قومی حکومت؟

اس کالم کے عنوان کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ارادۃًلگایا گیا ہے۔ میرے خیال میں شہباز شریف صاحب نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں پہلی بار ایک ایسی بات کہی جو اُن کے ذاتی مفاد میں ہو نہ ہو قومی مفاد کا یقینا سب سے بڑا تقاضا ہے اور یہ بات تھی قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا تو کیا ذکر‘ اُن کی اپنی جماعت کی پریشانی‘ پسپائی‘ گمراہ کن وضاحتوں پر مبنی بیانیہ‘ آئیں بائیں شائیں کرنا‘ طرح طرح کی مضحکہ خیز تاویلیں پیش کرنا‘ گھٹیا ترین مصلحتوں کے بِلوںمیں چھپ جانا‘ کلمۂ حق ادا نہ کرنے پر روایت پر کاربند رہنا۔ بقول اقبال آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا کالم نگار کی جاگتی مگر اشکبار آنکھوں نے چھ ہزار میل کے فاصلے سے یہ شرمناک اور عبرت ناک منظر دیکھا۔ مجھے وہ شاعر یاد آیا جس نے اپنے سنگ دل محبوب کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ میری جان آئو مجھ پر ایک اور ستم ڈھائو کیونکہ ابھی جاں باقی ہے۔ یقین جانئے کہ پہلے تو میں شہباز شریف صاحب کے منہ سے قومی حکومت کے قیام کے حق میں دیے گئے دلائل سُن کر حیرت اور خوشی سے دم بخود ہو گیا مگر جو دکھ اور صدمہ اس بہترین تجویز کے خلاف سیاست دانوں( جن کی دیانت مشکوک ہے) اور کالم نگاروں (جن کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہے) کا مخالفانہ ردّ عمل پڑھ کر ایک بوڑھے دل کو پہنچا وہ اول الذکر جذبات کو ملیامیٹ کرنے میں بہت کامیاب ثابت ہوا۔
علم سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جب کسی جمہوری یا نیم جمہوری ملک میں حالات ہنگامی ہوں (انگریزی لفظ Emergencyکا یہی ترجمہ لغات میں ملتا ہے) نہ ہاتھ باگ پر ہو اور نہ پائوں رکاب میں‘ سیاست کا حلیہ بگڑ چکا ہو‘ معاشی نظام کی چولیں اتنی ڈھیلی ہو جائیں کہ اب اُس کا انہدام نظر آنے لگے‘ نظم و نسق ابتری کا شکار ہو جائے‘ ماحول اتنا زہریلا ہو جائے کہ اس میں مل جل کر کام کرنا تو درکنار سانس لینا بھی مشکل ہو‘ تحمل‘ رواداری‘ پرُ امن بقائے باہم اور چند بنیادی اقدار کے چار ستونوں پر کھڑی عمارت میں دراڑیں پڑ جائیں‘ تمام سیاسی جماعتیں (باری باری برسر اقتدار رہنے کے بعد) دیوالیہ ہو جائیں‘ سرکاری افسران سے لے کر ماہرین (ہماری سیاسی زبان میں Technocrat) بھی اقتدار کے بھاری پتھر کو چوم کر اس سے دور ہٹ جائیں تو اس کا صرف ایک مؤثر اور قابلِ عمل حل تجویز کیا جاتاہے اور اُسے عملی شکل دی جاتی ہے اور وہ ہے قومی یا مخلوط حکومت کا قیام۔ لطیفہ یہ ہے کہ مخلوط حکومت کے قیام میں دائیں اور بائیں بازو کے متضاد نظریات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بعُد المشرقین کا ہونا بھی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اصل ضرورت ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانا ہے۔ اس پس منظر میں ہم اپنا سیاسی منظر نامہ دیکھیں‘ تمام سیاسی جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے اتنی ملتی جلتی ہیں کہ بوقتِ ضرورت وہ دوسری جماعتوں کے وزرا بھی اُدھار مانگ لیتی ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی فوٹو کا پی ہیں‘ اُن کی عوام دشمنی ہو یا نظام بدلنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کا مصمم ارادہ‘ قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے سے لے کر ہر میدان پر قابض مافیا کی سرپرستی‘ کرپشن‘ لوٹ مار استحصال سے دلی لگائو اور طبقاتی رشتہ‘ مہنگائی‘ غربت‘ بیروز گاری اور افراطِ زر کو فروغ دینے کی مسلسل جدوجہد‘ عوام کو ڈینگی مچھروں اور پاگل کتوں سے بچانے میں ناکامی کا یکساں ریکارڈ ہو یا بجلی اور گیس کی صورت میں توانائی کی کمی سیاسی (اور غیر سیاسی) حکومتوں کی بے بسی اورکارکردگی میں رَتی بھر فرق نظر نہ آنا۔ ہماری سیاسی جماعتیں صوبائی خود مختاری کی یکساں مخالف تھیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اُن کی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی بہترین مثال مقامی حکومتوں کے نظام کو قائم کرنے اور اُنہیں بااختیار بنانے کے معاملے میں وقت گزاری (Foot Dragging)‘ حیلہ جوئی اور سبو تاژ کرنے میں یکسانیت‘ یک جان اور شش قالب (تین مسلم لیگیں جمع کرنے سے تعداد چھ تک جا پہنچی) والا معاملہ ہے۔ بہت سے ایسے گھرانے ہیں جن میں ایک بھائی ایک پارٹی میں ہے اور دوسرا ایک اور پارٹی میں اور اگر تیسرا ہو تو وہ بہ آسانی ایک اور جماعت کا قائد بن سکتا ہے اور بن جاتا ہے) اسد عمر اور محمد زبیر سگے بھائی ہیں اور اگر کوئی سیاسی زلزلہ آجائے تو اسد عمر اتنی آسانی سے مسلم لیگ کے لیڈر بن جائیں گے جتنی آسانی سے زبیر صاحب تحریک انصاف کے۔ کیا یہ تلخ سچائی نہیں کہ عمران خان صاحب کی وفاقی کابینہ میں کم از کم آدھے وہ لوگ تھے جو پرویز مشرف کی کابینہ کا بھی حصہ تھے۔ سیاسی لٹیروں‘ موقع پرستوں اور عرف عام میں Electables نے تمام سیاسی جماعتوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے سے اتنے نظریاتی اختلافات نہیں جتنے پارٹیوں کے اندر ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں گنتی کے افراد یقیناوطن پرست اور عوام دوست ہیں مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور وہ آٹے کا ذائقہ اور آٹا گوندھنے کے بعد اس کی بننے والی شکل و صورت کا تعین نہیں کر سکتے۔ گندم‘ چینی اور چاول کی پیداوار اور تقسیم‘ کراچی میں پانی کی فراہمی‘ کروڑوں ایکڑ غیر آباد سرکاری زمین کا استعمال (کاشتکاری یا مکانوں کی تعمیر)‘ ان سب پر مافیاکا قبضہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں مل جائیں تب بھی وہ ملک کے اندر مندرجہ بالا شعبوں پر قابض مافیا کے سامنے بے حد کمزور ہیں اور ملک کے باہر مافیا کی دست نگر اور محتاج ۔ شہباز شریف صاحب کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے ہمت کر کے سچ بول دیا۔ وہ سو فیصدی درست کہتے ہیں کہ جو بھی پارٹی الیکشن جیت جائے وہ اکیلے ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ اگر ساری جماعتیں مل بھی جائیں تب بھی ان کی مخلوط حکومت کی کامیابی کے آگے سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ ساری سیاسی جماعتیں مل کر میثاقِ معیشت مرتب کریں۔ وہ ایک نئے معاہدہ عمرانی کے تحت طے کریں کہ فلاحی مملکت کس طرح (اور کب ) قائم ہوگی۔
وہ سحر کب طلوع ہوگی جو شب گزیدہ نہ ہوگی۔ ہماری آنکھیں وہ اجالا کب دیکھیں گی جو داغ داغ نہ ہوگا۔ ان گزرے ہوئے 74 سالوں میں کروڑوں عوام‘ مزدوروں‘ کسانوں اور کم آمدنی والے ملازمین نے جو دکھ سہے ہیں‘ وہ کب ختم ہوں گے؟ کیا موجودہ المیہ ہمیں جگانے اور مل جل کر کام پر آمادہ کرنے کیلئے کافی نہیں؟ حالات اور کتنے خراب ہوں گے تو ہم شہباز شریف کی بے حد معقول تجویز سے اتفاق کریں گے۔ ہمارا ہر ادارہ‘ ہر شہر مسائل میں ڈوبتا جا رہا ہے‘ انسانی حقوق سے لے کر قانون کی حکمرانی تک۔ میرٹ سے لے کر انصاف کے تقاضوں کے احترام تک سب کے پرخچے اُڑ چکے ہیں۔ معمولی ہوا میں ان کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ کیا ہم اب بھی یہ مان لینے اور کہہ دینے پر تیار نہیں کہ Enough is Enough؟ صدیوں پر پھیلے ہوئے تجربے نے دو باتیں ثابت کردی ہیں۔ اول: قومی مسائل قومی اتفاقِ رائے کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ دوم: قومی حکومت کے قیام کے بغیر قومی اتفاقِ رائے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ شہباز شریف خوش نصیب ہیں کہ اُن کے حصے میں یہ سعادت آئی کہ وہ ایک ایسی بات کہہ دیں جو وقت کی آواز ہے۔ نوشتۂ دیوار ہے اور وہی جب رخشندہ ستارہ بن کر ہمارے قومی اُفق پر اُبھرے گی تو ہم قومی حکومت کی صورت میں ایک نئی قوسِ قزح دیکھیں گے۔ آج ہمارے لیڈر قائداعظم نہ ہیں او رنہ ذوالفقار علی بھٹو۔ ایسی تہی دامن قوم کرے تو کیا کرے؟ جواب ہے کہ وہ اپنی اجتماعی دانش پر بھروسا کرے۔ کالم نگار اس جسارت کی اجازت چاہتا ہے کہ وہ یہ لکھے کہ ہمارے اتنے خراب حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ قومی حکومت میں ہر شعبہ زندگی کے نمائندے شامل ہوں۔ حکومت وہ ہو جو سب کی ہو یعنی All Inclusive؛ سلطانی جمہور کی بہترین تصویر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں