ایک اُونچا پہاڑ اور نوبڑے لوگ

شروع پہاڑ سے کرتے ہیں بلکہ پہاڑ (کوہ ہمالیہ) کی ایک بلند و بالا (8125 میٹر) چوٹی سے جس کا نام نانگا پربت ہے۔ اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اتنے کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں کہ اُسے قاتل پہاڑ کہتے ہیں۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے پہلے دن خبر آئی کہ ایک جرمن اور ایک اطالوی کو ہ پیما اپنی کمر کس رہے ہیںکہ جونہی اس چوٹی پر چلنے والے تند و تیز برفانی طوفان تھمیں‘ وہ Schell Route کو استعمال کرتے ہوئے (آکسیجن کے بغیر) دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کیلئے جان لیوا چڑھائی شروع کر دیں ۔مائونٹ ایورسٹ اس سے صرف 723 میٹر اونچی ہے۔ نانگا پربت پر برفانی طوفانوں کی شدت کا آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ اُن میں تنکوں کی طرح اُڑنے والے برفانی تودوں کاوزن اور حجم ایک کار کے برابر ہوتا ہے۔ کوہ پیمائوں نے یہ اُمید ظاہر کی تھی کہ فروری کے شروع میں موسم میں اتنی تبدیلی آ جائے گی کہ وہ بیس کیمپ سے قدم بہ قدم بلندی کی طرف سفر شروع کر دیں گے۔ صرف اٹلی اور جرمن نہیں بلکہ سارا یورپ ان دو بہادر نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعاگو ہے۔ برطانوی اخباروں نے اپنے ایک کوہ پیما Ballard کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ وہ دو سال قبل نانگا پربت پر چڑھتے ہوئے ہلاک ہوا جبکہ 1995ء میں اُس کی والدہ Alison Harger Greme(جو مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنے والی پہلی خاتون تھی) K2 سے نیچے اُترنے کے دوران ہلاک ہو گئی تھی۔
اب ہم جن چھ بڑے لوگوں کی طرف چلتے ہیں ان میں سے ایک کا نام احسن پر ختم ہوتا تھا اور باقی پانچ کا احمد پر۔ ہمارے لیے احسن اور احمد دونوں ہی مبارک اور مقدس الفاظ ہیں۔ سید محمد احسن 1921ء میں حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جو رائل انڈین نیوی میں بھرتی ہوئے ۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے لارڈ مائونٹ بیٹن کے اور قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کے ADC رہے۔ 1969ء میں ایڈمرل کے عہدے پرپہنچ کر ریٹائر ہوئے تو جنرل یحییٰ خان نے اُنہیں مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا۔ وہ اُن لوگوں میں شامل تھے جو دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا احترام کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کے حق میں تھے۔ وہ 7 مارچ 1971ء کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اپنا استعفیٰ لکھ کر اُنہوں نے اپنے قلم سے بھری ہوئی سیاہی اپنے دفتر کی میز پر پڑے ہوئے قلمدان میں اُنڈیل دی چونکہ وہ چھوٹی سی چھوٹی سرکاری نوازش سے بھی مستفید نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اُن کی روانگی کے بعد تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے جب مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہو گئے اور خانہ جنگی کی آگ بھڑک اُٹھی جو دسمبر1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔
اب پانچ احمد صاحبان کی باری آتی ہے۔ (1) سب سے پہلے ہیں ڈپٹی نذیر احمد( 1912ء۔1836ء) وہ ایک عدالت میں ڈپٹی جج بنے تو ڈپٹی اُن کے نام کا حصہ بن گیا۔ کمال یہ ہے کہ ایک قدامت پسند زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اُنہوں نے اُردو میں ناول نگاری کی ابتدا کی جو ہندوستانی مسلمانوں میں سماجی اصلاح‘ ذہنی ترقی اور روشن دماغی کا محرک بنی۔ وہ تعلیم نسواں (جو اس دور میں بے حد غیر پسندیدہ تھی) کے حق میں تھے اور کثرت ازواج (جو اتنی ہی پسندیدہ تھی) کے مخالف۔مسلمانوں کی ذہنی سطح کو بلند کرنے اور اُنہیں فرسودہ رسومات سے نجات پر مائل کرنے میں ان کے ناولوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اُن کے ناولوں میں مراۃ العروس‘بنات نعش‘ توبۃ النصوح اور افسانۂ مبتلا بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوئے اور مقبولیت میں بے مثال تھے۔ اُنہیں شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی (سکاٹ لینڈ) اور پنجاب یونیورسٹی نے اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دے کر اُن کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کیا۔ وہ بلا شبہ روشنی کا مینار بن کر دنیا سے رخصت ہوئے ۔وہ اُردو ادب میں ترقی پسندی کی روایت کا پہلا سنگ میل ہیں۔
(2)دوسرے احمد کا پورا نام تھا میاں بشیر احمد (1893 تا 1971)۔ وہ جسٹس شاہ دین کے بیٹے تھے جو لاہور ہائیکورٹ کے انگریزوں کے زمانے میں پہلے مسلمان جج بنے۔ قیام پاکستان سے پہلے لاہور کی مال روڈ پر مسلمانوں کی صرف ایک عمارت تھی جوجج صاحب کی تھی۔ اُنہوں نے ایک معیاری ادبی رسالہ (ہمایوں) کی اشاعت شروع کی جو اُن کا بیٹا زیادہ سال جاری نہ رکھ سکا۔ جج صاحب کی قائداعظم سے اتنی دوستی تھی کہ وہ 1940ء کے عشرے میں جب بھی لاہور آئے اُن کے گھر (المنظر) ٹھہرے۔ یہ واحد خوبی تھی جو میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر کا عہدہ دلوانے میں کام آئی۔ جلیل القدرباپ سے بیٹے تک زوال کا جو عمل شروع ہوا وہ پوتے (منظر بشیر) تک مکمل ہو گیا۔ اتنی بلندی اور اتنی پستی کی مثال اور وہ بھی تین پشتوں کے اندر۔ میاں بشیر احمد کے خاندان کیلئے احترام اور میرا مرحوم سے تعلقِ خاطر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں سچ لکھوں۔ میں اپنے قارئین سے معافی کا طلبگار ہوں۔ نہ میرا قلم ساتھ دے گا اور نہ بوڑھا دماغ۔
(3)تیسرے احمد کا نام ڈاکٹر اقبال احمد تھا (1932-99 ء)۔ طارق علی سے پہلے وہ پہلے پاکستانی دانشور تھے جو عالمی سطح پر بطور انقلابی متعارف ہوئے۔ وہ ہندوستان کی ریاستِ بہار کی ایک چھوٹے سے گائوں ارکی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ 1955ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے امریکہ گئے۔ ڈاکٹریٹ بھی کی اور عالمی شہرت بھی حاصل کی۔ وہ الجزائر کی تحریک آزادی کے قائد Ben Bella اور شاہکار کتاب (افتادگانِ خاک) کے مصنف Frantz Fannan کے ذاتی دوست بنے۔ ویت نام میں امریکی جارحیت کے خلاف تحریک کے صف اول کے رہنما تھے۔ امریکہ سے پاکستان جاتے رہے اور (لندن میں مختصر قیام کے دوران) بکمال مہربانی اس کالم نگار کو تبادلہ خیال کیلئے یاد فرماتے رہتے۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری دس سال بڑی تلخی‘ افسردگی اور دل گرفتگی میں گزرے۔ وہ تقریباً دس سال پاکستان میں جدید سماجی علوم کی تعلیم اور تحقیق کیلئے خلدونیہ نام کی یونیورسٹی کے قیام کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ دیکھا جائے تو نقصان ان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہوا مگر کسی کو اس کا احساس بھی نہیں۔
(4 ) چوتھے احمد تھے اسرار احمد۔ وہ بھی اقبال احمد کی طرح ڈاکٹر تھے (مگر وہ ایم بی بی ایس تھے )۔ وہ بھی 1932ء میں پیدا ہوئے۔ 2010ء میں وفات پائی۔ قیام پاکستان سے پہلے مشرقی پنجاب کے ضلع حصار ( روہتک کا پڑوسی) میں پیدا ہوئے۔ کالم نگار سے عمر میں چار سال بڑے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول حصار میں میرے ہم عصر تھے۔ میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ دسویں جماعت میں ۔ کالم نگار کے برعکس وہ سکول‘ کالج اور پھر میڈیکل کالج میں ہمیشہ اعلیٰ نمبر لے کر پاس ہوتے رہے۔ چھ برس بعد ہماری دوسری اور آخری ملاقات گوجرانوالہ میں ہوئی جہاں میں اسلامیہ کالج میں سائنس اور ریاضی پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جمعیت طلبا کے قومی رہنما تھے اور وہاں عالمانہ تقریر کرنے گئے تھے مگر سامعین کی اکثریت کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکے۔ (جن میں یہ نیم خواندہ کالم نگار بھی شامل تھا)۔ فارغ التحصیل ہو کر ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی کے صف اوّل کے رہنما بنے مگر چند سالوں بعد (1957ء میں) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے نقش قدم پر چل کر اُنہوں نے جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے راستے جدا کر لئے ۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں