لے گئیں بیمار کو بیماریاں

آج کے کالم کا عنوان جس چھوٹی بحر کی غزل سے لیا گیا وہ قریباً سو سال پہلے حفیظ جالندھری نے لکھی۔ ماضی قریب میں وحدت رمیز نے لہک لہک کر گایا۔ شاعر‘ گلوکار اور موسیقار (غالباً ایک گمنام میر صاحب) تینوں نے کمال کر دیا۔ جونہی کالم نگار کو تین اپریل (بروز اتوار) صبح کے وقت (جب پاکستان میں بعد دوپہر تھی) چھ ہزار میل دور سے اپنے وطن عزیز سے قومی اسمبلی کی کارروائی اور وزیراعظم کی جوابی کارروائی (قومی اسمبلی کو اس جرم میں تحلیل کرا دینا کہ وہ اکثریت اراکین کی حمایت کھو چکے تھے) کی شرم اور تشویش سے سر جھکا دینے والی خبر ملی تو مجھے مذکورہ بالا مصرع یاد آیا اور بار بار آیا۔ میں نے ٹیلی وژن پر ہونے والے تبصرے کئی گھنٹے جگر تھام کرسنے ۔ اللہ تعالیٰ سے صبر کی دعا مانگی اور اپنے 22 کروڑ ہم وطنوں کی خیر خیریت کی بھی۔ سارے اخبارات کے اداریے اور سارے کالم بھی اسی دل گرفتگی کے عالم میں پڑھے۔ پھر یہ سوچ کر اپنے دل کو سمجھایا کہ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔ ماہ رمضان کے مبارک مہینہ کا اس سے زیادہ تلاطم خیز آغاز اور کیا ہو سکتا تھا؟ مگر جو بات کالم نگار کو برُی طرح کھٹکی کہ Spot Lightبیمار پر تھی نہ کہ اُن مہلک بیماریوں پر جن سے بیمار کا زندہ بچ نکلنا ناممکن نہیں تو محال ضرور تھا۔ میرے قارئین گواہی دیں گے کہ میں شروع دن سے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ جب میں برطانوی راج سے ورثہ سے ہمیں ملے ہوئے پارلیمانی نظام کی بے حد مسخ شدہ اور بھونڈی شکل کی دلائل کے ساتھ مخالفت اور مذمت نہ کروں۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا ہمارے پارلیمانی نظام کی مقامی خامیوں اور دیسی خصلتوں کی وجہ سے لگا۔غیر جمہوری مداخلت نے ایک بار پھرجمہوری عمل کو سبوتاژ نہیں کیا مگر ہمارے خستہ حال‘ لاچار اور بیمار پارلیمانی نظام کی ناکامی نے مداخلت کو ناگزیر بنا دیا۔ دوسرے الفاظ میں اسے دعوت دی۔ کالم نگار ایک بار پھر اہل وطن کی خدمت میں دست بستہ گزارش کرتا ہے کہ برائے مہرمانی اپنی توجہ بیمار کی شخصیت اور انفرادیت سے ہٹا کر اُن عوامل پر غور فرمائیں جو آج ایک اور وزیراعظم کی بیماری کا باعث بنے۔ اگر عمران خان ''انتہائی نگہداشت یونٹ کے بہترین علاج معالجہ سے بھی صحت یاب نہ ہو سکے اور اُنہوں نے تین اپریل سے سیاسی قبرستان کی طرف سفر شروع کر دیا تو اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ مریض چاہے کتنی اچھی صحت کا مالک ہو‘ ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کیلئے چاہے کتنی سر توڑ کوشش کی ہو‘ مرض اتنا شدید تھا کہ وہ جلد یا بدیر مریض کا وہی حشر کر رہے جو اس سے پہلے لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کربے نظیر بھٹو اور نوازشریف کاکرچکے تھے۔ کالم نگار نے اپنی زندگی کے 65 برس برطانوی آئین پڑھنے اور پڑھانے میں صرف کیے ہیں۔ 55 سالوں سے میں برطانیہ میں رہتا ہوں اور یہاں کے اُمورِ مملکت میں نہ صرف گہری دلچسپی بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لیتا ہوں۔ برطانیہ میں سات برس قانون کی تعلیم و تربیت حاصل کرکے بیرسٹر بنا۔ 30 سالوں سے قانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں Friends of Pakistanگروپ کا 40 سالوں سے سیکرٹری ہوں۔ آنجہانی Lord Eric Aveburyاس کے صدر تھے اور وہ میری ذاتی دعوت پر چار بار پاکستان تشریف لائے۔ صرف وہی نہیں‘ برطانوی دارالعوام کے مشہور سپیکر اور ہائوس آف لارڈز کے ممتاز رکن Lord Weatherillبھی ایک بارگئے۔ بطور براڈ کاسٹر‘بی بی سی سے چار سال منسلک رہا۔ معافی چاہتا ہوں کہ کالم نگار کا تعارف نہ چاہتے ہوئے بھی اتنی سطور لے گیا۔ در گزر فرماکر اور از رہِ کرم میری فریاد سنیں۔ پارلیمانی نظام کے سوراخ سے ہم اور کتنی بار ڈسے جائیں گے؟ یہ کشتی (جس میں چھلنی جتنے سوراخ ہوں) تند و تیز موجوں میں ڈوب جائے تو کیا یہ حیرت کا مقام ہے؟ اپنی 75 سال تاریخ میں رونما ہونے والے سیاسی بحرانوں کو مڑ کر دیکھیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے؟
برطانوی نظام حکومت(جو پارلیمانی نظام کی بہترین مثال ہے) جس آئین کے تحت ایک ہزار سال چلتا آیا ہے۔ (درمیان میں ایک بادشاہ کو سزائے موت بھی دی گئی) وہ اتنا مستحکم اور پائیدار ہے کہ اُسے ایک دستاویزی شکل میں لکھنے کی ضرورت درپیش نہیں آئی۔ وہ دنیا کا واحد آئین ہے جو غیر تحریر شدہ ہے مگر فعال‘ کارآمد‘ زندہ و تابندہ ہے۔ وجہ کیا ہے؟ اس کی عمارت مضبوط اقدار‘طے شدہ اُصولوں‘صدیوں پرانی روایتوں‘ عدالتی فیصلوں اور غیر متنازع ضابطوں کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ ہمارے پاس اس قدیم عمارت اور اس کے ستونوں کی ایک اینٹ بھی نہیں۔ برطانوی راج میں جمہوری خطوط پر نظام حکومت چلانے کا مسلمانوں کے پاس کتنا تجربہ تھا؟ قریباً صفر۔ سب سے زیادہ تجربہ اور سیاسی شعور جس صوبہ کے پاس تھا وہ تھا مشرقی پاکستان۔ وہاں رہنے والوں کو اس ''سنگین‘‘ جرم کی سزا ملی۔ گزرے ہوئے چار برسوں میں عمران خان ناکام نہیں ہوا بلکہ وہ نظام ایک بار پھر برُی طرح ناکام ہوا جس کا وہ کل پرُزہ تھا۔ موجودہ نظام Electables کی بیساکھیوں کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتا۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کا حدود اربعہ کیا ہے؟ دولت (او روہ بھی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی)‘ برادری‘ مقامی اثر و رسوخ‘ تھانہ کچہری اورپٹواری کے گرد گھومتی ہوئی ''عوامی خدمت‘‘۔ ان سب میں غنڈوں کی سرپرستی بھی شامل کر لیں تو تصویر مکمل ہو جائے گی۔ سمجھ نہیں آتی کہ اُن لوگوں کی سادگی پر ہنسیں یا روئیں جو مذکورہ بالا Electablesسے قومی مفاد کے شعور‘ اُصولوں کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی پر ایمان‘ آئینی روایات کے احترام‘ بے حد ضروری اور جان بچالینے والی اصلاحات کے فہم‘ ذاتی تعلقات‘دوستی اور رشتہ داری پر ضمیر کی آواز کو ترجیح اور برتری دینے کی توقع رکھتے ہیں۔ سادگی کا لفظ لحاظاً اور مروتاً لکھا گیا ہے ورنہ جی چاہتا تھا کہ اس کے بجائے سخت لفظ لکھوں مگر ڈرتا ہوں کہ وہ غیر شائستگی کے زمرے میں آئے گا۔ ہم اس مفروضے سے آگے بڑھتے ہیں کہ ساری قوم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم سب جمہوریت اور سلطانی ٔ جمہور چاہتے ہیں۔ ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک آزاد ملک صرف قوتِ اخوتِ عوام سے زندہ رہتا ہے چاہے‘ وہ یوکرین ہو اور اُس پر روس پوری طاقت سے حملہ آور ہو جائے۔ چاہے وہ افغانستان ہو اور دنیا کے سب سے پسماندہ ملک پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت (امریکہ) جدید ترین ہتھیاروں سے حملہ کرے اور حملہ بھی وہ جو 20سال جاری رہے۔ چاہے وہ ویتنام ہو یا ایران۔ ان کو Super Power (یا اس کے پٹھوؤں) کی وحشیانہ جارحیت بھی اُس طرح کے بحران میں مبتلا نہیں کر سکتی۔ جس طرح پاکستان حالتِ امن میں بھی کئی بار ہوا ہے۔ اور اب ایک بار پھر خلفشار‘ بے یقینی‘ عدم استحکام اور قطبین میں تقسیم (Polarisation)کا شکار ہو کر جس حالت سے گزر رہا ہے وہ کالم نگار کی طرح لاکھوں محب الوطن افراد کیلئے ایک ڈرائونے خواب کی طرح ہے اور شدید ذہنی اذیت کا باعث‘ دن کا چین اور رات کا آرام حرام کرنے والا عذاب !اس کالم کا زیادہ حصہ تو بیماری کی تشخیص اور نشاندہی لے گیا۔ آیئے اب سوچیں کہ اُس بیماری کا علاج کیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے نیک نیتی اور دیانت داری کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص کے عبرت ناک زوال کا باعث بنی۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس بیماری کے سبب بیمار ہو جانے والے آخری شخص کو خود اس حقیقت کا علم نہیں کہ وہ تو چنگا بھلا تھا‘ بیمار ہوا تو کیونکر؟ کبھی وہ بے چارہ (بھٹو صاحب کی طرح) امریکہ کی دھمکی کا مبینہ خط ہوا میں لہراتا ہے اور کبھی ملک دشمنوں کی سازش (بقول عمران خان‘ غداری) کو ناکام بنانے کیلئے سر پر کفن باندھ کر نعرہ بلند کر کے میدانِ جنگ میں کود پڑتا ہے۔ (یا بقول ناقدین‘ بھاگ جاتا ہے) لطیفہ یہ ہے کہ اُس کے سپیکر صاحب بھی بھاگ گئے۔ پنجاب کے گورنر کو برخاست کرنا بھی کام نہ آیا۔ کچھ بھی کام نہ آیا۔ بقو ل اقبال :میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں