نیا عمرانی معاہدہ

حاصلِ کلام یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی‘مساوات اورانصاف پر مبنی نظام قائم کرنے اور انقلابی تبدیلی لانے کے لیے فلاحی‘ جمہوری اور عوام دوست نیا عمرانی معاہدہ مرتب کرنا ہوگا۔ قیام پاکستان کے 74 سال بعد بھی پاکستانی قوم کو آزادی نصیب نہیں ہوئی اور وطنِ عزیز ابتلا و آزمائش کے تاریک بھنور میں گھر چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈال کر نو آبادیاتی حکمرانوں کے جانشینوں نے عوام کو اقتدار میں شریک کرنے کے بجائے نظامِ کہنہ کے تسلسل کو ترجیح دی۔ ایک طرف غیر جمہوری حکمرانوں نے ملک کو تاریک ادوار (Dark Ages ) میں دھکیل دیا تو دوسری طرف سول حکمران عہدِ غلامی کے جابرانہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے سحر سے نکل کر مقامی ضروریات اور عوامی اُمنگوں کے مطابق آئینی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجے کے طور پر سول اور فوجی آمر ادل بدل کر آتے رہے۔ اقتدار اور قومی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے عوام الناس‘ جہالت‘ بھوک‘ غربت اور دہشت گردی کی آگ میں جلتے رہے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ہمارے موجودہ آئین کی بنیاد یعنی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء پر متعدد بار شدید تنقید کی تھی۔12 اپریل 1936 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے بمبئی اجلاس میں انہوں نے اس نو آبادیاتی ایکٹ کو شکست خوردہ جرمن قوم پر ظالمانہ طریقے سے ٹھونسنے گئے معاہدہ وارسائی (Treaty of Versailles ) سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ موقع ملتے ہی وہ اس کو پھاڑ کر پھینک دیں گے۔ انہوں نے 1947 ء میں دستور ساز اسمبلی کے سیکرٹری ایم بی احمد صاحب کو پرزور طریقے سے ہدایت کی تھی کہ وہ کوشش کریں کہ پاکستان کے نئے آئین میں نو آبادیاتی ایکٹ کی شقیں شامل نہ ہو سکیں لیکن بدقسمتی سے یہی خوفناک ایکٹ ہی پاکستان میں دستور ساز ی کی بنیاد بنا رہا۔ چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
1۔1973ء کے آئین میں نو آبادیاتی طریقوں کی نقل کرتے ہوئے اسمبلیوں کی بے تحاشا بڑی نشستیں مقرر کی گئی ہیں۔ سینکڑوں میلوں پر پھیلے ان حلقوں میں صرف فیوڈل‘ سردار اور ارب پتی سرمایہ دار ہی اتنے مہنگے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ یہ حلقے تمام پارلیمانی‘ جمہوریتوں کے حلقوں سے چھ سات گنا بڑے ہوتے ہیں لہٰذا پارلیمانی حکومت کی بنیاد عوامی ایوان پاکستان میں کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔مزید یہ کہ یہاں غیر جمہوری موروثیت کی حامل سیاسی جماعتوں پر کوئی پابندی نہیں ہے؛ چنانچہ عوام اور متوسط طبقے کے عوام دوست سیاسی کارکن سیاسی عمل سے ہمیشہ خارج ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ تمام انتخابات اس کا ثبوت ہیں۔ اسی طرح پاکستانی سینیٹ کے اراکین بھی عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب نہیں ہوتے جس سے جمہوریت اور عوامی نمائندگی کی نفی ہوتی ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دارالعوام میں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے باعث90 فیصد سے زیادہ اراکین اسمبلی متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں پروفیشنلز‘ ریٹائرڈ اساتذہ‘ صحافی‘ ادیب‘ چھوٹے کاروباری لوگ‘ متوسط طبقے کی خواتین‘ مزدور‘ کان کن جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی آبادی پاکستان کا ایک تہائی ہے مگر دارالعوام کے اراکین کی تعداد تین گنا زیادہ ہے اور ایوان بالا کے اراکین کی تعداد چھ گنا زیادہ ہے۔
2۔1973ء کے آئین کے تحت ججوں کی تقرری کے اختیارات حکومتوں کو دیے گئے ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی‘ غیر جانبداری اور قانون کی حکمرانی متاثر ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ یہ آئین غیر جانبدار جیوری کے ذریعے مقدمات کے فیصلوں کا کوئی نظام بھی مہیا نہیں کرتا جبکہ اس طریقہ کار کو عوام کا بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔
3۔اس آئین میں حکومت کو نو آبادیاتی طرز پر آرڈنینسوں کے ذریعے قانون سازی کے اختیارات دیے گئے ہیں۔یہ طریقہ جمہوریت اور آزادی کے خلاف ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ انگلستان میں سترہویں صدی میں آرڈیننس جاری کرنے والے آمر کرامویل کی لاش کو بطور عبرت سرعام لٹکا دیا گیا تھا۔ پاکستان میں ملکی ذرائع پر ڈاکا ڈالنے والوں کی مدد کے لیے اور عوام کے مفاد کے خلاف مقررہ سازشوں کے لیے آرڈیننسوں کے غیر جمہوری طریقے کا ہمیشہ بے دریغ استعمال کیا گیا۔ NRO اس کی بدترین مثال ہے۔
4۔ آئین میں جمہوریت کی بنیاد یعنی مقامی انتظامیہ‘ پولیس‘ تعلیم‘ صحت‘ سماجی خدمات وغیرہ کے اختیارات کے حامل یونین کونسل تحصیل و ضلع کی سطح پر لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے قیام کا کوئی نظام نہیں ہے اور ملک اور عوام غیر جمہوری مرکزیت کے استحصال کا شکار رہتے ہیں۔
5۔موجودہ ریاستی نظام صوبائی خود مختاری کی نفی کرتا ہے۔ قائداعظم نے 12 اپریل1936ء کے دن اپنے انٹرویو میں 1935 ء کے ایکٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے صوبائی خود مختاری کی نفی ہوتی ہے۔ انہوں نے 15 اگست1939 ء کے بیان میں کہا تھا کہ ایسے ملک میں جہاں متعدد قومیں بستی ہوں وہاں پارلیمانی جمہوریت کا قیام ناممکن ہوتا ہے۔
6۔ آئین کے باب نمبردو کی شقوں پر عمل کرانے کے لیے آرٹیکل (2 )30 کے تحت کوئی عدالت حکومت کو مجبور نہیں کر سکتی۔
7۔موجودہ آئین کی رُو سے صدر مملکت کو سزایافتہ مجرموں کو معافی کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس طرح صدر اور وزیراعظم‘ گورنر وغیرہ کو عدالت میں پیش ہو کر جوابدہ نہیں کیا جا سکتا جو جمہوریت اور اسلامی عدل و انصاف کے خلاف شقیں ہیں۔
8۔موجودہ آئین کے تحت حکومت آمرانہ طریقے سے ہنگامی حالات کا اعلان کر کے بنیادی حقوق کو معطل کرنے کے نو آبادیاتی اختیارات رکھتی ہے۔
9۔ فیوڈلز اور بڑے بڑے وڈیروں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے تاکہ جاگیرداری پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہ لگ سکے۔ پاکستان کی استحصالی حکومتوں نے امیر لوگوں پر دولت اور گفٹ ٹیکس ختم کر کے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔
10۔پاکستان کے نو آبادیاتی طرز کی سیاسی نظام میں حکومت کے کرپشن اور قومی ذرائع کی ضیاع کو روکنے کے لیے حزب اختلاف کی طرف سے متبادل کابینہ (شیڈوکابینہ) کے قیام کا کوئی انتظام نہیں۔ اس طرح عوام کا بے دریغ استحصال جاری رہتا ہے اور کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔
اوپر بیان کردہ حقائق کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ نو آبادیاتی طرز کے نظام کی وجہ سے پاکستان میں ہر قسم کی ناانصافی کرپشن اور عوامی استحصال کو فروغ ملا ہے اور فیوڈل ازم‘ سرداری نظام سرمایہ پرستی اور عوام دشمن افسر شاہی کا نو آبادیاتی نظام مضبوط ہوا ہے‘ لہٰذا پاکستان کو فوری طور پر ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمارا موجودہ نظام پارلیمانی جمہوریت سے کوسوں دور‘ بنیادی طو رپر نو آبادیاتی نظام ہے جسے دھوکے سے پارلیمانی جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن حقیقی جمہوریت کے بارے میں ہمیں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی واضح ہدایات سے فائدہ اُٹھانا ہوگا۔ یہ وہ اہم بات ہے جو قائداعظم نے وائسرائے سے 10 جولائی 1947 ء کوگفت و شنید کے بعد اپنے ہاتھ سے لکھی تھی اور اس کا تحریری ثبوت موجودہے اور ڈاکٹر عطاالرحمن (جو اِس کالم نگار کے غالباًواحد ہم خیال ہیں)نے یہ سچائی بار بار دہرائی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں