کریں تو کیاکریں ؟…(1)

اگرآج کمال کے گلوکارطلعت محمود زندہ ہوتے اور ہمارے ہم وطن ہوتے تو وہ غالباًہمیں اپنا یہ درد بھرا گیت روزانہ سناتے جس میں وہ ہم سے ایک ہی سوال کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں۔ ''جائیں تو جائیں کہاں؟‘‘۔ اس بارے میں تو دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہمارا موجودہ سیاسی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ یہ نہ صرف فرسودہ ہے۔ گل سڑ چکا ہے بلکہ عوام دشمن بھی ہے۔ اس میں ایک بھی خوبی نہیں۔ یہ نہ جمہوری ہے اور نہ اسلامی۔ یہ عوام کی امنگوں کا ترجمان بھی نہیں۔ یہ عوامی مفادات کے بجائے عوام کو لوٹنے والے طبقے‘ عوام کا استحصال کرنے والے مافیاز اور ہمارے اوپر (اپنے گماشتوں اور کٹھ پتلیوں کے ذریعے) حکومت کرنے والی غیر ملکی طاقتوں (خصوصاً امریکہ) کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔
1970ء میں ہونے والے انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں لوگوں نے ووٹ اپنی پسند کی سیاسی جماعت اور اُس کے سیاسی پروگرام کو دیے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے ایک گمنام اور غریب کارکن (اخباری زبان میں کھمبے) کو ٹکٹ دیا تو وہ بھی جیت گیا۔ لائل پور (آج کے فیصل آباد) میں ذاتی کالج چلانے والے اور سابق کالج لیکچرر (میونسپل کالج میں اُنہوں نے 1961-62 ء میں کالم نگار کے ساتھ پڑھایا) مختار رانا (جیل میں قید ہونے کے باوجود) جیت گئے اور اُس شہر کا سب سے امیر شخص (جس کا تعلق سہگل گھرانے سے تھا) ہار گیا۔ کیا یہ اب ممکن ہے؟ ہر گز نہیں! جن لوگوں نے (ماسوائے ایم حمزہ اور اُن کی طرح گنتی کے چند لوگوں) نے ایک بار الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ہر ممکن ناجائز طریقے سے دولت کمائی اور اپنے اُوپر سرکاری نوازشات کی بارش کروا کے اتنے امیر کبیر بن گئے کہ اُنہیں اپنی حرام کی کمائی کا ایک حصہ اگلے الیکشن میںانویسٹ کر کے دوبارہ الیکشن جیتنے میں کامیابی حاصل کرنا اتنا یقینی بن گیا کہ اُن کا نام (چاہے وہ کسی پارٹی میں ہوں یا آزاد اُمیدوار ہوں) Electablesمیں شامل ہو گیا۔ پہلے سیاست سے دولت کمائی اور پھر اُس دولت کو صر ف کر کے سیاست میں کامیابی۔ اب آپ بتائیں کہ ہم اسے منحوس چکر (Vicious Circle ) سے نکلیں تو کیونکر؟ وہی پارلیمانی نظام کی دیواروں کی اینٹیں ہیں اور Building Blocks۔ ان کی نالائقی‘ نااہلی‘ بددیانتی اور کرپشن کی وجہ سے ہمارے ملک میں چار بار مارشل لاء لگا۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس غلط بیانی کی اجازت دے دیں کہ چاروں آمروں نے اگر پورا نہیں تو آدھا صدارتی نظام قائم کیا تو یہ آدھا سچ ہوگا۔ وہ بلا شبہ غیر جمہوری تھیں مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پارلیمانی نظام کا پہلا دور (1947-58ء)۔ دوسرا دور (جناب بھٹو صاحب کی حکومت)۔ تیسرا دور (بے نظیر بھٹو کی حکومت)۔ چوتھا اور پانچواں دور (میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے تین دور)۔ سب کے سب اتنے ہی غیر جمہوری‘ عوام دشمن اور فلاحی مملکت بنانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پارلیمانی نظام میں کوئی ملاوٹ نہ تھی۔ نہ کوئی ہتھکڑی اور نہ پائوں میں کوئی بیڑی۔ دوسری طرف جب بھی مارشل لاء نافذ ہوا تو انہوں نے صدر ہونے کا جعلی لیبل لگا لیا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا بار بار آزمایا ہوا پارلیمانی نظام بنیادی طور پر بھارت یا برطانیہ کے پارلیمانی نظام سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے مگر کیا دیانتداری سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں صدارتی نظام کسی ایک اعتبار سے بھی (ماسوائے نام کے) امریکہ کے صدارتی نظام سے مشابہت رکھتا تھا؟ پاکستان میں آج تک کسی ایسے صدارتی نظام کا تجربہ نہیں کیا گیا جو جمہوری ہو۔ اولین شرط یہ ہے کہ ہم جمہوری نظام قائم کریں۔ پارلیمانی یا صدارتی؟ اس کی ثانوی اہمیت ہے۔ جمہوری نظام کیلئے سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں (ماسوائے جماعت اسلامی کے) ایک بھی ایسی جماعت نہیں جو جمہوری کہلائے جانے کی دعویٰ دار ہو یا مستحق ہو۔ پیپلز پارٹی کا مطلب ہے بھٹو پارٹی‘ مسلم لیگ کا ایک (اور بڑا) گروپ اپنے نام کے ساتھ ''ن‘‘ لکھتا ہے تاکہ آپ کسی مغالطے کے شکار نہ ہوں۔ تحریک انصاف کا مطلب ہے عمران خان پارٹی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی پارٹی میں ان کا کوئی نائب ہے اور نہ جانشین۔ ان کی پارٹی میں ایک ہی بار الیکشن ہوئے جن میں اتنی دھاندلی ہوئی کہ پارٹی کے نائب صدر محترم جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین احتجاجاً مستعفی ہو گئے۔ مسلم لیگ (ق) کا مطلب ہے پنجاب میں پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت صاحب کا دھڑا۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کا مطلب ہے سندھ میں پیر صاحب پگاڑا کا گروپ۔ پرانے وقتوںمیں ایم کیو ایم کا مطلب تھا الطاف حسین پارٹی۔ الطاف حسین مائنس ہوئے تو پارٹی کے حصے بخرے ہوگئے مگر پاک سرزمین پارٹی کا مطلب ہے مصطفی کمال پارٹی۔ وہ آج یہ نام اپنی پارٹیوں سے نکل جائیں تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن صاحب گدی نشین ہیں۔ یہ اُنہیں ورثے میں ملی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی پہلے ولی خان کی پارٹی تھی اور اب اُن کے بیٹے اسفند یار ولی کی۔ کیا ایسی نام نہاد سیاسی جماعتوں کے بل بوتے پر پارلیمانی نظام چلایا جا سکتا ہے؟ دوسری طرف صدارتی نظام کو کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سارے ملک کے بالغ افراد چند سالوں کیلئے اپنی مملکت کا سربراہ چن کر اُسے انتظامی مشینری چلانے کا اختیار دیتے ہیں مگر قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہوتا ہے۔ صدرِ مملکت بھی پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ برائے مہربانی ایک نظر امریکہ کی کانگریس کی کارکردگی پر ڈال کر صدارتی نظام کی برکتوں کا مطالعہ کرلیں۔ مملکت کا تیسرا ستون ایک آزاد دیانت دار عدلیہ ہوتی ہے جو صدارتی احکامات اور پارلیمان کے منظور شدہ قوانین دونوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ اسے کہتے ہیں باہمی احتساب اور ایک دوسرے کی زیادتیوں کا Check and Balanceکے ذریعے سدباب۔ مؤثر قدغن اور کار آمد Brakes۔
امریکی آئین میں ایک کمال کی خوبی یہ ہے کہ اُس نے صدارتی نظام کے ساتھ وفاقی نظام بھی قائم کر دیا۔ جس کا مطلب ہے کمزور اور طاقتور وفاقی اکائیاں۔ کالم نگار اس بات کی تکرار پر معافی کا طلبگار ہے کہ وہ ان کالموں میں بار بار لکھتا ہے اور علمی مذاکروں میں بھی یہی بات دہراتا ہے کہ موجودہ چاروں صوبوں کا وجود اب ہمارے راستے میں سنگِ گراں بن گیا ہے۔ 1951 ء میں ہماری آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی اور اب 22 کروڑ کے قریب۔مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی آبادی کو جمع کیا جائے تو وہ پھر بھی کراچی سے کم ہوگی۔ جن ممالک کی آبادی (مثلاً افغانستان‘ ایران اور ترکی) ہم سے نصف یا ایک چوتھائی ہے اُن کے صوبوں کی تعداد ہم سے چار سے لے کر آٹھ گنا تک زیادہ ہے۔ بہترین اور آسان ترین حل یہ ہے کہ ہم ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دے دیں اور وہ بھی جلد از جلد۔ ہر صوبے کو داخلی طور پر خود مختار اور خود کفیل بنائیں۔ ہر صوبے کا سربراہ (گورنر) صدر کی طرح بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر چنا جائے۔ مرکزی حکومت کی طرح صوبائی سطح پر بھی انتظامیہ(گورنر کے ماتحت)۔ قانون ساز اسمبلی اور عدلیہ کی طرح تین جداگانہ شعبے ہوں۔
اب آیئے انتخابات کی طرف۔ موجودہ Electables کی جان لیوا گرفت سے نجات صرف دو الفاظ میں مضمر ہے اور وہ ہیں متناسب نمائندگی۔ صوبائی اسمبلیوں میں (خواتین کی طرح) اساتذہ‘ وکلا‘ ڈاکٹروں اور محنت کشوں کی تنظیموں کے چنے ہوئے افراد کو بھی نمائندگی دی جائے۔ اختیارات کی ندی صوبائی سطح پر نہ رک جائے بلکہ ہر ضلع ہر تحصیل‘ شہر کے ہر محلے اور تحصیل کے ہر گائوں کو سیراب کرے۔ آپ ہر سطح پر عوام کو خود اپنی قسمت کا مالک بنا کر دیکھیں وہ ہماری کایا پلٹ دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں