کریں تو کیا کریں ؟ (2)

سب سے پہلے تو ایک آسان کام کریں اور وہ ہے آٹھ فروری کے کالم میں اضافے اور ترمیم اور اصلاح کا۔ آٹھ فروری کا کالم ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) پر ختم ہوا تو چند قارئین نے گلہ کیا کہ نہ اُن کی لکھی ہوئی کتابوں کا ذکر کیا گیا اور نہ اُن کی بنائی ہوئی تنظیموں کا۔ اس تشنگی کا احساس کالم نگار کو بھی بعد میں ہوا۔ آج کے کالم میں یہ تلافی کی جائے گی۔ مولانا امین احسن اصلاحی (اپنے بلندوبالا علمی قد کاٹھ کی وجہ سے) جماعت اسلامی میں وہ مقام رکھتے تھے جو مولانا مودودی صاحب کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہ تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کا تعلق اپنی جماعت کے اندر اصلاحی صاحب کے چھوٹے سے گروپ سے تھا۔ اصلاحی صاحب نے جماعت اسلامی سے عمر بھر کا رشتہ توڑا تو یقینا اُن جیسے مدبر‘ سیانے اور پختہ ذہن کے مالک شخص کا یہ فیصلہ نہ جلد بازی میں کیا گیا ہو گا اور نہ جذباتی ہیجان کے عالم میں۔ یہی سطور ڈاکٹر اسرار احمد کے بارے میں بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی کو خیرباد کہنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی جداگانہ جماعت (تنظیم اسلامی) بنانے کے بعد 1975ء میں انجمن خدام القرآن اور 1991ء میں تحریک خلافت بھی بنائی اور چلائی۔ اُن کی کل 60 (کتابیں اور پمفلٹ ملا کر) تحریریں شائع ہوئیں۔ ٹیلی ویژن پر انہوں نے طویل عرصہ خطبات دیئے جو بڑے عالمانہ (مگر زود فہم) اور موثر ہوتے تھے اور بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا مولانا مودودی صاحب سے بڑا اختلاف یہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے انتخابات میں حصہ لے کر اور جمہوری راستے پر چل کر اسلامی انقلاب کو نہ صرف غیر موزوں بلکہ ناممکن العمل بھی سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری زندگی دُنیاوی مال و اسباب اکٹھا کرنے اور مادی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے ایک نظریاتی جدوجہد پر صرف کر دی اور وہ تھی (پنجابی) مسلمانوں کو قرآن پاک کے رمُوز سمجھانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دینا۔ ان کا حلقۂ اثر متوسط طبقے کے بہت تھوڑے لوگوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ صد افسوس کہ اتنے بڑے عالم کی عمر بھر کی کاوش کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ جب ڈاکٹر صاحب کو خود کوئی سماجی برائی (مثلاً جہیز کی رسم) یا معاشی برائیوں (جاگیرداری۔ لوٹ مار کے مترادف سرمایہ کاری اور سودی نظام) یا انگریزی زبان کی بالا دستی قائم رکھ کر غلامانہ ذہنوں کی پرورش کو جاری رکھنے کی روش نظر نہ آئی تو وہ ان برائیوں کے خلاف دُوسروں کو جہاد کرنے کی تعلیم کس طرح دیتے؟
پچھلے کالم کی ''مرمت‘‘ کا کام ختم ہوا۔ آئیے اب آگے بڑھیں اور بڑی سنجیدگی‘ دیانت داری (جو سب سے کڑی شرط ہے) اور بہادری کے ساتھ چاروں طرف گرتے ہوئے ملبے اور قریب المرگ (یعنی ملبہ بن جانے سے ایک مرحلہ پہلے) بے حد خستہ حال عمارتوں (اداروں) اور اُن نحیف و نزار ستونوں کو دیکھیں‘ بار بار دیکھیں اور سوچیں کہ ہم اس ہنگامی صورتحال میں پہنچے تو کیونکر؟ فارسی کا ایک محاورہ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں۔ اس کی تکرار کی اجازت چاہتا ہوں۔ اُردو ترجمہ ہے کہ جب سارا جسم جل گیا ہو تو طبیب رُوئی کے پھاہے کہاں کہاں رکھے؟ میں نہیں جانتا کہ ہمارے پیارے وزیر اطلاعات (فواد چوہدری) کے مداحوں کی تعداد کتنی ہے؟ مگر میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں یقینا ان کے مداحوں کی فہرست میں شامل نہیں اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ اس کے باوجود ایک کالم نگار کا اخلاقی فرض ہے کہ اگر اُس کا ناپسندیدہ فرد بھی (اتفاقاً یا ارادتاً) کوئی اچھی بات کہے تو اُس کی تعریف کی جائے۔ میاں چنوں کے حالیہ سانحے اور المیے کے بعد اُنہوں نے کہا (اتنی مناسب بات اور کسی نے نہ کہی) ہم جب تک اپنے تھانہ‘ مکتب وغیرہ کی اصلاح نہ کریں گے اس طرح کے دل خراش واقعات رُونما ہوتے رہیں گے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ مرض کی اتنی اچھی تشخیص کر کے اپنی بات اُدھوری نہ چھوڑ دیتے اور اسے یوں مکمل کرتے کہ جب ان کی نظر میں مندرجہ بالا تینوں اداروں کی اصلاح مقصود ہے (جو ہم سب کو ہے) تو اصلاح کس طرح ہو گی؟ کب ہو گی؟ کس کے ہاتھوں ہو گی؟ اگر فواد چوہدری نے ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان لگا کر جواب دینے کی زحمت نہیں کی تو کیا 22 کروڑ پاکستانیوں میں 22 لاکھ نہ سہی‘ 22 ہزار بھی نہ سہی‘ 2200 افراد بھی ایسے نہیں (وُکلا‘ اساتذہ اور صحافیوں کی کل تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہو گی) جو اصلاحِ احوال کے لیے مل بیٹھیں اور اُن انقلابی اصلاحات کی تجاویز مُتفقہ (دوبارہ لکھتا ہوں کہ مکمل اتفاق رائے سے) پیش کریں اور قوم کو لگی لپٹی کے بغیر کھرے الفاظ میں بتا دیں کہ ہمارے سامنے دو راستے ہیں: ایک طرف روشنی ہے اور دُوسری طرف اندھیرا اگر ہم نے جلد از جلد انقلابی اصلاحات نہ کیں تو ہمارا مستقبل یقینا تاریک ہو جائے گا۔
بدقسمتی سے ہماری تمام یونیورسٹیاں (جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے) ہمارے تمام وُکلا‘ ہمارے تمام دانشور‘ ہماری تمام سیاسی جماعتیں‘ ہماری اہم ادارے‘ سب کے سب ذہنی طور پر اتنے دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی ہمیں راہ راست پر لانے اور روشنی کا رستہ دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اگر ہو بھی تو کوئی اور وزن رکھنے والا اُس کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔ بحث کی خاطر مان لیں کہ 22 کروڑ میں سے 22 لوگ تو ایسے ضرور ہوں گے جنہیں حکم اذاں ملا ہے۔ (جس طرح پچاس‘ سو سال پہلے اقبال‘ حسرت موہانی‘ عبیداللہ سندھی‘ مسعود کھدر پوش پنجاب میں میاں افتخارالدین اور سندھ میں حیدر بخش جتوئی کو ملا تھا)۔ اُنہوں نے بھی جدید تعلیم حاصل کی مگر اہل مدرسہ ان کی آواز دبا نہ سکے۔ اُنہوں نے عوام دوستی‘ سماجی انصاف‘ مُساوات اور محنت کشوں کے حقوق کی جو آواز بلند کی ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کی بازگشت سُن سکتے ہیں۔ آج باضمیر اور باشعور لوگ خاموش اور بے عمل کیوں ہیں؟ اشتراکی ذہن رکھنے کی وجہ سے کالم نگار کا یہ ایمان ہے کہ ہمارے ملک میں بھی انقلابی تبدیلی صرف اُس وقت آئے گی جب محنت کش طبقہ اس کا ہراول دستہ بنے گا مگر کسان مزدور اور کم اُجرت کمانے والے اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اُنہیں متوسط طبقہ اور تعلیم یافتہ افراد کے بھرپور تعاون اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ طبقاتی جدوجہد کی بنیادی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر انقلابی سوچ صرف دو اداروں میں جنم لیتی ہے۔ پروان چڑھتی ہے اور وہ ہیں مکتب اور مسجد (آپ ''اور‘‘ کی جگہ ''یا‘‘ بھی لگا سکتے ہیں) ایران میں مسجد سے انقلاب کی کرنیں پھوٹیں۔ مغربی ممالک میں انسانی سوچ (انقلابِ فرانس کے بعد) کو مکتب نے ڈھالا اور اس کی پرورش کی۔ انسانی حقوق‘ سماجی انصاف‘ سُلطانیٔ جمہور‘ قانون کی حکمرانی‘ ان چار ستونوں پر ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جو مستحکم بھی ہے‘ روشن بھی اور پائیدار بھی۔ (جاری)
پس تحریر: مندرجہ بالا سطور لکھی جا چکی تھیں کہ پاکستان سے مجھے یہ المناک خبر ملی کہ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن وفات پا گئے ہیں۔ ان کی روشن دماغی‘عوام دوستی، انسانی حقوق کی سربلندی کیلئے عمر بھر کی جدوجہد اور وسیع المشربی اتنی نمایاں خوبیاں تھیں کہ انہوں نے ہمارے عصر حاضر میں ایک پوری نسل کے ذہنوں کو گہرا متاثر کیا۔ میرا ڈاکٹر مہدی حسن اور ان کے بھائیوں سے دوستی کا رشتہ پچاس کی دہائی میں قائم ہوا اور ان کی وفات تک زندہ و تابندہ رہا۔ ان کی وفات سے پاکستان کے محنت کش اپنے بہترین دوست سے محروم ہو گئے۔ وہ ڈاکٹر مبشر حسن کے نہ صرف قریبی رشتے دار بلکہ ہم خیال بھی تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں