صدائے عدم اعتماد (قسط اوّل)

کالم نگار خوش قسمتی سے میدانِ جنگ سے چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلہ پر رہتا ہے مگر خدا گواہ ہے کہ اگر میں اپنے قارئین کی اکثریت کی طرح وہاں رہائش پذیر ہوتا جہاں اقتدار کی غلام گردشوں اور راہداریوں میں ان دنوں گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ چار سُو گرد اُڑ رہی ہے۔ دھمکیوں‘ جوابی دھمکیوں اور گیدڑ بھبکیوں (گیڈر ان سے ہی کام چلا لیتے ہیں) کا شور اِتنا زیادہ ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی‘ تو میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا اور کان میں رُوئی ٹھونس لیتا۔ اگر وطن عزیز کو درپیش بے حد گمبھیر مسائل کو ایک نظر دیکھ لیں تو آپ (چاہے آپ حکومت کے حامی ہوں یا حزب مخالف کے) کا جوش و خروش کافی حد تک ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ جو کچھ ایک عرصے سے ہو رہا ہے (مولانا فضل الرحمن صاحب کے پہلے لانگ مارچ سے لے کر اَب تک) وہ محض ایک تماشا ہے۔ پارلیمانی سرکس میں ہونے والا ایک ایسا تماشا‘ جس سے صرف وُہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جن کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہیں ہوا‘ جن کے بچے کل صبح ناشتہ کرکے سکول جائیں گے۔ جن کا کوئی عزیز بیمار ہو تو وہ اُس کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنہیں نہ روزگار کی فکر ہے نہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی۔ جو یقینا نہ کسان ہے اور نہ مزدور۔ جن کے اہل خانہ بخیریت ہیں۔ نہ وہ حوالات میں زیر تفتیش ہیں اور نہ جیل میں (زیادہ تر جھوٹے مقدمات میں) زیر حراست۔ میرے پیارے اور ستم زدہ اہل وطن جو دیکھ رہے ہیں (اُن کی آنکھیں تھک گئی ہوں گی) جو دن رات سُن رہے ہیں (کان پک گئے ہوں گے) وہ سرکس میں ہوتا تو آپ کو یہ تماشا ٹکٹ خرید کر دیکھنا پڑتا مگر آپ چائے کی پیالی میں آنے والا روایتی طوفان (A Storm in the Teacup) مُفت دیکھنے پر اتنے خوش ہرگز نہ ہوں۔ غور فرمائیے کہ فریقین جس طرح اقتدار کے گھوڑے سے نہ اُترنے یا سوار کو گھوڑے اُتارنے کیلئے جتن‘ ہر طرح کے جتن کر رہے ہیں‘ جان لڑا رہے ہیں‘ کیا آپ نے ان چند سو افراد (نام نہاد عوامی نمائندوں) کو اس کاوش کا دسواں حصہ‘ بیسواں حصہ‘ پچاسواں حصہ یا ایک فیصد بھی اپنے ملک کو غربت‘ جہالت‘ انصاف اور قانون کی پامالی اور درجنوں پہاڑ جتنی بڑی مصیبتوں سے نجات دلانے کیلئے استعمال کیا؟ ایسی کاوش گزرے ہوئے 75 سالوں میں 75 ماہ یا 75 ہفتے نہیں‘ 75 دن بھی نہیں کی ہو گی۔ Titanic نامی بحری جہاز ڈوب رہا ہے اور جہاز چلانے والے اس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں‘ باہم دست و گریبان ہیں‘ غیر شائستہ زبان استعمال کر رہے ہیں کہ عرشہ جہاز (Deck) پر مسافروں کی کرسیوں کی پرانی ترتیب ٹھیک ہے یا ان کرسیوں کی ترتیب بدلنا مناسب ہوگا۔ ساری لڑائی کرسیوں کی ترتیب قائم دائم رکھنے یا اسے بدلنے پر مرکوز ہے۔ خدارا آنکھیں کھولیں اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ کا جہاز بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ خطرہ ہے کہ ڈوب نہ جائے۔
کالم نگار درخواست گزار ہے کہ آپ کی توجہ کی مستحق تحریک عدم اعتماد کے بجائے وہ صدائے عدم اعتماد ہونی چاہئے جو پاکستان کے کروڑوں گھروں (جہاں خطِ افلاس سے نیچے رہنے والے آباد ہیں) کراچی کی سٹیل ملز سے‘ ہمارے سرکاری سکولوں اور سرکاری ہسپتالوں سے‘ ہر تھانہ اور ہر کچہری سے اور ہمارے کھیت کھلیانوں سے آرہی ہے۔ اتنی بلند آواز سے کہ کالم نگار اس صدائے عدم اعتماد کو چھ ہزار میل کے فاصلہ سے سُن سکتا ہے۔ اگر آپ کی سماعت کمزور ہے تو ضروری نہیں کہ نظر بھی کمزور ہو۔ آپ نوشتۂ دیوار ہی پڑھ لیں۔ اگر آپ آسمان کی طرف سر اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو کہکشاں کے بجائے اپنے لاکھوں ستم زدہ اور دُکھی ہموطنوں کی فریاد عرش باری تعالیٰ کی طرف جاتی دکھائی اور سنائی دے گی۔ غالباً وہ بھی کالم نگار کی طرح اقبال کو اپنا پیرومرُشد سمجھ کر اُس کی ایک یقین دہانی کی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ہے:ع
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
میں نے زبان فارسی دسویں جماعت کا (بے حد کٹھن) امتحان پاس کرنے کیلئے 72 سال پہلے پڑھی تھی۔ ایران کئی بار جانا بھی اس بے حد محدود علم میں اضافے کا موجب نہ بن سکا مگر کتنی حیرت اور خوشی کا مقام ہے کہ آج جب لندن میں بعد دوپہر خلاف معمول دھوپ نمودار ہوئی اور کالم نگار ایک دلکش پارک میں سیر کرنے نکلا تو اس کے بوڑھے دماغ میں شیخ سعدیؒ کا لکھا ہوا ایک مقدمہ بجلی کی طرح کوندا اور وہ تھا: ع
مارا چہ ازیں قصہ کہ گائو آمد و خر رفت
میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ کالم نگار کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے‘ اس لئے اگر شیخ سعدی نے جانے والے کیلئے گدھے کا لفظ استعمال کیا اور میں نے اُسے کالم میں معصومانہ لکھ دیا تو یہ محض اتفاق ہے۔ اس پر جانے والے کے چاہنے والے ہرگز ناراض نہ ہوں۔ اُمید ہے کہ اگلے جہان شیخ سعدی سے ملاقات ہوگی تو میں اُن کی خدمت میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر آپ نے مندرجہ بالا مقدمہ میں گائے کی تعریف اور یا گدھے کی تحقیر کی تو اُس کا کیا جواز ہے؟ ہمارے ملک جو لوگ برسر اقتدار آنا چاہتے ہیں (اور شاید آبھی جائیں جیسے کہ وہ پہلے کئی بار آئے) آپ اُنہیں جو بھی خطاب دیں آپ کی مرضی مگر آپ اُنہیں گائے ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو اپنے کردار میں گائے کے بالکل متضاد ہیں۔ بیچاری گائے تو ہزاروں سالوں سے انسانوں کو اپنا دودھ (جسے ہم پنجاب کے دیہاتی ''نور‘‘ کہتے ہیں) پلاتی آئی ہے جبکہ یہ ٹولہ‘ یہ مافیا‘ یہ لوٹ مار کے ماہرین اپنے ملک کے عوام کو دودھ نہیں پلاتے بلکہ ان کا خون چوسنے کے فن میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
آپ کی طرح میں بھی نہیں جانتا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا نہیں؟ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ صدائے عدم اعتماد ایک بار پھر ہماری عصری تاریخ پر نہ مٹنے والا ایک اور نقش ثبت کردے گی۔ آپ تین سالوں کے بجائے ہر سال اپنا وزیراعظم بدلنے کا شوق پورا کرکے دیکھ لیں‘ نہ کوئی بہتری آئے گی‘ نہ کوئی اصلاح ہوگی۔ نہ اندھیرا کم ہوگا اور نہ روشنی بڑھے گی۔ گزرے وقت میں جب ایوب خان کے دس سالہ (عشرۂ ترقی کے بعد) ایوب ناقابل اشاعت ہائے ہائے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ قائد عوام جناب بھٹو صاحب کے خلاف زبردست عوامی مظاہرے ہوئے۔ یہی حشر جنرل مشرف کا ہوا۔ بے نظیر صاحبہ اور میاں نواز شریف صاحب تین تین بار تحت نشین ہوئے اور تینوں بار کوچۂ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلے تو سارے ملک میں ایک آنکھ بھی پرُنم نہ ہوئی۔ ایک بھی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ زرداری صاحب اور جنرل ضیاالحق کے بارے میں جو الفاظ ذہن میں آئے اتنے سخت ہیں کہ اُنہیں لکھنا بہت غیر مناسب ہوگا۔ اس لئے مجھے معافی دیں۔ کہنا یہ چاہتاہوں کہ مندرجہ بالا افراد (چاہے وہ صدر ہوں یا وزیراعظم) میں سے کوئی ایک بھی ذاتی طورپر ناکام نہیں ہوا۔ نہ بھٹو صاحب اور نہ اُن کی بیٹی۔ نہ نواز شریف صاحب اور اُن کا بھائی۔ نہ کوئی فوجی آمر اور نہ کوئی عوام دُشمن وزیراعظم بلکہ وہ سیاسی اور معاشی نظام بار بار ناکام ہوا‘ جس کے وہ سربراہ تھے۔ عمران خان صاحب کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اسد عمر‘ پھر حفیظ شیخ اور اب شوکت ترین ناکام ہوئے۔ ان سے پہلے شوکت عزیز اور اسحاق ڈار بھی اتنی ہی برُی طرح ناکام ہوئے ہیں۔ آپ لاکھ اپنے حکمرانوں کو بدلیں۔ ایک باپ کی جگہ اُس کے بیٹے اور ایک باپ کی جگہ اُس کی بیٹی کو مسندِ اقتدار پر بٹھائیں۔ کالم نگار وثوق سے کہہ سکتا ہے (پنجابی محاورے کے مطابق گارنٹی دیتا ہے اور اُردو میں ضمانت) کہ آنے والا وقت گزرے ہوئے وقت سے بھی بُرا ہوگا۔ مہنگائی‘ افراط زر اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اور بیروزگاری۔ یہ سب اور بڑھیں گی۔ امن عامہ کی حالت اور خراب ہوگی۔ کروڑوں لوگوں کے بدنصیب سروں پر اُٹھائی ہوئی دُکھوں کی گٹھڑی اور وزنی ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں