باجرے دی راکھی

پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے سیاسی اور غیر سیاسی رہنما نہ اندھے ہیں‘نہ بہرے اور نہ گونگے‘ مگر اُنہیں کچھ نظر نہیں آتا اور کچھ سنائی نہیں دیتا۔ عوام سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے برسر پیکار ہے۔ خانہ جنگی کا منظر ہے‘ ہر طرف دُھول اُڑ رہی ہے۔ چار سُو بے ہنگم شور‘ فساد‘ تصادم‘ جنگ و جدل۔ الزامات کا لاٹھی چارج‘ گالیوں کا پتھرائو۔ دوسرے خوش نصیب ملکوں میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ملک کے مسائل حل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں‘ مگر ہماری بدنصیبی ملاحظہ فرمایئے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بذاتِ خود ہمارا ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہیں۔ اجازت دیجئے کہ اُن کے بارے میں انگریزی زبان کا ایک محاورہ درج کیا جائے: They are not part of the solution, But part of the problem.
کالم نگار کا مؤقف یہ ہے کہ قومی مسائل صرف قومی اتفاقِ رائے سے حل ہو سکتے ہیں۔ قومی اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے قومی مجلس مشاورت ضروری ہے‘ بشرطیکہ قومی مجلس مشاورت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں‘ تمام مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ہر شعبہ کی نمائندہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس مشاورت وکلا‘ صحافیوں‘ مذہبی رہنماؤں‘ اساتذہ‘ طلبا و طالبات‘ ڈاکٹروں‘ سرکاری اور غیر سرکاری ملازموں‘ ادیبوں‘دانشوروں‘ کسانوں اور مزدوروں کی نمائندگی کرے۔ سول سوسائٹی کے مذکورہ بالا ستون مل کر ہمارے غیر مستحکم سیاسی نظام اور اجتماعی ڈھانچے کو بچا سکتے ہیں۔ اضطراب اور انتشار ہے کہ ہر لحظہ بڑھتا جا رہاہے۔ اگر آپ کو مادرِ وطن کا تھوڑا سا بھی لحاظ ہے تو آپ میرے جیسے گمنام‘ کمزور‘ غریب الوطن مگر فکر مند اور محب الوطن عام شہری کی نہیں تو ٹی وی اینکر اور سینئر تجزیہ کار کامران خان صاحب کی فریادسُن لیں۔کالم نگاراُس وقت تک یہ سچائی دہراتا رہے گا جب تک آپ اُس کی Wake Up Callپر کان نہیں دھرتے۔میں اپنے مؤقف کو نکات کی صورت میں بیان کروں تو مجھے لکھنے میں اور آپ کو پڑھنے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے بڑے قومی مسائل مندرجہ زیل ہیں‘ جن سے سیاسی جماعتیں بالکل غافل ہیں یا انہیں ثانوی اہمیت دیتی ہیں۔ 
1:پاکستان جیسے زرعی ملک کو نہ صرف معاشی خوشحالی بلکہ قومی سلامتی کیلئے بہترین زرعی پیداوار کی ضرورت ہے۔ امریکی اثر و رُسوخ کے تحت ہماری زراعت کا ہر پہلو (کھاد‘ بیج اور کیڑے مار دوائیاں) مغربی ممالک کی یلغار کا نصف صدی سے برُی طرح شکار ہے۔ آپ خود وہ انگریزی مضمون Internetپرپڑھ لیں جو برطانیہ کے اخبار گارڈین میں اس میدان کی ایک ماہر خاتون نے لکھا ہے۔ بہترین مثال ہمارے ملک میں کپاس کی فصل کے نہ ختم ہونے والے بحران کی دی جا سکتی ہے۔
2: اگر زراعت ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو پھر اس کا مفلوج ہو جانا ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں۔ آپ ذرا سوچیں کہ کاشتکاروں کی تنظیم کے جائز مطالبات مان لینے میں کون سی بڑی رکاوٹ ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں ہے؟ کسانوں کی حمایت میں آواز بلند کرنا وکلا‘ اساتذہ اور صحافیوں کا فرض ہے۔
3:زراعت کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی ہمارے لئے رگ ِجاں کی اہمیت رکھتا ہے۔ کسانوں کی طرح اساتذہ بھی سراپا احتجاج بن کر پنجاب کے ہر شہر کی بڑی سڑک پر احتجاج کر چکے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو مل کر سرکاری نظام تعلیم کی بہتری‘اساتذہ کی حق تلفی کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنوانا چاہئے۔ آپ اس فہرست میں ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکر بھی شامل کر لیں۔
4:ہمارا ایک بڑا اخبار مبارکباد کا مستحق ہے کہ اُس نے مجرموں کے ساتھ سودے بازی (Plea Bargain) کے موضوع پر ایک کمال کا اداریہ لکھا۔ وہ وکلا کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وکلا کی جو تنظیمیں (بار ایسوسی ایشنز) سیاسی مسائل پر بجا طور پر سرگرم عمل ہیں مگر وہ اُس موضوع پر خاموش ہیں جو اُن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
5:جمہوری نظام کا مطلب چند سو امیرترین لوگوں پر مشتمل ایک قومی اور چار صوبائی اسمبلیاں نہیں ہوتیں۔ جمہوری نظام کانوے فیصد حصہ مقامی حکومتیں ہوتی ہیں۔ مقامی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات جو اعلیٰ عدالتوں نے کروائے‘کو منعقد ہوئے اب ایک عرصہ گزر گیاہے‘ مگر ابھی تک نئے انتخابات کا سرکاری حکم نامہ جاری نہیں ہوا اور نہ مستقبل قریب میں امکان نظر آتا ہے۔ موجودہ سیاسی نظام کی بنیادیں ریت کی بنی ہوئی ہیں۔ وہ نہ عوام کی نمائندگی کرتی ہیں اور نہ عوام دوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام اتنا غیر مستحکم اور ناپائیدار ہے کہ کبھی بھی منہدم ہو سکتا ہے۔
6:ماضی قریب میں ہمارے ہاں امن و امان کا ڈھانچہ شدید متاثر ہو چکا ہے۔ آیئے ہم مستقبل کی فکر کریں۔ہمارے نازک اندام (Fragile)اور نوزائیدہ ملک (جو 1971 ء میں ایک بار ٹوٹ چکا ہے) میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟جواب سیدھا سادہ ہے بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہماری سرحدیں ملتی ہیں جبکہ کراچی میں مافیاز کا فسطائی قبضہ اور رائو انوار جیسے پولیس افسروں کی سرکاری سرپرستی۔ ذمہ دار اداروں کی انتہائی نالائقی اور انتہائی درجہ کی کرپشن کی وجہ سے عزیر بلوچ جیسے ہزاروں ٹولوں اور جتھوں کی پیدائش اور زبردست نشوونما۔ سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی مداخلت پر تحفظات سے قطع نظر دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس محاذ پر فوج کے کردار کی اتنی تعریف کی جائے جس کی وہ مستحق ہے۔
7:پاکستان کی موجودہ حکومت نے پچھلے دو برسوں میں ہزاروں ارب روپیہ قرضہ لیا ہے اور اب قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اگر ہم غیر ملکی قرض کا کنواں اور گہرا کھودتے چلے گئے تو ہم اس میں اس طرح گر پڑیں گے کہ باہر نہ نکل سکیں گے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی سا لمیت کو اتنا بڑا خطرہ غیر ملکی جارحیت سے نہیں جتنا غیر ملکی قرض سے ہے۔ اگر ہم ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور ڈاکٹر مبشرحسن (مرحوم)کے دیے ہوئے مشورے‘جو ہمارے لئے نسخۂ کیمیا ہیں‘مان لیں اور اُن پر عمل کریں تو ہم اس دلدل سے نکل سکتے ہیں۔
8:اہل وطن کی اکثریت بلوچستان کے بارے میں بالکل درست رائے نہیں رکھتی۔ آپ ڈاکٹر عبدالحیٔ بلوچ‘ سابق سینیٹر جناب ثنااللہ بلوچ اور اختر مینگل صاحب جیسے بلوچ رہنمائوں کے مؤقف کو کیوں دھیان سے نہیں سنتے اور ان کے اچھے مشوروں کو نہیں مانتے؟ کیا آپ اُس برُے وقت آنکھیں کھولیں گے جب خدانخواستہ پانی ہمارے سر کے اُوپر سے گزر چکا ہوگا۔
جو گیت طالب جالندھری نے لکھا‘ ماسٹر عبداللہ نے موسیقی ترتیب دی‘ نورجہاں اور فریدہ خانم نے گایا وہ ہمیں بڑی معقول تجاویز فراہم کرتا ہے اور کالم نگار آپ سے درخواست کرتا ہے کہ آپ اپنے باجرے دی راکھی خود کریں ورنہ اسے بھانت بھانت کی چڑیاں چگ جائیں گی۔ جب ہماری لہلاتی فصل اُجڑ جائے گی (خدا کرے وہ روزِ بدکبھی نہ آئے) تو وہ سب پرندے اُڑ کر اُن گھونسلوں میں جا چھپیں گے جہاں اُنہوں نے اپنے خزانے پہلے ہی چھپائے ہوئے ہیں۔ 
آخر میں اس کالم کے عنوان کا معنی بتانا ضروری ہے۔ پنجابی زبان (جو پنجاب کے متوسط طبقہ کو بھی نہیں آتی) میں ''باجرے دی راکھی‘‘ کا مطلب ہے اپنی اُگائی ہوئی فصل کی دیکھ بھال اور اس کا مفہوم ہے اپنے پیارے وطن کی حفاظت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں