تاریخ اور جغرافیہ کا احترام…(2)

15 اگست 1947 ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن ہندوستان میں برطانوی شاہ کے نمائندے کے عہدے سے نچلے درجے پر آکر بھارت کا گورنر جنرل بن گیا۔ 14 اگست کو مائونٹ بیٹن نے کراچی میں قیام پاکستان کی تقریبات میں اپنی پہلی حیثیت(وائسرے ہند) میں شرکت کی اور اگلے دن دہلی میں اپنی دوسری حیثیت(گورنر جنرل ہندوستان) میں۔ تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ قائداعظم سے لاہور میں ملا تو اُس نے یہ پیشکش کی تھی کہ پاکستان جموں و کشمیر کی ریاست لے لے اور ریاست حیدرآباد کی پشت پناہی اور آزادی کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم جیسے اصول پسند اور مدبر سیاسی رہنما کے لیے اس قسم کی سودے بازے قطعاً قابل قبول نہ تھی۔ قائداعظم نے نہ صرف اپنے پرانے اور پختہ مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے با امر مجبوری بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی کڑوی گولی قبول کی تھی بلکہ وہ ایک عام برطانوی وکیل سیرل ریڈ کلف کو دونوں صوبوں میں حد بندی کرنے اور تقسیم کی لکیر کھینچنے کا اختیار دینے پر بھی رضا مند ہو گئے تھے۔
نومبر2020 ء میں بھارت اور پاکستان میں کشیدگی اور سرد جنگ کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر اور وہاں کی مسلمان آبادی پر نہ ختم ہونے والا ظلم و ستم کا سلسلہ ہے۔ اکتوبر 1947 ء میں کشمیر میں ایک بڑا مسئلہ تو یقینا تھا مگر بھارت میں اس کے بارے درجہ حرارت بڑا معتدل تھا۔ Wolport کی بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو پر لکھی گئی کتاب کے صفحہ نمبر418 پر اور میرے بیٹے ڈاکٹر فاروق باجوہ کی کتاب From Kutch To Tashkenitکے صفحہ 23 پر گاندھی سے منسوب یہ مستند بیان درج ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی‘ اُنہیں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہئے۔ اگر بھارتی لوگ کشمیریوں پر دبائو ڈلوانے کیلئے کشمیر جا رہے ہیں تو انہیں اس سے روکنا پڑے گا‘‘۔مگر یہ باتیں سطحی ثابت ہوئیں اور 27 اکتوبر 1947ء کو رات کے اندھیرے میں بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے کشمیر میں فوجیں اتار کر جبراً قبضہ کر لیا۔ کشمیریوں نے بغاوت کی اور اپنی مدد آپ کے تحت آزاد کشمیر کا ساڑھے چار ہزار مربع میل علاقہ اور 29000 مربع میل گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد کرا لیا۔ کالم نگار کو پاکستان جمہوری تحریک اور خصوصاً مولانا فضل الرحمن صاحب سے ہزار اصولی اختلافات ہوں مگر دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ گوجرانوالہ‘ کراچی اور کوئٹہ تینوں جگہ ہونے والے بڑے جلسوں میں مولانا صاحب نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے قانونی اور آئینی Statusکے بارے میں حق گوئی کا مظاہرہ کیا اور وہی کچھ کہا جو آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے (جسٹس مجید ملک صاحب کی سربراہی میں) اپنے 174 صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلے میں لکھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کی توثیق کی۔ 1948 ء میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں (بھارتی حکومت درخواست دہندہ تھی) لے جایا گیا تو دونوں متحارب ممالک نے اپنے بیانات کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کے متفقہ نقشے بھی جمع کرائے‘ اُن کے مطابق گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا جزو تھا۔ کالم نگار یہاں تک پہنچا تو اُسے یاد آیا کہ اُس کی اپنی لائبریری میں پاکستان کی وہ اٹلس بھی موجود ہے جو 1985 ء میں سروے آف پاکستان نے میجر جنرل انیس علی سید کی سرکردگی میں سرکاری طور پر شائع کی تھی۔ آپ اس کا صفحہ نمبر44 دیکھ لیں‘ جو موٹی لکیر گلگت کے شمال میں چترال اور شمال مغرب کو پاکستانی کوہستان سے جدا کرتی ہے۔ وہی بھارتی قبضہ سے آزاد خطہ کو بھارتی مقبوضہ کشمیر دکھانے کے لیے کھینچی گئی۔
آج سے 49 برس پہلے کالم نگار نے طارق علی اور دو اور ہم خیال دوستوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کے لیے صوبائی خود مختاری کے مطالبے کی حمایت کی تو پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے ان چاروں پر طرح طرح کے الزامات کی بھرمار کر دی۔ کالم نگار پر دہرا عذاب اس لئے ٹوٹا کہ وہ اُن دنوں بی بی سی پر اُردو میں خبریں سناتا تھا۔ مصیبت کی تیسری وجہ یہ تھی کہ کالم نگار شمال مغربی برطانیہ کے جس شہر میں رہتا تھا اور جہاں کم از کم 25 ہزار ہم وطن اُس کے پڑوسی تھے‘آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اُن کے کالم نگار کے خلاف شدید غصہ کا درجہ حرارت کیا تھا۔ اتنا زیادہ کہ کالم نگار کے گھر اور بال بچوں کی مقامی پولیس کو ہمہ وقت حفاظت کرنا پڑی۔البتہ ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں دو بسیں تبدیل کرکے سفرکرنے کی بجائے پولیس کی سیاہ شیشوں والی گاڑی میں آرام سے بی بی سی کے نشریاتی مرکز آتا جاتا تھا۔ میری ذہنی اذیت بہت زیادہ تھی مگر اُن دنوں کالم نگار جوان تھا ‘ جب آدمی کا خون گرم اور حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔
یہ کالم آدھی رات کو لکھاجا رہا ہے اور اس وقت کالم نگار کی خدمت گزار اور وفا شعار بیوی سوئی پڑی ہے اوریہ سطور اُن کی لاعلمی میں لکھی جا رہی ہیں۔ وہ جاگ رہی ہوتیں تو میرے بڑھاپے کے تقاضوں کے پیش نظر مجھے یہ سطور ہر گز نہ لکھنے دیتیں۔ وہ (ہر اچھی بیوی کی طرح) مجھے اکثر ڈراتی رہتی ہیں ۔ 84 برس کی عمر میں مجھ میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ ایک بار پھر الزامات کا ہدف بنوں او رپھر باقی عمر اپنے دفاع میں سر کھپاتے گزار دوں۔مگر جان کی اماں مانگتے ہوئے یہ سچائی بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان جموں کشمیر کا حصہ ہے۔ مجھے اعتبار نہیں آتا کہ ہمارے ایک بڑے ذہین اور عوام دوست اور روشن دماغ سابق سفیر شمشاد احمد صاحب نے جناب حفیظ اللہ نیازی کے گھر منعقدہونے والی فکری نشست میں فرمایا کہ اگر ہماری حکومت گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان میں ضم کر کے اسے ہمارا پانچواں صوبہ بنالے تو کشمیر پر ہمارے 68 سالہ پرانے موقف پر کوئی زد نہ پڑے گی۔تاریخی حقائق کی روشنی میں اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا۔میرا مشورہ ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی کوئی کمی نہیں‘ آپ ان سے پوچھ دیکھئے۔ بدقسمتی سے ہمارے وزیر قانون جو صدر پاکستان کو سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس میں مناسب اور قانونی مشورہ دینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ان ماہرین میں شمار نہیں کئے جا سکتے۔ کالم نگار حکومت پاکستان کو یہ دوستانہ مشورہ دے کر آج کے کالم کو ختم کرے گا کہ ہم اُس سنگین غلطی کا ارتکاب ہر گز نہ کریں جو جنرل ایوب خان نے کشمیر کا ایک حصہ چین کو دے کر اور بلوچستان کا ایک حصہ ایران کو دے کر ان دو پڑوسی ممالک کو خوش کرنے کی صورت میں کی تھی۔ خوش قسمتی سے ہمارے قابلِ احترام ماہر قانون اور قابل ترین سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر صاحب ‘ان کے علاوہ پروفیسر ہمایوں احسان صاحب‘بلال صوفی صاحب‘ عفت عمر صاحبہ‘بابر ستار صاحب‘ سلمان راجہ صاحب‘ ڈاکٹر عبدالباسط صاحب اور احمد رافع عالم صاحب بھی ان ماہرین میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ آپ ان کی ماہرانہ رائے لے لیں‘وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کالم نگار ‘جس نے نوٹنگم یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون میں 30 سال پہلے LLM کی ڈگری لی تھی‘سے اتفاق کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں