی دعوت دوں گا۔ لاہور میں علامہ اقبال اور داتا گنج بخش ؒ کے مزارات‘ قصور میں بلھے شاہ‘ پاک پتن میں بابا فرید ؒ‘ شور کوٹ میں سلطان باہوؒ اور مٹھن کوٹ میں خواجہ غلام فرید ؒ۔ حسنِ اتفاق سے یہ سارے مقامات سخی سرور کے مزار کے راستے میں آتے ہیں۔ میں کونجوں کو یہ مشورہ بھی دُوں گا کہ وہ اپنی خیر خیریت سے واپسی کی دعا مانگتے ہوئے پرواز جاری رکھیں۔ کالم نگار کونجوں سے اتنے طویل فاصلے پر رہنے کے باوجود اُن کی سلامتی کیلئے دعاگو ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی صلاحیت دے کہ میں اہل وطن کو سمجھا سکوں کہ ہم ان روسی پرندوں کے میزبان ہیں ان کا قتلِ عام آدابِ میزبانی کی خلاف ورزی ہے۔ 
روسی پرندوں اور تارکین وطن کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔ پرندے سخت سردی کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے اُسی طرح راہِ فرار اختیار کرتے ہیں جس طرح تارکین وطن ناقابل برداشت معاشی مشکلات سے۔ فرق صرف یہ ہے کہ (کالم نگار کی طرح) تارکین وطن نے گرم ممالک سے بھاگ کر سرد ممالک میں پناہ لی‘ جبکہ پرندے سرد خانوں سے اُڑ کر جنوبی پنجاب کے گرم صحرائوں میں اپنی ننھی سی جان کی حفاظت کیلئے جان جوکھوں کا سفر کر کے پناہ لیتے ہیں۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ شکاریوں کے باز اور عقاب اُنہیں زندگی کے بوجھ سے آزاد کر دیں گے۔ آج اقبال زندہ ہوتے تو روس سے پرواز کر کے پاکستان آنے والے پرندے اُن سے ضرور درخواست کرتے وہ خداوند تعالیٰ سے پوچھ کر بتائیں کہ سادہ دل بندے ہوں یا سادہ دل پرندے وہ جائیں تو کدھر جائیں؟ اُن کو امان ملے گی تو کہاں؟ مصمم ارادہ تھا کہ آج کالم نگار روس سے آنے والے پرندوں کا ہم رکاب ہو کر بادلوں کے اُوپر پرواز کرے اور دیکھے کہ اُس بلندی سے سرزمین پاک کس طرح نظر آتی ہے۔ پرواز کے دوران اقبالؒکا یہ ایک رجزیہ شعر (جو پاک فضائیہ کا Motto ہے) باآوازِ بلند گاتے ہوئے : ؎
صحراست کہ دریا است
تہہ بال و پر ما است
مذکورہ بالا ارادہ یوں ترک کرنا پڑا کہ میری نظر اسلم اعوان صاحب کے انہی کالموں میں شائع ہونے والی اُس فکر انگیز تحریر پر پڑھی جو 5 جنوری کو اسی صفحہ پر شائع ہوئی۔ عنوان ہے ''جمہوریت نے طبعی عمر پوری کر لی ہے‘‘ (آخر میں سوالیہ نشان بھی ہے) مناسب ہوگا کہ اُن کے لکھے ہوئے کالم کی آخری سطور نقل کر کے اُن پر تبصرہ کیا جائے۔ ''اس امر میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ جمہوریت اور عہدِ ماضی کے سیاسی نظام اپنی نظریاتی مبادیات اور بنیادی اقدار کو قائم نہیں رکھ پائیں گی۔ کیاہمیں جمہوریت اور سویلین بالادستی کی طلسماتی کشمکش کو ایک طرف رکھ کر زندگی کے امکانات کا استقبال کرنے کی تیاری کرنا ہوگی؟‘‘ یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کالم کی محدود جگہ اختصار کی متقاضی ہے۔ اوّل: انسانی تاریخ میںReverse Gearنہیں ہوتا۔ غلامی ہو یا جاگیر داری نظام‘ مطلق العنان بادشاہت ہو یا نو آبادیاتی نظام‘ اب وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں۔
چاہے کچھ بھی ہو جائے اب وہ سیاسی یا معاشی اُفق پر دوبارہ نہیں اُبھر سکتے۔ دوم:مساوات بنیادی انسانی حقوق‘قانون کی حکمرانی‘ سماجی انصاف‘سلطانی جمہور‘ حکمرانوں کا احتساب اور جوابدہی‘ قدرتی ماحول کی حفاظت‘ریاستی اداروں کا وجود‘ دورِ جدید میں انسانی معاشروں کی عمارت ان آٹھ ستونوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ زیر زبر اپنی جگہ‘ سلوٹیں اور رکاوٹیں اور ہر راہ میں پڑے ہوئے سنگِ گراں کی تعداد میں کمی بیشی بھی اپنی جگہ‘ مگر آپ اقبالؒ کی لکھی ہوئی ایک کمال کی نظم (زمانہ) پڑھ لیں تو آپ مان جائیں گے کہ تاریخ کا جدلیاتی عمل ہمیں صرف آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک قدم پیچھے تو پھر دو قدم آگے۔ سوم: (بقول اقبالؒ) قصہ جدید و قدیم دلیل کم نظری ہے۔ صرف 88 سال پیچھے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام اور فاشزم‘ یہ دونوں بڑے عذاب اپنے عروج پر تھے‘ مگر بیسویں صدی کے چھٹے عشرے تک ان کا نام و نشان اس طرح مٹ گیا کہ اب وہ دوبارہ کبھی جنم نہ لیں گے۔ مودی حکومت کے خلاف مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ اب اندھیرا کبھی روشنی پر اس طرح غالب نہ آسکے گا‘ جس طرح ہٹلر کے جرمنی ‘ مسولینی کے اٹلی‘ فرانکو کے سپین اور سلا زار کے پرتگال میں ہوا تھا۔ چہارم: وہ نام نہاد ‘کھوکھلا جمہوری نظام جس میں اشرافیہ عوامی نمائندگی کا ڈھونگ رچاتی ہے‘ برُی طرح ناکام ہو چکا ہے۔
ماضی قریب میں جنوبی امریکا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک زبردست احتجاجی مظاہرے اس ناکامی کا اعلان کرتے ہیں۔ رومانیہ‘ ہنگری اور پولینڈ استثنائی ہیں‘ باقی سارے یورپی ممالک میں جمہوری نظام بڑی خوش اسلوبی اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ اب ڈیڑھ دو سو سال پرُانے جمہوری نظریات نے مقامی حکومتوں‘ارتکازِ اقتدار کی نفی اور شراکتی جمہوریت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ نہ امریکا میں ٹرمپ کو دوام حاصل ہوگا اور نہ بھارت میں مودی اور جنتا پارٹی کو۔ انسانی تاریخ کی تختی پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اُس پر جو لکیر کھنیچ دی گئی ہے‘ ہمیں روشن سویرے کی بشارت دیتی ہے۔ ہم کونجوں سے پہلے کی طرح مخاطب ہوتے رہیں گے او روہ نہ صرف سخی سرور بلکہ کالم نگار کے بتائے ہوئے چھ اور مزاروں کا بھی طواف کرتی رہیں گی۔ خداوندتعالیٰ میرے اہل وطن کی حفاظت فرمائے اور اُن کے نہ جھکنے والے سروں پر اُڑنے والے روسی پرندوں کی بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں