ہماری تاریخ کے تاریک گوشے… (1)

صرف تاریک ہی نہیں شرمناک اور عبرت آموز بھی۔ مقصد گڑے مردے اُکھاڑنا ہر گز نہیں بلکہ اسی نکتہ کی وضاحت (ٹھوس شواہد پیش کر کے) کرنا ہے کہ آج جب ہم ہر شعبہ زندگی میں حالت ِزار کو دیکھتے ہیں تو یہ ہر گز نہ سمجھیں کہ کل رات جب ہماری آنکھیں نیند سے بند ہوئیں تو ہر طرف خیریت تھی اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا‘ جب ہم جاگے تو پتا چلا کہ یکایک موسم بہار تو خزاں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ہم ایک زوال پذیر عمل کی بدولت ایک ایسی دلدل میں آگرے کہ نہ بھاگ سکتے ہیں اور نہ ٹھہر سکتے ہیں۔ علاج بھی ایک عمل کے ذریعے ہوگا۔ اندھیرے سے روشنی کی طرف بڑھنے کا عمل۔ اگر ہم قدم قدم چلتے رہے تو خطرہ ہے کہ دیر ہو جائے گی۔ اگر بھاگ سکیں تو تیز رفتار سے دوڑنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو جتنا تیز چل سکیں اتنی تیزی سے چلیں۔ وقت کم ہے‘ منزل دور اور 75 سالوںکے زوال پذیر عمل نے ہماری صلاحتیں سلب کرلی ہیں۔ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے ہمیں انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی اور متعصب‘ تنگ نظر‘ فرقہ پرست اور مہاسبھائی ذہن رکھنے والی ہندو اکثریت کی بالادستی کے اُمڈتے ہوئے خطرے سے نجات دلائی۔ کالم نگار کی نسل اور ہم عصروں نے کیا کیا؟ نہ صرف بدترین ناشکری بلکہ بے اُصولی‘بے ضمیری‘ قانون شکنی اور عوام دشمنی کا ہر روز‘ ہر ماہ‘ ہر سال‘ پورے75 سال مظاہرہ‘ جو بدستور جاری ہے۔ نجانے پستی کی طرف جانے کا عمل پاتال تک کب پہنچے گا؟
کالم اور کتاب لکھنے کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند مثالیں دینے پر اکتفا کیا جائے گا۔ قائداعظم نے اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے تو وفات نہ پائی تھی۔ وفات سے کئی ماہ پہلے صحت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ اُن کیلئے دفتری اُمور کی طرف توجہ دینا ممکن نہ رہا۔ اُن کے معالج (کرنل الٰہی بخش) کی ڈائری پڑھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ ایک بہادر آدمی کی جسمانی حالت ریت کی دیوار بن چکی تھی‘ جو آج گری یا کل گری۔ یہ قائداعظم کی قوتِ ارادی تھی جس نے اُنہیں زیارت میں اتنے ماہ زندہ رکھا۔ کیا کابینہ کا یہ فرض نہ تھا کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھتی‘ سوچتی اور فیصلہ کرتی کہ اُن کا جانشین کون ہوگا؟ نہ معلوم وزیراعظم (لیاقت علی خان) نے زیارت جاکر اور اپنی آنکھوں سے اپنے قائد کی بے حد خراب صحت اور آخری مرحلہ میں داخل ہونے والی بیماری سے ایک پرُ وقار اور شاندار شخص کا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جانے اور بمشکل سانس لینے کو دیکھ کر کراچی واپسی پر اپنی کابینہ کو کیا بتایا؟ قائداعظم کو بے ہوشی کے عالم میں کراچی واپس لایا گیا۔ جو ایمبولینس اُنہیں ایئر پورٹ سے گھر پہنچانے کیلئے بھیجی گئی وہ راستے میں ہی خراب ہو گئی۔ قائد کا ایئر پورٹ پر نہ کسی بڑے افسر نے استقبال کیا اور نہ کسی وزیر نے۔ اُن کا سانس اُکھڑنے لگی تو پتا چلا کہ ایمبولینس میں آکسیجن نہیں۔ قائد کی بہادر بہن نے کے ایچ خورشید مرحوم (جو قائداعظم کے سیکرٹری تھے) کو جو بتایا وہ خورشید صاحب نے (1972 ء میں میرے مہمان بنے) مجھے بتایا کہ قائد کو سڑک کے کنارے لٹایا گیا‘ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی مگر کوئی ایک گاڑی نہ رُکی۔ کافی دیر انتظار کے بعد دوسری ایمبولینس آئی۔ (وہ بھی پاک فضائیہ کے ایک افسر ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ کی کاوش سے جووہاں سے اتفاقاً گزر رہے تھے)۔ اُسی شام قوم کا باپ اُسی شہر میں اپنے مالک کے پاس واپس چلا گیا جہاں 72 سال قبل وہ پیدا ہوا تھا۔
ہم یتیم ہوئے تو کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تاکہ قائد کا جانشین مقرر کر سکیں۔ آپ ذرا سوچیں کہ اُس وقت کابینہ کے اراکین کی ذہنی حالت کیا ہوگی؟ بدترین افراتفری اور پریشانی کاعالم ہوگا۔ لیاقت علی خان کی کابینہ کو نہ ایم ایچ اصفہانی نظر آئے اور نہ سردار عبدالرب نشتر نہ آئی آئی چندر یگرنہ چوہدری محمد علی‘نہ سابق چیف جسٹس سر عبدالرشید اور نہ سٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین‘ مگر کابینہ نے کس شخض کو ان ہنگامی حالات میں اتنی بڑی ذمہ داری سونپی؟ مشرقی پاکستان کے ایک سیاست دان کو جو نواب آف ڈھاکہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نام تھا خواجہ ناظم الدین‘ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ مگر بڑے کمزور ہونے کے معنوں میں شریف النفس۔ دھیمی آواز میں بات کرنے والے۔ سرکاری افسروں اور وزیروں کی ہر بات سے اتفاق کرنے والے اور ہمیشہ ''ہاں‘‘ میں سر ہلانے والے۔ لیاقت علی خان نے قائداعظم کی ماتحتی میں ایک سال جس طرح بصد مشکل گزارا ہوگا وہ صرف وہی جانتے ہوں گے۔ انہیں مٹی کا مادھو ڈھاکہ کے نوابی خاندان سے مل گیا لیکن ایک اچھا نتیجہ نکلا کہ اگلے تین برس (لیاقت علی خان کی شہادت تک) گورنر جنرل اور وزیراعظم میں کسی ایک مسئلے پر چھوٹا سا اختلاف بھی نہ ہوا۔ ان تین سالوں میں لیاقت علی خان نے (بطور وزیراعظم ) کیا کچھ کیا؟ (1):ـروس کے سرکاری دورہ کی دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ جا پہنچے اور یہ کارنامہ سرانجام دیا کہ امریکہ کی غلامی کی ابتدائی تیاریاں مکمل کر کے گھر لوٹے۔ 1947 ء میں امریکہ کی بالادستی کی زمین ہموار کرنے کا مرحلہ لیاقت علی خان کے ہاتھوں اور قدموں کی بدولت طے پایا۔ (2) :پنجاب اسمبلی کے انتخاب (قیام پاکستان کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخاب) میں دھن‘ دھونس اور دھاندلی کا بے دریغ استعمال کر کے (نیم مردہ) مسلم لیگ کے اُمیدواروں کو کامیاب کرایا گیا۔ ہمارے پہلے وزیراعظم نے جمہوریت اور سلطانی ٔجمہور کی پہلی قبر کھودی۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک سال بعد وہ جامِ شہادت نوش کر کے ِاسی قبر میں دفن ہو جائیں گے۔ (3): انگریزوں کے چھوڑے ہوئے نو آبادیاتی اور عوام دشمن نظام میں رتی بھر اصلاح کی طرف توجہ نہ دی۔ (4): کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے اقوام متحدہ کی طرف سے مقررکردہ Sir Owen Dixonکی کوئی بھی معقول تجویز منظور نہ کر کے اس سب سے بڑے سیاسی مسئلہ کو اس طرح کھٹائی میں ڈال دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ مزید پیچیدہ اور قابل قبول حل کی منزل سے دُور ہوتا چلا گیا۔ (5) :بھارت کی طرف سے دریائی پانی بند کرنے اور جارحانہ عزائم کا جواب صرف مکا دکھا کر دیا۔ حصولِ اقتدار میں اندھے ہو جانے والے طالع آزمائوںنے دیکھا کہ اُن میں اور اقتدار اعلیٰ میں صرف ایک شخص حائل ہے اور وہ ہے لیاقت علی خان تو مشتاق گورمانی‘ ملک غلام محمد‘ دو بڑے پولیس افسران (نجف خان اور قربان علی خان) نے سازش کر کے وزیراعظم کو راولپنڈی کی اُس جلسہ گاہ میں قتل کروا دیا جہاں برسوں بعد ایک اور سابق وزیراعظم (بے نظیر بھٹو) کو قتل کروایا گیا۔ اب ہم ایک جست میں 28 برس آگے بڑھتے ہیں۔جناب بھٹو صاحب نے جو سیاسی خلا خود پیدا کیا اُس کا ڈراپ سین اُن کی پھانسی کی صورت میں ہوا۔ صرف وہی نہیں بھٹو صاحب کو پھانسی لگوانے والے ضیا الحق کا طیارہ بھی (بالکل اسی طرح کی سازش کر کے) بظاہر حادثہ کا شکار بنایا گیا۔ ان سب واقعات‘ سانحات اور المیوں کا سبب ایک ہی تھا۔ پہلے وزیراعظم سے لے کر (دوسرے مارشل لاء کے بعد اور تیسرے مارشل لاء سے پہلے) ذوالفقار علی بھٹو تک جتنے افراد بھی وزیراعظم بنے‘ وہ سب کے سب نہ جمہوریت پسند تھے اور نہ عوام دوست۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا نام اور کام ایک دوسرے کے متضاد تھا۔ بدقسمتی سے جناب بھٹو صاحب بھی قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کے عملاً اتنے ہی بڑے مخالف تھے جتنے ان سے پہلے کے دوآمرانِ مطلق اور دو بعد میں آنے والے۔ دیانتداری سے سوچا جائے توآمروں نے کم از کم مقامی جمہوریتوں کا پودا تو لگایا اور اُسے پروان چڑھایا۔ میرے پیارے دوست راجہ منور احمد صاحب کی بھرپور کوشش کے باوجود بھٹو صاحب یہ ثواب بھی نہ کما سکے۔ صد افسوس کہ عمران خان صاحب بھی مقامی حکومتوں کے قیام کے بلند بانگ نعروں کو عملی شکل نہ دے سکے۔ نتیجہ؟ وہ نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی میدان میں بھی بری طرح ناکام ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں