صدائے عدم اعتماد…(2)

آج کے عنوان کو فریادِ عدم اعتماد لکھا جاتا تو غالباًزیادہ مناسب ہوتا۔ یہ سطور وسط مارچ میں جب لکھی جا رہی تھیں اس وقت وثوق سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کرنے اور رائے شماری کا مرحلہ آچکا ہوگا یا نہیں؟مگر اب یہ اسمبلی میں پیش ہو چکی ہے۔ جہاں تک امکانات کا تعلق ہے‘ حزبِ مخالف اور اُس کے حامی اپنی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے منتظر نظرآتے ہیں۔ یہ کالم نگار اپنے سنجیدہ اور فہمیدہ قارئین کی توجہ تین باتوں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ اوّل: تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا‘ یہ بعد کی بات ہے مگر پچھلے کئی ہفتوں سے وطنِ عزیز میں سیاسی درجہ حرارت بلند ہوتے ہوئے خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے۔ وزیراعظم بولیں تو اُن کے منہ سے پھول جھڑیں‘ آپ یہ توقع جناب عمران خان سے نہیں کر سکتے۔ وہ سیاسی مخالفین اور ذاتی دشمنوں کے درمیان بنیادی فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ میدانِ جنگ میں فریقین کا لہجہ ہر روز سخت اور غیر شائستہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اگلے دو چار ہفتوں میں معاملات میں اتنی بہتری آجائے گی کہ وہ قابلِ برداشت اور Working Relationship میں تبدیل ہو جائیں یا بدقسمتی سے اتنے بگڑ جائیں(جس کا زیادہ امکان ہے) کہ وہ ماحول ہی ناپید ہو جائے جس میں جمہوری عمل کی گاڑی (چاہے افتاں خیزاں اورلڑکھڑاتی ہوئی) آگے کی طرف چلتی رہتی ہے۔ اگر ایک دوسرے سے لڑنے والی (اور سیاسی کشمکش میں حصہ لینے کے ضابطۂ اخلاق کو نظر انداز کرنے والی) قوتیں اس شدت سے لڑیں کہ ایک پرندے کی دُم جاتی رہے اور دوسرا اپنی چونچ سے محروم ہو جائے تو ایسا افسوسناک نتیجہ برآمد ہوگا (یا ہو سکتا ہے) کہ ٹوٹے پھوٹے‘ خستہ حال اور نقائص سے بھرپور جمہوری نظام کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے۔ یہی المناک انجام بھٹو صاحب کا ہوا تھا جو ہمارے لیے عبرت ناک ہونا چاہئے تھا۔
پہلی بات ختم ہوئی تو ہم دوسری کی طرف بڑھیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کو یہ بات نہ کھٹکی ہو کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی ایک رہنما نے کبھی موجودہ حکومت کی سیاسی اور معاشی غلطیوں (اور وہ بھی فاش) کی لمبی فہرست گنواتے ہوئے ایک لفظ بول کر ہمیں بتایا ہو کہ اُس کی سیاسی اور معاشی حکمت عملی کیا ہوگی؟ وہ ہمارے دکھوں کا کیا علاج کریں گے؟ وہ ہمیں موجودہ سنگین بحران سے کس طرح نکالیں گے؟ وہ پاکستان کو خود کفیل اور خود مختار کس طرح بنائیں گے؟ وہ قوتِ اخوت عوام کو بروئے کار لا کر اسے اپنا بہترین دفاعی ہتھیار کس طرح بنائیں گے؟ وہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کون سے ٹھوس قدم اُٹھائیں گے؟ وہ 75 سالہ سراب (فلاحی مملکت کے قیام) کو حقیقت میں کس طرح تبدیل کریں گے؟ وہ ہمیں بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ افراطِ زر‘ بیروزگاری اور اربوں کھربوں ڈالروں کے غیر ملکی قرض کے بوجھ کے عذاب سے کس طرح نجات دلائیں گے؟ مختصراً یہ کہ وہ اندھیرے کو روشنی میں کس طرح تبدیل کریں گے؟تیسری بات یہ ہے کہ (ایک فرانسیسی سیاسی مفکر کے قول کے مطابق) ہمارے موجودہ بحران نے کیا ایک بار پھر یہ ثابت نہیں کر دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں (حصولِ اقتدار کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں برسر اقتدار آکر) اپنے بولے ہوئے جھوٹ کے زہریلے اثرات سے جلد یا بدیر مر جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں ایم کیو ایم اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو یہ مقامِ حیرت نہیں کہ تحریکِ انصاف بھی تاریخ کے جبر کا شکار ہو کر دیکھتے ہی دیکھتے عرش سے فرش تک کا سفر طے کر کے زمین پر اوندھے منہ جا گری۔ قیام پاکستان کے بعد یہی حشر مسلم لیگ کا ہوا اور بھارت میں کانگریس کا۔ یہی مثالیں کافی ہوں گی۔ عروج اور زوال کی اس داستان میں نیک نیتی اور بدنیتی کا نہ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ واسطہ اور نہ کوئی کردار۔ انگریز تو اس معاملہ میں اتنے Cynicalواقع ہوئے ہیں کہ اس محاورے کے خالق ہیں کہ جہنم کو جانے والا راستہ نیک نیتی اور دیانتداری کی اینٹوں سے بنایا اور سنوارا جاتا ہے۔ محمد علی جناح کو جن خوبیوں نے قائداعظم بنایا وہ سچائی اور کمال کی دیانتداری سے زیادہ‘ کہیں زیادہ اُن کی بصیرت‘ سیاسی فہم و شعور‘ اہلیت اور مستقل مزاجی اور عزم و ہمت تھیں۔ماہِ فروری میں چلنے والی تیز ہوائوں نے ماہِ مارچ میں طوفانی شدت اختیار کرنے سے جو ابتری‘ عدم استحکام اور اضطراب پیدا ہوا وہ اپنی جگہ قابلِ صد افسوس ہے مگر اس شر سے خیر کا ایک بہت چشمہ بھی پھوٹا اور وہ یہ کہ نہ صرف ہمارے موجودہ سیاسی نظام کے کھوکھلے پن‘ بے اصولی اور عوام سے لاتعلقی کا پول کھل گیا بلکہ حکمران اشرافیہ کی خود غرضی‘ ناقابلِ تصور حرص و ہوس‘ گھٹیا پن‘ سطحیت اور ایک دوسرے کی چیر پھاڑ میں وحشیانہ پن بھی بے نقاب ہوگیا۔
آپ کالم نگار سے اتفاق کریں گے کہ آج پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا مرکز بلوچستان ہے اور اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے بلوچستان کی معاشی پسماندگی۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اخوت کا ملمع اتار کر سچائی تسلیم کر لیں اور عوام دوست ماہرین معیشت (ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر علی چیمہ‘ ڈاکٹرشاہدہ وزارت اور ڈاکٹر اکرام الحق) کے بے حد قیمتی مشوروں پر عمل کریں اور اس معاشی پالیسی کی روش پر چلنا (جو خودکشی کے مترادف ہے) بند کر دیں۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ عوام کی اکثریت (جس میں تمام محنت کش شامل ہیں) کی قربانی دے کر ایک چھوٹی اقلیت کو پہلے سے زیادہ خوشحال اور دولت مند بنایا گیا۔ اس زاوے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ تمام کی تمام سیاسی جماعتیں عوام دشمن ہیں اور اصل میں ساری ایک ہیں اور ان پر قابض افراد ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ آپ بار بار ڈرائیور کو بدلتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ گاڑی کا انجن اتنا خراب ہے کہ وہ چلنے کے قابل نہیں۔ فرسودہ‘ گلا سڑا‘ عوام دشمن اور انگریز کا بنایا ہوا (عوام کو رعایا بنانے والا) نظام‘ آپ کی سادگی قابلِ رحم ہے کہ آپ اس نظام کو قائم و دائم رکھ کر اس میں بڑی انقلابی اصلاحات کئے بغیر اپنا کاروبارِ مملکت چلانا چاہتے ہیں۔ آپ 75 سال سے یہ کوشش کر رہے ہیں۔ آپ آج تک ناکام ہوتے آئے ہیں۔ آپ پھر بھی ناکام ہوں گے۔ صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے کہ آپ تحریک عدم اعتماد کے بجائے صدائے عدمِ اعتماد پر توجہ دیں۔ اپنے دکھوں کا مل جل کر‘ اتفاق رائے سے حل ڈھونڈیں۔ کالم نگار نے پاکستان بچائو منشور (عوام دوست اور محب الوطن ساتھیوں کے مشورے سے) مرتب کیا ہے۔ اُس کے بنیادی نکات یہ ہیں: انگریز کے بنائے چاروں صوبوں کی ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیا جائے۔ ہر ضلع‘ تحصیل اور گاؤں اور بڑے شہروں پر محیط مقامی حکومتوں کا بااختیار اور باوسائل نظام قائم کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ سلطانی جمہور اور قوتِ اخوتِ عوام کے ستونوں پر نئے عمرانی معاہدے کی عمارت تعمیر کی جائے۔ سرکاری تبادلے بند کر کے سالانہ اربوں روپے بچائے جائیں۔ اُردو کو سرکاری زبان بنایا جائے۔ سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور ہر قومی صنعتی ادارے میں کام کرنے والوں کو ان کا مالک بنایا جائے (کارکن ان کو لازماً نفع بخش بنالیں گے)۔ لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین کاشتکاروں میں (بے حد آسان قسطوں پر) تقسیم کر دی جائے۔ کم از کم آمدنی 30 ہزار روپیہ اور زیادہ سے زیادہ آمدنی تین لاکھ روپے ہو۔ محصولات کی وصولی پانچ گنا بڑھائی جائے اور درآمدات پانچ گنا گھٹائی جائیں۔ ہم ہر قیمت پر اپنے آپ کوخود کفیل بنائیں۔ایک ڈالر بھی قرض نہ لیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہم چہرے نہیں نظام بدلیں۔ حکمران طبقہ کے چند ہزار افراد کے درمیان کھیلے جانے والاMusical Chairsکا کھیل ایک ماتمی گھرانے کے صحن میں رقص کرنے کے مترادف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں