ایک اُونچا پہاڑ اور نوبڑے لوگ… (2)

پانچویں اور آخری احمد ہیں سرسید سلطان احمد۔ 1880ء میں پٹنہ (بہار) میں پیدا ہوئے۔ لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرکے بیرسٹر بنے۔ ہندوستان واپس آئے تو چوٹی کے وکیل بنے۔ پہلے پٹنہ ہائی کورٹ کے جج اور پھر پٹنہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر۔ 1930-31 ء میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں ہندوستانی وفد میں شامل تھے اور 1941-43ء میں ہندوستان کے حکمران (viceroy) مجلس عاملہ کے رکن بنے۔ 1907ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ دو قوموں کیلئے دو علیحدہ ملک بنانا ہوں گے مگر سرسلطان کہتے تھے قومیں تو یقینا دو ہیں مگر ان کا ملک مشترکہ ہونا چاہئے۔ قائداعظم نے اُنہیں پاکستان آکر ان کی کابینہ میں بطورِ وزیر قانون شامل ہونے کی دعوت دی جو اُنہوں نے قبول نہ کی۔بڑھاپا اور زوال دونوں اکٹھے آئے۔ آج ہمارے پاس سر سلطان احمد کی ایک ہی یادگار ہے اور وہ ہے محمڈن لاء پر لکھی ہوئی اُن کی ایک اچھی کتاب۔
ایک احسن اور چھ احمد صاحبان کے بعد‘ اب ہم آزاد نام کے تین بڑے لوگوں کی طرف چلتے ہیں اور شروع کرتے ہیں ایک غیر مسلم سے ۔ یہ تھے جگن ناتھ آزاد۔ پانچ دسمبر 1918 ء کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ 29 برس کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دہلی ہجرت کر گئے اور وہیں 24 جولائی 2004 ء کو وفات پائی توپاک و ہند‘ سرحد کے دونوں طرف ادبی حلقوں میں صف ِماتم بچھ گئی۔ اُنہیں ادبی ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ اُن کی والد تلوک چند محرومؔ اُردو کے ایک ممتاز شاعر تھے۔ اَن گنت ہندو دانشوروں کی طرح مذہبی تعصب اُنہیں چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت وہ اپنا وطن چھوڑ کر اور جان بچا کر نقل وطن کر گئے مگر پاکستان سے‘ اُردو زبان سے اور خصوصاً اقبال کی شاعری (جس پر اُنہیں مستند محقق جانا جاتا تھا) سے اُن کا عمر بھر کا رشتہ ہر گز متاثر نہ ہوا۔ اُنہوں نے کل 70 کتابیں لکھیں۔ جن میں شاعری کے مجموعے‘سوانح عمریاں اور سفر نامے شامل تھے۔ تقسیم پر جو قتل و غارت ہوا اور لاکھوں بے گناہ افراد مارے گئے اس کا نوحہ صرف امرتا پریتم نے نہیں لکھا بلکہ جگن ناتھ کا ایک مجموعۂ شاعری (بیکراں) کی ہر نظم کا ہر شعر اس المناک موضوع پر ہے۔ وہ بڑی باقاعدگی سے پاکستان آتے رہے تاکہ مشاعروں میں حصہ لے سکیں اور احباب سے تجدیدِ ملاقات بھی ہو جائے۔ اُن کے ایک مجموعۂ کلام کی رُونمائی اُن کی خواہش پر کراچی میں1987ء میں ہوئی۔ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین اُسی طرح ایک پُل تھے جس طرح ہڈالی (خوشاب) میں پیدا ہونے والے خشونت سنگھ اور سیالکوٹی کلدیپ نائر۔
دوسرے آزاد کا پورا نام تھا محمد حسین آزاد (1910ء۔ 1830ء)۔ اُردو ادب کی تاریخ میں وہ روشنی کا مینارہیں اور پہلا سنگِ میل۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے دانشور تھے۔ عالم‘ فاضل‘ نقاد‘ شاعر اورمدیر۔ اُن کے والد مولوی محمد باقر ہندوستان کے اوّلین صحافیوں میں سے ایک تھے۔ ''اُردو اخبار‘‘ نامی پرچے کے مدیر تھے اور 1857 ء میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز وں کی ہاتھوں کئی ہزار لوگوں کو سزائے موت دیے جانے والوں میں شامل تھے۔ والد اور دادا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی کے کالج میں نو برس پڑھے۔ اپنے دور کے بڑے شاعر استاد ابراہیم ذوقؔ کے شاگرد تھے۔ جب وہ لکھنؤ چھوڑ کر لاہور آباد ہوئے تو گورنمنٹ کالج میں عربی کے پروفیسر بنائے گئے۔ اُن کی شاہکار کتاب ''آبِ حیات ‘‘ہے۔ دوسری تصانیف :نیرنگ خیالِ‘ سخن دانِ فارس اور دربارِ اکبری ہیں۔ آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر ایران اور افغانستان کیوں گئے۔ بدقسمتی سے اُن کی زندگی کے آخری 20 سال ایک موذی ذہنی مرض کا شکار ہو کر گزرے مگر وہ پھر بھی پڑھتے‘ پڑھاتے اور لکھتے رہے۔ سرزمین لاہور کا فخر ہے کہ محمد حسین آزاد اس کی مٹی میں دفن ہوئے۔
کالم کی دوسری قسط جس آزادپر ختم ہوگی۔ وہ ماسوائے ابوالکلام کے اور کون ہو سکتا ہے؟ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ وہ 1888 ء میں پیدا ہوئے مگر ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے؟آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (کراچی) کی شائع کردہ ایک کتاب کے مطابق وہ بھارتی پنجاب کے بیکانیر نامی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ اسی آکسفورڈ پریس (دہلی) کی شائع کردہ دوسری کتاب میں (جو تین برطانوی مورخین کی مشترکہ کاوش سے لکھی گئی) ان کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ بیان کی گئی ہے جہاں وہ دس سال کی عمر تک رہے اور پھر اپنے بہن‘ بھائیوں اور والدین کے ساتھ کلکتہ آگئے۔ اُنہوں نے جو زندگی بسر کی اسے ایک کالم کے ایک (باقی ماندہ) حصہ میں بیان کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔ وہ نہ صرف صف اول کے سیاست دان تھے جو 1929ء میں 35 سال کی عمر میں انڈین نیشنل کانگرس کے صدر بنے اور دوبارہ سات سال (1939-46 ء) کیلئے۔ بلاشبہ وہ کانگریس کے مسلمان رہنمائوں میں سب سے ممتاز تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ جو ہندوستانی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار تھی۔ شملہ کانفرنس میں قائداعظم (جنہوں نے زندگی بھر کسی مخالف پر ذاتی حملہ نہ کیا تھا) مولانا ابوالکلام کی موجودگی سے اتنے ناراض ہوئے کہ اُنہیں کانگریس کا Show Boy ہونے کا وہ خطاب دیا جس کا بعد میں بہت چرچا ہوا۔ جولائی 1951ء میں مولانا کراچی آئے تو ہوائی اڈے سے سیدھے مزارِ قائدگئے۔ دعائے مغفرت پڑھی اور بڑی دیر سر جھکائے کھڑے رہے۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ مزارِ قائد پر کھڑے کیا سوچ رہے ہوں گے۔ اُنہوں نے نہ صرف صحافت (ہفت روزہ الہلال اور البلاغ شائع کر کے) بلکہ اُردو نثر میں کمال کی کتابیں لکھ کر اورسیاسی میدان میں کلیدی کردار ادا کر کے ہماری تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔ ہندوستان کی آزادی کیلئے اُنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال جیلوں میں گزارے۔ اُنہوں نے اپنے ایک قریبی معاون (ہمایوں کبیر) کے تعاون سے انگریزی میں اپنی سوانح عمری (India wins Freedom) لکھی (یا لکھوائی) تو اُس کتاب کے 30 اہم ترین صفحات بینک کے Safe میں محفوظ رکھوائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ 30 برس بعد شائع ہوں گے۔
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے قریبی دوست پنڈت جواہر لال نہرو کو Cabinet Missionکی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بدقسمتی سے مولانا جیسے ذہین شخص کو پنڈت نہر و کی کرشماتی شخصیت کی چمک دمک نے اُنہیں ولبھ بھائی پٹیل کا فرقہ پرست‘ تنگ نظر‘متعصب اور بدصورت چہرہ نہ دیکھنے دیا۔ وہ اپنی وفات تک (کل گیارہ برس) بھارت کے وزیرتعلیم رہے۔ اُن کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ بھارت کے نظام تعلیم میں انگریزی زبان کی بالادستی ختم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ حسرت موہانی کی عوام دوستی اور اشتراکیت پسندی جیسی بڑی خوبیوں سے بھی محروم تھے۔ سبھاش چندر بوس جیسے بڑے عوامی رہنما اور محنت کشوں کے دوست کا مہاتما گاندھی سے سیاسی تصادم ہوا تو مولانا نے گاندھی جی کا ساتھ دینے کا اختیار کیا۔ اُنہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بلند کرنے کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہ دی اور انہیں اس حالتِ یتیمی میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے کہ حال ہی میں مہاسبھائی ذہنیت کے فسطائی غنڈوں نے بھارتی مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دی تو اُن کی طرف سے مزاحمت کی جو واحد آواز آئی‘ وہ ایک فلمی اداکار (نصیر الدین شاہ )کی تھی۔پہلے مولانا سپردِ خاک ہوئے ‘ پھر اُن کی کانگریس اور پھر سیکولر نظام کا جھوٹا دعویٰ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں