کریں تو کیاکریں ؟…(4)

آج آپ مندرجہ بالا عنوان کے تحت لکھے گئے کالم کی آخری قسط پڑھیں گے۔ کبھی کبھار کالم نگار سردیوں میں روایتی خراب موسم کے باوجود اپنے معالجین کے حکم پر عمل کرتے ہوئے دریا کے کناروں یا زرد پتوں سے بھرے ہوئے جنگلوں کی سیر کرتا ہے اور سوچتا جاتا ہے کہ کیوں نہ ہر ہفتے اسی عنوان کی تحت بلا تکان اور وقفہ دیے بغیر لکھتا جائے۔ پاکستان میں جہاں بھی دو (یا دو سے زیادہ) لوگ ملتے ہیں تو جلد یا بدیر اُن کی گفتگو سیاسی رنگ اختیار کرجاتی ہے۔ وہ ہماری موجودہ حالتِ زار کا ماتم کرتے ہیں اور اسی آہ و زاری میں اُن کی ملاقات ختم ہو جاتی ہے۔دانشوروں کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے دکھوں کی تعداد‘گہرائی اوروسعت اتنی زیادہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں اتنے آنسو نہیں کہ ہم بہا کر دل ہلکا کریں۔ زراعت‘ صنعت‘تجارت‘ تعلیم‘ محصولات کی وصولی‘ امن و امان‘ علاج‘انصاف‘ مواصلاتی نظام یہ سب شدید بحران کا شکار ہیں۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو کالم نگار قابلِ معافی ہے کہ وہ کاغذ پر سیاہی سے لکھنے کے بعد سیاہ رنگ کی قمیص پہن کر یا (بقول غالب) کاغذی پیرہن میں ملبوس ہو کر فریاد کرنے برطانیہ سے پاکستان کا چھ ہزار میل طویل سفر پیدل کرنے کا منصوبہ بنائے۔ میری فریاد تو اہلِ وطن ضرور سن لیں گے مگر جونہی اُن کے کانوں میں یہ آواز آئی کہ کریں تو کیا کریں؟ وہ میرے ساتھ مل کر کوئی قابلِ عمل حل‘ ہمارے دکھوں کا علاج اور ہمارے مصائب کا مداواسوچنے پر ہر گز تیار نہ ہوں گے اور اگر بفرضِ محال ہو بھی جائیں تو بھانت بھانت کی بولیاں بولیں گے۔ قومی اتفاق رائے تو دور کی بات ہے غالباً چند سیانے لوگ بھی متفقہ طور پر ایک اچھے اور آسان حل کی حمایت نہ کریں گے۔ عبرت ناک ناکامی کے بعد کالم نگار اپنا سا منہ لے کر برطانیہ واپسی کا قصد کرے گا۔ اُسے آبلہ پائی شاید واپسی کا سفر پیدل طے کرنے کی اجازت نہ دے۔ وہ ڈگمگاتا ہوا اپنے آبائی وطن سے اپنے دوسرے (Adopted)وطن کا ہوائی سفر کر کے گھر پہنچ کر دم لے گا۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ مذکورہ بالا تلخ تجربے کے بعد کالم کا عنوان پھر یہی ہوگا کہ ہم کریں تو کیا کریں؟ اس ہٹ دھرمی کی وجہ یہ ہے کہ کالم نگار 55 برس سے جس پردیس میں بہ امر مجبوری رہتا ہے وہاں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے بحران پیدا ہوتے ہیں مگر یورپ‘ امریکہ‘ چین‘ جاپان اور کوریا کے لوگ اپنے دکھوں کی فہرست گنوانے اور اُن کا شب و روز ماتم کرنے کے بجائے ٹھوس اور اتفاق رائے سے سوچا گیا حل تجویز کرتے ہیں۔ اُس پر فی الفور عمل شروع کر دیتے ہیں اور اس حرکت میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ ہماری آنکھوں نے کئی ممالک میں انقلابات دیکھے اور کانوں نے اُن کی گرج سُنی۔ (بقول اقبال) گراں خواب چینی تو سنبھل گئے مگر بدقسمتی سے ہمارے حصے میں جو ہمالیہ آیا اُس کے چشمے ابھی تک اُبلنے کے مرحلے سے کوسوں دور ہیں۔ وجہ؟ ہم دورِ غلامی میں کامیابی سے چلائے جانے والے نظام کو 75 برسوں سے ایک آزاد مملکت پر ہر طرح کے ریاستی جبرو تشدد سے نافذ کئے ہوئے ہیں۔ دورِ غلامی کا ہر نقش عوام دشمن ہے‘ فرسودہ ہے‘ بے کار اور ناقابل اصلاح ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ نقش بنیادی طور پر باطل ہے اور بقول اقبال ؔ
ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل
مقامِ حیرت ہے کہ تین چوتھائی صدی کی تکرار کے باوجود ہمارا اس سے دل نہیں بھرا۔ نظام کہنہ (Status Quo) آج بھی ہمارا دل پسند اور محبوب ہے۔ ہمارا نظام انصاف‘ ہمارے صوبے‘ ہمارا تعلیمی نظام‘ ہماری پولیس‘ ہماری افسر شاہی‘ ہماری ہر اسمبلی کی عوامی نمائندگی کرنے کی بنیادی خوبی سے محرومی‘ ہماری تباہ حال زراعت۔ ایک زرعی ملک اربوں ڈالر خرچ کرکے زرعی پیداوار درآمد کرتا ہے۔ کینیڈا سے دالیں‘ تھائی لینڈ سے ادرک‘ ملائیشیا سے خوردنی تیل‘ روس سے گندم‘ چین اور وسطی ایشیا سے کپاس وغیرہ۔ ہر روز گرتا ہوا روپیہ‘بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بدسے بدتر ہونے والا افراطِ زر۔ امن و امان کی خراب سے خراب تر ہوتی صورتحال۔ لاکھوں کاروباری لوگ اور دکاندار نہ پورا ٹیکس دیتے ہیں اور نہ دستاویزی معیشت کی طر ف قدم بڑھاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے امیر لوگوں سے وصول کردہ محصولات سے وہاں فلاحی مملکت بنائی اور چلائی گئی۔ ہمارے ملک میں غریب لوگوں کے اشیائے ضرورت پر ادا کردہ ٹیکس سے سرکاری افسروں کو ہر ماہ اربوں روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ماہانہ کئی لاکھ روپے تنخواہ لینے والے سرکاری افسروں کے حرص وہوس کا یہ عالم ہے کہ وہ شہروں میں رہائشی پلاٹوں سے لے کر سندھ میں نہروں سے سیراب ہونے والی لاکھوں ایکڑ زمین حکومت سے کوڑیوں کے بھاؤ لے لیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک پڑھواتے ہیں اور بیرونِ ملک بہترین علاج کراتے ہیں اور خریداری بھی نہ لاہور اور نہ کراچی میں بلکہ لندن‘ پیرس‘ نیویارک یا سنگا پور میں۔ موخرالذکر شہروں کے بارے میں تو میں سنی سنائی بات لکھ رہا ہوں مگر لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ اور Bond سٹریٹ کا تو میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہاں میری آنکھوں کے سامنے پاکستان کے کسانوں‘ مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی تعیشات پر بے دردی سے لٹائی جاتی ہے۔
اگر آپ نے دو ہفتے قبل اس اخبار میں جویریہ صدیق کا کراچی میں انسانی خون کی ارزانی اور نہ تھمنے والی جوئے خون کا رُلا دینے والا کالم پڑھا ہے تو نامعلوم آپ کو رات کو اچھی نیند کس طرح آئی ہو گی۔ وہاں کی شاہراہیں معصوم انسانوں کی مقتل گاہیں بن گئی ہیں۔ کارخانوں میں آگ لگتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ نہ وہاں کوئی فائر الارم ہے‘ نہ آگ بجھانے کے آلات اور نہ ہی باہر نکلنے کا محفوظ راستہ۔ محنت مزدوری کرنے والے اُجرت وصول کرنے کے بجائے راکھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ تو وہی روایتی ماتمی داستان گوئی ہے‘ سوال ایک ہی ہے‘ یہ کہ کریں تو کیا کریں؟ جواب اتنا آسان‘ آزمودہ اور قابلِ عمل ہے کہ آپ پڑھ کر حیران ہوں گے اور شاید اس سے زیادہ خوش بھی۔ براہِ مہربانی کراچی کے عوام کی سرکاری ناظمین‘ڈپٹی کمشنروں‘ کمشنروں اور پولیس کے محکمے سے جان چھڑائیں۔ کراچی کا نظم و نسق کراچی کے عوام کے حوالے کردیں۔ آپ اُنہیں یہ ذمہ داری سونپ دیں کہ وہ اپنے سیاہ و سفید کے خود مالک ہیں۔ وہ اپنے شہر کی صفائی سے لے کر اپنے پینے کے پانی کی فراہمی تک ہر کام خود کریں گے۔کارخانوں کو حادثوں سے محفوظ بنا لیں گے۔ موجودہ نظام نے اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پر باندھے ہوئے ہیں۔ اُن کے پائوں میں سرکاری ضابطوں کی بیڑیاں ہیں۔ آیئے ہم ان ہتھکڑیوں اور پائوں کی بیڑیوں کو توڑ کر دو کروڑ لوگوں کو (بطور تجربہ ایک سال کیلئے) آزاد اور خود مختار اور بااختیار بنا ئیں۔
پچھلا کالم کراچی کی داستانِ غم بیان کرنے پر ختم ہوا تھا‘ اس لیے آج بھی بات وہیں ختم کریں گے۔ امنِ عامہ کے قیام‘ جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی گرفتاری میں کراچی پولیس بری طرح ناکام ہوئی تو وزیر داخلہ دور کی کوڑی لائے کہ میں وہاں ہر تھانے میں رینجرزتعینات کردوں گا۔ کہتے ہیں اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔ کاش آج مسعود کھدر پوش‘ اختر حمید خان اور حیدر بخش جتوئی زندہ ہوتے تو 22 کروڑ میں سے کم از کم چند عوام دوست شخصیات تو اس کالم نگار کی حمایت کرتیں۔ اب میں اسلام آباد میں عبدالستار‘ ڈاکٹر طارق بنوری‘ سرور باری‘ محمد اظہار الحق اور طاہرہ عبداللہ، کراچی میں کرامت علی‘ نعیم قریشی‘ جسٹس (ر) وجیہ الدین اور ناصر منصور صاحبان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہوں کہ وہ مذکورہ بالا نسخہ کیمیا کی قبولیت کیلئے میری سفارش کریں گے اور میری تائید بھی۔ خداکی ہر بستی پر حکومت کرنے کا حق صرف خدا کے بندوں اور اُن کے جائز نمائندوں کو ہے۔ سرکاری افسروں کو آپ نے تین چوتھائی صدی آزمایا اب عوام کو آزمائیں۔ حاصل کلام یہ ہے: Set My People Free۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں