Plutocracy

غالباً آپ اس کالم نگار سے اتفاق کریں گے کہ عوام اپنے لاتعداد مسائل کے حل کیلئے ہر نئی حکومت سے بڑی بڑی اُمیدیں لگانا شروع کر دیتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ موجودہ نظام کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی سیاسی قیادت حقیقی معنوں میں جمہوری‘ اور عوام کی نمائندہ ہے اور عوامی مسائل کا ادراک رکھتی ہے؟ اور کیا یہ عوام دوست بھی ہے؟ اس لیے کہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آنے والی قیادت کی غالب اکثریت جاگیرداروں‘ وڈیروں، بڑے سرمایہ داروں اور مراعات یافتہ ارب پتی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پچھلے تمام انتخابات میں اسی قسم کے لوگ اقتدار میں آتے رہے ہیں جبکہ جمہوریت کی مقبول ترین تعریف ابراہام لنکن کے بقول ''عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ ہوتی ہے مگر پاکستان میں اس قسم کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ علم سیاست کی رُو سے ہر انتخاب کے بعد جو سیاسی نظام اور حکومت وجود میں آتی ہے اسے کسی صورت میں جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ درحقیقت امیر شاہی یعنی پلوٹوکریسی (Plutocracy) ہوتی ہے جس کی تشریح ان الفاظ میں ملتی ہے:
"Plutocracy refers to rule of power through wealth or by the wealthy, where the degree of economic inequality is high while the level of social mobility is low. The wealthy have disproportionate influence on the political process, and a very small percentage of extremely wealthy individuals control the government, appropriating most of the financial benefits. These plutocrats also control the executive, legislative and every aspect of government."
''یعنی امرا شاہی (پلوٹوکریسی) سے مراد ایسے معاشرے میں مراعات یافتہ امیر لوگوں کا دولت کے ذریعے حکومت اور اقتدار کا حصول ہے‘ جہاں معاشی اونچ نیچ بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ غریبوں کے لیے ترقی کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل میں امرا کا اثر ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور ایک قلیل تعداد میں امیر لوگ حکومت پر قابض ہوتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ امرا کا یہ گروہ حکومت کے تمام شعبوں پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے‘‘۔
امرا شاہی یعنی پلوٹوکریسی کی ایک اور خاصیت یہ ہوتی ہے کہ امیر ترین لوگ ٹیکس اور محصولات کی ادائیگی نہیں کرتے۔ پاکستان میں اس کا ثبوت یہ ہے کہ بلا واسطہ (Direct) ٹیکسوں کا تناسب کل وصولیوں کا دس فیصد سے بھی کم ہے اور ٹیکسوں کا نوے فیصد سے زیادہ بوجھ غریب عوام پر منتقل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں چوٹی کے بعض افسران بھی پلوٹوکریٹس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کو اس قسم کی مراعات اور تعیشات ملتی ہیں جو سویلین جاگیردار سیاست دان اپنے لیے مخصوص کئے رکھتے ہیں؛ چنانچہ 1999ء کی مداخلت کے بعد آمر حکمران نے امرا پر لگنے والا بلا واسطہ دولت ٹیکس (Wealth Tax) کا قانون سرے سے ختم کر دیا اور عوام پر بالواسطہ ( Indirect) ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھا دیا۔2002 ء کے انتخابات کے بعد جو سویلین حکومت قائم ہوئی‘ وہ بھی حسب سابق امرا (پلوٹوکریٹس) کی حکومت تھی جس نے ٹیکسوں کا عوام دُشمن نظام قائم رکھا۔
پلوٹوکریسی میں ارب پتی لوگوں کے مجرمانہ ٹولوں (مافیا) اور زرعی نظام میں بڑے بڑے زمینداروں اور وڈیروں کا غلبہ ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر جاپان کی شکست کے بعد امریکی جنرل میک آرتھر (Macarthur)کو اس ملک کا منتظم مقرر کیا گیا۔ معاہدہ امن میں جاپان نے دو انتہائی اہم شرائط کو قبول کیا تھا۔ ایک شرط امن قائم رکھنے کی پابندی تھی اور دوسری شرط جاپان میں جمہوری نظام کا قیام تھا؛ چنانچہ جاپان کا موجودہ پارلیمانی جمہوریت کا آئین جنرل میک آرتھر کے دفتر میں تیار کیا گیا‘ جسے جاپانی پارلیمنٹ نے منظور کر کے لاگو کیا۔ اس وقت جاپان میں جاگیرداری اور بڑی زمینداریوں کا نظام قائم تھا۔ جنرل میک آرتھر نے جاپانی وزیر اعظم کو قائل کر لیا کہ جاگیرداروں کی موجودگی میں جمہوریت کا قیام ناممکن ہے ۔ اس کے بقول جاگیرداری نظام غریب انسانوں کے لیے غلامی کا ایسا نظام تھا جس میں زرعی زمینوں پر لاکھوں لوگ غلام کی طرح کام کرنے پر مجبور تھے جبکہ تمام فوائد امیر زمینداروں کے لیے مخصوص تھے؛ چنانچہ جنرل میک آرتھر اور جاپانی وزیر اعظم پوشیڈا نے انقلابی زرعی اصلاحات کر کے جاپان سے فیوڈل ازم کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور بے زمین کاشت کار زرعی زمینوں کے مالک بن گئے۔ اس طرح وہاں عوام دوست جمہوری اداروں نے ملک میں جڑ پکڑی اور ملک نے بے مثال ترقی کی۔
امیر شاہی (Plutocracy) کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے 24 اپریل 1943ء کے اجلاس میں یہ کہا تھا:
''یہاں میں ان بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جو اس نظام کے تحت ہماری قیمت پر پھل پھول رہے ہیں جو اس قدر خو فناک ہے جو اس قدر ظالمانہ ہے جو انہیں اس قدر خود غرض بنا دیتا ہے کہ وہ کوئی معقول بات سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں شامل ہو گیا ہے۔ وہ اسلام کا سبق بھول گئے ہیں۔ لالچ اور خود غرضی نے انہیں دوسروں کے مفاد سے بیگانہ کر رکھا ہے تا کہ یہ خود موٹے ہوتے رہیں۔ یہاں کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کو بمشکل دن میں ایک دفعہ کھانا نصیب ہوتا ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کروڑوں کو استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے‘‘۔
قائد کے یہ خیالات قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت 123 سے مطابقت رکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اوراس طرح لگا دیا ہے ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو کہ وہ اپنے مکر و فریب کے جال پھیلائیں وہاں اور نہیں مکر و فریب کرتے وہ مگر اپنے ہی ساتھ لیکن انہیں شعور نہیں‘‘۔ پاکستانی عوام کی بد قسمتی ہے کہ آزادی کے بعد قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی حکومت جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ہاتھوں میں چلی گئی اور نوآبادیاتی طرز پر بنائے گئے ہر آئین نے بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ انہوں نے اختیارات کی مرکزیت والی انتظامیہ اور پولیس کا جابرانہ نظام عوام کی گردنوں پر کس کر باندھ دیا جس کے تحت کسی قسم کی عوام دوست اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ ایسا ظالمانہ نظام جو صرف امیر شاہی (پلوٹوکریسی) کو تقویت دیتا ہے کسی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہونا چاہیے‘ چاہے وہ انگلستان، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا جیسی پارلیمانی جمہوریتیں ہوں یا صدارتی طرز کی جمہوریت۔ یہی وجہ سے کہ ہمارے 1973ء کے آئین (اصلی حالت) میں لفظ جمہوریت ''آزاد عدلیہ‘‘ اور ''قانون کی حکمرانی‘‘ جیسے الفاظ کہیں نہیں ملتے۔ اس قسم کے نظام کے لیے ہندوستان کے مشہور قانون دان نینی اے پالکھی والا نے اپنی کتاب We the Nation میں لکھا تھا: ترجمہ‘''یعنی (نام نہاد) جمہوریت اور آزادی ہم معنی نہیں ہوتے۔ بالغ رائے دہی تو آپ کو اپنے استحصالی جابروں کو چننے کا حق دیتی ہے‘‘۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں