کریں تو کیاکریں ؟…(3)

مرمت کا کچھ کام گزشتہ ہفتے کے کالم میں کر لیا گیا مگر آدھا ابھی باقی ہے۔ کیوں نہ وہ آج کر لیں؟ اب ہم پندرہ فروری کے کالم کے اُس حصے کی طرف چلتے ہیں جو آزاد نامی افراد کے بارے میں لکھا گیا۔جگن ناتھ آزاد کے بارے میں اگلی چند سطور پڑھ کر آپ چونک اُٹھیں گے اور ممکن ہے کہ آپ میرے بیانیے کو غلط یا جھوٹ سمجھیں اور اگر کچھ لحاظ کریں تو اسے غیر معتبر قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔ میرے سامنے میز پر عالمی شہرت کی مورخ اور بہترین امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر عائشہ جلال کی کتاب دھری ہوئی ہے نام ہے ''پاکستان کی تاریخ‘‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی۔ اس کے صفحہ44 پر لکھی ہوئی سطور کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ''باورکیا جاتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کا پہلا ترانہ لکھا:
اے سر زمین پاک
ذرے ہیں آج تیرے ستاروں سے تابناک
کچھ باتیں کالم نگار کی غفلت سے رہ گئی تھیں مگر یقین جانیے کہ میں نے یہ ہر گز نہ لکھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد بیکانیر میں پیدا ہوئے تھے‘وہ تاریخ کی ایک مستند کتاب کے مطابق کھیم کرن میں پیدا ہوئے تھے (جو 1965 ء کی جنگ میں پاکستان کی فوج نے فتح کر لیا تھا) اور اسی اشاعتی ادارے کی دوسری کتاب کے مطابق مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے مگرجائے پیدائش تو اُتنی ہی غیر اہم ہے جتنی تاریخ پیدائش۔ ہماری ساری توجہ تو مولانا کے سیاسی کردار پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اپنے سیاسی نظام کے دو سب سے بڑے اداروں کا‘ کارکردگی کے پیمانے پر جائزہ لیں تو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور یہ کہ ہم اُن کی بھی اصلاح کریں۔ اسے عوام کانمائندہ بنائیں نہ کہ اشرافیہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا اور کھلونا بھی وہ جو ہر سال کروڑوں روپوں میں پڑتا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے صرف ان اراکین کی تنخواہ دیں جن کی ذاتی آمدنی ان کے گزارے کیلئے کافی نہ ہو۔ یورپ کے کسی ملک میں سرکاری افسروں‘ اساتذہ اور ڈاکٹروں کے اس طرح تبادلے نہیں ہوتے جس طرح ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ یورپ میں تبادلے کا تصور تک نہیں۔ ہم دورِغلامی کی پیداوار (تبادلوں کی روایت) کو ختم کرکے ہر سال اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں اور لاکھوں افراد (خصوصاً خواتین) کو ناقابلِ بیان اذیت اور رشوت ستانی کے عذاب سے بچا سکتے ہیں۔ کیا ہم اتنا آسان قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے؟
سرکاری یا نیم سرکاری اداروں اور محکموں سے لے کر ہماری اعلیٰ درسگاہوں تک نظر ڈالیں تو کیا دیکھتے ہیں‘ انگریز کے بنائے ہوئے نظام کو صحیفۂ آسمانی کا مقدس درجہ دینے والے‘ نظام کہنہ ( Status Quo) کی پرستش کرنے‘ لکیر کے فقیر بنے رہنے اور افکارِ تازہ کے بجائے سنگ و خشت سے نیا جہان آباد کرنے والی منطقی اعتبار سے ناکام (Doomed) روش پر چلنے والے لوگ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم سے لے کر نظام عدل تک ہماری اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ مسخ ہو کر اپنے بنیادی مقصد میں بری طرح ناکام‘ ناقابلِ استعمال اور عوام دشمن بن چکا ہے۔ آپ ذرا زرعی اور بارانی یونیورسٹیوں کی کارکردگی دیکھیں۔ بالکل صفر۔ وہ ہماری زرعی پیداوار کو اتنی پست سطح پر رکھنے کی ذمہ دار ہیں کہ ہم ہر سال (سراسر گھاٹے کا سودا) کئی اربوں روپے کی گندم‘ کپاس اور خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی اس طرح کی سفید ہاتھی ہیں۔ ان درسگاہوں کو چلانے پر سالانہ اربوں کا خرچ مگر کارکردگی انتہائی ناقص۔ اگر ہم انہیں بند کر دیں تو ہم سالانہ اربوں روپے بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مناسب ہوگا کہ صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کیا جائے۔ آپ نے اسی اخبار میں تین مارچ (پانچ دن پہلے) کو منیر بلوچ صاحب کا کمال کا کالم پڑھا ہوگا۔ اُمید ہے کہ کالم نگار کی طرح اس نے آپ کی آنکھیں بھی کھولی ہوں گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ کینیڈا میں آباد ایک سائنس دان نے وہی تجویز پیش کی ہے جو 62 سال پہلے ورلڈ بینک نے بھی پیش کی تھی اور وہ یہ ہے کہ وادی پوٹھوہار میں صرف پانچ ارب ڈالر خرچ کر کے پانچ سال میں سواں ڈیم بنایا جا سکتا ہے جو 38 سے48 ملین ایکڑ فٹ پانی کو محفوظ کرے گا اور پانچ ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرے گا۔ حاصل ِکلام یہ کہ مقامی حکومتوں کا فعال نظام قائم کر کے‘ پانی اور بجلی کی کمی کا علاج ڈھونڈ کر‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور امن عامہ کی فراہمی کو یقینی بنا کر‘ مہنگائی اور افراطِ زر کو ختم کر کے اردو کو سرکاری زبان بنا کر‘ قوتِ اُخوت عوام اور سلطانی جمہور کی برتری تسلیم کر کے‘ افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ بنانے کے عمل کی طرف کئی قدم آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ فلاحی مملکت کی منزل کی طرف قدم اندھیرے سے روشنی کی طرف قدم۔ اب ہمیں ہماری 73 سالہ تاریخ نے جہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے وہاں سامنے دو ہی راستے ہیں‘ یا تو ہم موجودہ نظام کہن کو جاری و ساری رکھیں۔ جوں کا توں۔ نہ نیچے زیر لگائیں اور نہ اُوپر زبر۔
یہ توقع رکھیں کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود بہتر ہوتا جائے گا۔ یہ دعا بھی مانگتے رہیں کہ کوئی غیبی ہاتھ اس نظام میں نہ دخل دے گا اور نہ کوئی چھیڑ خانی کرے گا۔ (یہ دعا کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی) دوسرا راستہ ہے کہ ہم اچھی طرح سوچ سمجھ کر وہ نظام اپنائیں جو ہمیں موجودہ عذاب سے نجات دلوائے۔ جرمنی کی طرح ہمارا الیکشن کمیشن صرف ان سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کرے اور الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے جو بذاتِ خود جمہوری ہوں نہ کہ ذاتی جاگیریں اور لمیٹڈ کمپنیاں۔ ہم یہ فاش غلطی کرتے ہیں کہ مارشل لاء لگانے اور آمریت کو چلانے والوں کو صدارتی نظام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ارجنٹائن میں Peron ‘ ہنگری میںOrban‘اٹلی میں مسولینی اور جرمنی میں ہٹلر جیسے فسطائی آمرانِ مطلق وزرائے اعظم تھے اور پارلیمانی نظام کی پیداوار تھے۔ ہمارے ہاں جب بھی یہ کہا گیا (اور بار بار کہا گیا) کہ جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے تو اس کا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ‘ہم ایک طرف مومن ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی سوراخ سے چھ بار ڈسے جانے کے بعد بھی اُس سے دور بھاگنے اور پرہیز کرنے اور محفوظ فاصلہ پر چلے جانے پر تیار نہیں ہوتے۔
کالم نگار نہ افلاطون ہے اور نہ ارسطو کہ یہ بھی بتائے کہ ہم موجودہ نظام کو کس طرح بدلیں؟ موجودہ نظام میں کسی معنی خیز اور مثبت تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ یہ تارِ عنکبوت سے بھی کمزور ہے۔ غیر مؤثر ہے۔ غیر فعال ہے۔ یہ آئین میں لکھے ہوئے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کر اسکتا۔ یہ سیاسی اراکین کو گم شدہ افراد کی بڑھتی ہوئے فہرست میں شامل ہونے سے نہیں روک سکتا۔ یہ اردو کو سرکاری زبان نہیں بنوا سکتا (جو آئین کے مطابق 1988 ء میں ہوجانا چاہئے تھا)۔ یہ ہر حکومت کو بھیک مانگنے اور ملک کی خود مختاری کا سودا کرنے کے راستہ میں رکاوٹ نہیں بنتا اور نہ بن سکتا ہے۔ ہر سال اربوں روپے کے خسارے کا بجٹ منظور کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ بدقسمتی سے جو نظام ہمارے ہاتھ کی تلوار ہونا چاہئے تھا‘ ہمارے پائوں کی زنجیر بن گیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس زنجیر کو کاٹ کر آزاد ہو جائیں۔ ان صنم کدوں کے بت پرانے ہو گئے ہیں۔ ہم (بقول اقبال) ایک نیا شوالہ بنائیں۔ یہ ہے حاصلِ کلام۔ 70 برس علم سیاسیات پڑھنے اور پڑھانے والے شخص کی طویل ذہنی زندگی کا نچوڑ ‘ خلاصہ اور سبق یہ ہے کہ پاکستان کو عوام نے عوامی تحریک چلا کر عوامی فلاح و بہبود کیلئے بنایا تھا۔ اب صرف وہی اسے بچا سکتے ہیں اور بچانے کا واحد طریقہ اسے فلاحی مملکت بنانا ہے۔ جس کا مطلب ہے ویلفیئر سٹیٹ بنائیں۔ اس کا ایک اور مطلب بھی ہے۔ اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں