ہماری تاریخ کے تاریک گوشے… (2)

75برس گزر گئے مگر ابھی تک ہمیں یہ پتا نہیں چل سکا کہ دستور ساز اسمبلی (جو قانون ساز بھی تھی) کی موجودگی میں لیاقت علی خان اور اُن کی نامزد کردہ Hand Pickedکابینہ کو یہ اختیار کس قانون کے تحت حاصل تھا کہ وہ خواجہ ناظم الدین کو قائداعظم کی وفات کے چند گھنٹوں کے اندر پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل بنا دے؟ قانوناً برطانیہ کا بادشاہ دولت مشترکہ میں شامل ہر ملک کا سربراہ (گورنرجنرل) مقرر کرتا ہے‘ یہ تقرری صرف شاہی منظوری اور شاہی دستخطوں سے ہوتی ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ملکہ برطانیہ سے منظوری کب اور کس نے طلب کی؟ یہ دستاویز اب کہاں پڑی ہے؟ یہ تو ستمبر1948 ء میں ہوا‘ اب ہم تین برس آگے چلتے ہیں۔ لیاقت علی خان راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بمشکل چند لفظ ہی بول پائے تھے کہ وہ اپنے دو وزیروں اور اُن کے چہیتے دو پولیس افسروں کی سازش کے نتیجہ کے طور پر ایک افغان جاسوس کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ مذکورہ دو پولیس افسروں میں سے ایک نے قاتل کو وہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تاکہ سازش کرنے والوں کے نام کبھی بھی منظر عام پر نہ آسکیں۔ بیگم لیاقت علی خان کے پرزور اصرار پر لندن سے شہرئہ آفاقSocatland Yard کے سراغ رساں منگوائے گئے مگر وہ بھی ناکام لوٹے۔ جس بھی پولیس افسر نے ہمارے پہلے وزیراعظم کے قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کی وہ بھی کسی نہ کسی طرح ہلاک کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر اعتزاز الدین کا طیارہ کوہستان نمک پر اُڑتے ہوئے ''حادثے‘‘ کا شکار ہو گیا۔ صرف لیاقت علی خان کے قتل پر بات ختم نہیں ہوتی ‘ ضیا الحق کے طیارہ کی تباہی‘ بے نظیرکے لیاقت باغ میں قتل اور اُن کے بھائی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے‘ مرتضیٰ بھٹو کی کلفٹن کراچی میں اپنے گھر کے باہر پولیس کی گولیوں کی بارش سے ہلاکت‘ قتل کی ان تین سنگین وارداتوں کو بھی جمع کر لیں تو کل تعداد چار بنتی ہے۔ آپ قتل کرنے والوں کی منصوبہ بندی کو دیکھیں کہ ہمیں آج تک ان قاتلوں کے ناموں کا پتا نہیں چل سکا۔ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں؟
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ایوب خان کو قائداعظم کے حکم پرمشرقی پاکستان (ایک طرح کی ملک بدری) بھیجا گیا تھا۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ایوب خان قائداعظم کی وفات کے بعد مغربی پاکستان واپس آئے۔ ہم سردار بہادر خان کو بھی جانتے ہیں ‘ جو قانون ساز اسمبلی کے ایک اہم رکن تھے‘ اور یہ بھی کہ اُنہی کے دورِ رکنیت میںایوب خان صاحب کے عہدے میں مثالی ترقی ہوئی اور چار سال کے اندر وپ کرنل سے جنرل کے منصب تک پہنچ گے۔27 اکتوبر 1958 ء کوجنرل ایوب خان حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تو اُنہوں نے اپنے آپ کو (اپنی کابینہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے) فیلڈ مارشل کے اعزازی عہدہ تک ترقی دے لی۔کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایوب خان امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے گئے تو اُنہوں نے اپنے میزبانوں کو یقین دلایا کہ امریکی فوج پاکستان میں جب چاہے‘ جہاں چاہے اُتر سکتی ہے اور جو چاہے کر سکتی ہے۔ (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ پاکستان کی مختصر تاریخ صفحہ نمبر202 )۔ اُنہوں نے امریکی دبائو کے تحت ہمارے تین دریا (جو ہماری رگِ جان کی حیثیت رکھتے تھے) بھارت کے ہاتھ فروخت کردیے۔ شاہِ ایران کو خوش کرنے کے لیے بلوچستان کا ایک ٹکڑا اور جذبۂ خیر سگالی کو فروغ دینے کے لیے زمین کاایک ٹکڑا چین کو بطور تحفہ دے دیا۔ جب رائے عامہ اُن کے خلاف ہوئی‘ جب دس سالہ آمریت کی برکتیں عوام کو نظر نہ آئیں تو اقتدار کا عمل ریت کا گھروندا بن گیا اور ایوب خان کو خود اپنے بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرنے اور پامال کرنے میں ذرا دیر نہ لگی۔ اُنہوں نے بلا توقف بھیڑوں کے ریوڑ کو ہانکنے کی ذمہ داری اپنے نائب کو سونپ دی۔ سیاسی اُمور تو ویسے ہی ایک فوجی افسر کی تعلیم و تربیت کا حصہ نہیں ہوتے‘ صرف عسکری اُمور ہوتے ہیں اور فیلڈ مارشل ایوب خان کی عسکری قابلیت کا امتحان بھی اسی شعبے میں تھا؛ تاہم یہ مانا جاتا ہے کہ 1965 ء کی جنگ کو اچھی طرح لڑنے کے لیے جس اچھی حکمت عملی کا کمال دکھانا ایوب خان صاحب کا فرض ِمنصبی تھا‘ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر کالم نگار اپنے سر سے ٹوپی اُتار کر اور کھڑے ہو کر اُن بہادر سپاہیوں اور افسروں مثلاً جنرل اختر ملک‘ بریگیڈیئر امجد چوہدری اور میجر عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کو سلام کرتا ہے جنہوں نے ہمیں شکست سے بچا لیا۔ اب رہ گئی عزت تو وہ 65ء کی جنگ میںہمارے خدا نے بچالی مگر 71 ء میں ہم نے آدھا پاکستان گنوادیا۔ ہمارے ہزاروں فوجی جنگی قیدی بنے۔ رہ گئی ہمارے سر پر پگڑی (جو ہماری عزت کا اور وقار کا نشان ہے) تو وہ ملک کا مشرقی حصہ گنوانے کے بعد کہاں محفوظ رہ گئی۔ یہ مشترکہ کارنامہ یحییٰ خان اور اُن کے سیاسی حلیف (ذوالفقار علی بھٹو صاحب) کا تھا۔ وہ دونوں تو راہی ملک عدم ہوئے مگر کالم نگار سابقہ مشرقی پاکستان جائے تو اُسے بنگلہ دیش کا ویزا لینا پڑتا ہے اور وہ ڈھاکہ کے Slumsمیں ہزاروں بہاریوں (جو آج بھی پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں) کی حالتِ زار دیکھ کرخون کے آنسو روتا ہے۔
اُس وقت کے سب سے بڑے سیاست دان جناب حسین شہید سہروردی اور پھر آئی آئی چندریگر (جو صرف دو ماہ وزیراعظم رہے) کے بعد فیروز خان نون کی باری آئی۔ گورنر جنرل اسکندر میرزا کے چوتھے شکار تھے۔ اُن کا اقتدار ختم ہونے کے بعد پتا چلا کہ موصوف بڑے عہدے کے افسران کو سندھ میں جو زمین بطورِ تحفہ دینا چاہتے تھے اُس کی مالیت (اُس دور کی قیمتوں کے حساب سے) تین سو ملین روپے بنتی تھی۔ (تفصیل25 مئی1995 ء کے کابینہ اجلاس اور مرکزی حکومت کے سرکاری ریکارڈ کی فائل 371/52/55 میں پڑھی جا سکتی ہے)۔ اکتوبر 1956 ء میں (جب ہمارے ملک میں پہلا مارشل لاء لگا) قومی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد80 تھی اور اُن میں سے 26کے پاس وزارتی عہدے تھے۔ اگر مارشل لاء نہ لگتا تو وزراء کی تعداد اور بڑھ جاتی۔ جب اسکندر میرزا کو نظر آیا اور اُن کے سر پرست امریکیوں کو بھی (امریکی اُن کے سمدھی بھی تھے چونکہ اسکندر میرزا کے بیٹے کی شادی امریکی سفیر Hildreth کی بیٹی سے ہو چکی تھی) کہ انتخابات (خصوصاً مشرقی پاکستان میں) ہوئے تو حکمرانوں (جو قابلِ اعتبار اور آزمودہ پٹّھوتھے) کے مخالفین اور پاکستان کی بالادستی کے حامی جیت جائیں گے تو اسکندر میرزا اور ایوب خان نے مل کر جمہوری اور آئینی نظام کی صف لپیٹ دی اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔ (جس نے بعد میں لگنے والے تین مارشل لاء ادوار کی زمین بھی ہموار کر دی)۔ آپ کالم نگار کے بیانیہ کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ایوب خان کی ڈائری (مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس) کا صفحہ نمبر116 خود پڑھ لیں۔ آپ 18 دسمبر 1951 ء کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کیبنٹ ڈویژن کی فائل651/CF/58میںپڑھیں تو آپ کے چاروں طبق روشن ہو جائیں گے اور آپ کے منہ سے فارسی کا ایک مقولہ خود بخود اور بار بار ادا ہوگا۔
چہ دلاور است دُز دے کہ بہ کف چراغ دادد
مطلب ہے کہ چور کی سینہ زوری ملاحظہ ہو کہ جب چوری کرنے نکلا تو ہاتھ میں چراغ تھا۔ ہماری حکمران اشرافیہ کا کردار اس سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں