کیا میں نے کیا ہے؟…(1)

میں کون ہوں؟ حدود اربعہ کیا ہے؟ غیر منقسم ہندوستان کا رہنے والا ہوں۔ کئی صدیوں سے‘ ہزاروں سالوں سے۔ قرۃالعین حیدر کا بھلا ہو کہ اُس نے میری جنم جنم کہانی ایک اچھے ناول (آگ کا دریا) کی شکل میں بیان کر دی تو میرا تعارف ہزاروں‘ کئی ہزاروں ایسے افراد (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے) سے ہوا جن کیلئے میں اجنبی تھا‘ مگر وہ سوال جو ہزاروں سالوں سے میرے دل و دماغ میں مچل رہا ہے کہ میں خالقِ کائنات سے بصد ادب پوچھوں کہ میں نے کون سی غلطی کی ہے؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی؟ کون سی بھول ہوئی جس کی مجھے ہزاروں سالوں سے سزا اور وہ بھی اتنی سخت سزا مل رہی ہے۔ جالندھر کے آس پاس رہنے والے ایک گلوکار (کندن لال سہگل) نے اپنے وجدان سے وہ سوال میرے دل کی گہرائیوں سے ڈھونڈ نکالا جسے میں نہ بیان کر سکتا تھا اور نہ الفاظ کی شکل دے سکتا تھا۔ سہگل نے کاتبِ تقدیر کو مخاطب کر کے پوچھا اور بار بار پوچھا کہ ''کیا میں نے کیا ہے؟‘‘ بظاہر تو سہگل گلوکار تھے مگر دراصل وہ میرے وکیل تھے۔ میرے ترجمان تھے۔ اس سے پہلے کہ سہگل کو اُن کے سوال کا جواب ملتا وہ میری بدقسمتی سے (کثرت شراب نوشی کے باعث) عالم ِجوانی میں ہی ابدی نیند سو گئے۔ اگلے جہان میں وہ اپنے خالق کے حضور پیش ہوئے ہوں گے تو نہ معلوم اُنہیں اپنا سوال (جو انہوں نے میری طرف سے پوچھا تھا) دوبارہ پوچھنا یاد رہا یا نہیں؟ وکیل تو اپنے موکل کو اُسی زمین پر جہاں وہ (بقول اقبال) صدیوں سے چیونٹی کی طرح خاکِ راہ میں اپنا رزق ڈھونڈتا چلا آیا ہے۔ چھوڑ کر بہت دور چلا گیا۔ سہگل تو سُکھی ہو گیا۔ قرۃ العین حیدر کی طرح۔ میرے دوسرے ہمدردوں کی طرح۔ کیفی اعظمی‘ فیض‘ فراز اور حبیب جالب کی طرح۔ فیصل آباد کے احمد ریاض‘ قصور کے بلھے شاہ اور سندھ کے عنایت شہید کی طرح۔ میرا تو جو حال ہوا وہ ہوا مگر میرے غم گساروں کا حال شاید مجھ سے بھی برا ہوا۔ بھگت سنگھ سے لے کر حسن ناصر تک۔ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں۔ قبل مسیح زمانہ سے زمین پر ہل چلاتا آیا ہوں۔ سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے ہو کر گندم بونے کی تیاری کرتا ہوں۔ شدید گرمیوں میں گندم کے خوشوں کو درانتی سے کاٹتا آیا ہوں۔ میرے بھائی بندوں کی زیادہ تعداد اُس زمین پر جس پر وہ صدیوں سے کاشت کرتے چلے آئے ہیں۔ کوئی مالکانہ حقوق حاصل نہیں۔ میرے اوپر سرداروں‘ نوابوں‘ جاگیرداروں اور وڈیروں نے ہزاروں سال سے حکومت کی ہے۔ سنا ہے کہ ان کے اوپر حکمرانوں کی ایک اور سطح بھی ہوتی ہے جو بادشاہ یا سلطان یا گورنر جنرل یا جرنیل یا صدر مملکت کہلاتے ہیں۔ میرے لئے تو ان دونوں میںکوئی فرق نہیں۔ مجھے تو وہ ایک دوسرے کے شریک کار ساتھی‘ حلیف اورPartner نظر آتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے۔ جب مجھے چند سالوں کے وقفہ کے بعد ووٹ دینے کا حق ملا۔ میں نے کسی پڑھے لکھے شخص سے پوچھا کہ میں دوسرے کے کہنے پر پرچی پر کسی شخص کے نام کے آگے نشان لگاتا ہوں تو اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ میں یہ نشان لگا کر فیصلہ کرتا ہوں کہ میرے اوپر حکمرانی کون کرے گا؟ یہ نشان لگا لگا کر میری کھردری اور محنت آشنا انگلیاں تھک گئی ہیں مگر میں آج تک کسی ایک بھی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دے سکا جسے میں اپنا نمائندہ سمجھتا ہوں اور اُسے اوپر حکمرانی کا حق دیتا ہوں۔ میرے گائوں میں سکول کے ماسٹرصاحب نے میرے بچے کو اس ملک کی تاریخ پڑھاتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک زمانہ میں ہندوستان پر ایک ایسے خاندان نے بطور بادشاہ حکومت کی جو خاندانِ غلاماں کہلاتا تھا۔ میں ہر وقت سوچتا رہتا ہوں کہ میرا تعلق بھی خاندانِ غلاماں سے ہے‘ مگر مجھے تو تخت پر بیٹھنے کا کبھی کوئی موقع نہ ملا اور نہ ملتا نظر آتا ہے۔ میرا بیٹا ہائی سکول گیا تو اُسے اُردو کی جو کتاب پڑھنے کیلئے دی گئی۔ ایک دن (جب سکول میں چھٹی تھی) میرے بیٹے نے مجھے پاس بٹھا کر اقبال کی کئی نظمیں پڑھ کر سنائیں۔ جو مجھے بڑی اچھی لگیں۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ :
ہیںتلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
اقبال ایک شہری ہونے کے باوجودیقینا خوشحال شخض تھا۔ نہ معلوم اُسے میرے بُرے حالات کے بارے میں کس طرح پتا چل گیا؟ ابھی میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ میرے کانوں میں میرے بیٹے کی پُر جوش آواز آئی:
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بالکل سمجھ نہ آیا۔ میرے بیٹے نے میری حالت پر رحم کھاتے ہوئے۔ مجھے آرام سے سمجھایا کہ جمہور کا مطلب ہے عام لوگ (جس کا مطلب ہے میری طرح کے لوگ) اور سلطانی کا مطلب ہے حکمرانی یعنی حکم چلانا۔ میرے جیسے عام لوگوں کو تھانیدار اور پٹواری اور بڑے زمیندار سے بچانا۔ میرے کھیت کے لیے پانی‘ کھاد اور بیج میری ضرورت کے مطابق میرے گھر کی دہلیز تک پہنچانا۔ بچوں کو تعلیم اور علاج کی سہولت مہیا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میرے بیٹے نے جب مجھے شعر کا دوسرا حصہ سنایا تو وہ بالکل میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ مجھے تو اُردو نہیں آتی۔ فارسی کس طرح آئے؟ سمجھ تو نہیں آیا مگر دل کہتا تھا کہ جو بات کہی گئی وہ سولہ آنے کھری تھی۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے وہ شعر کئی بار پڑھ کر سنائے۔ وہ تنگ آکر پوچھنے لگا: بابا مطلب کا آپ کو پتا نہیں تو آپ یہ سن کر اتنے خوش کیوں ہو رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ جب پاکستان بنا تھا تو قائداعظم کی انگریزی تقریر سن کر میں اونچی آواز سے ہزاروں لوگوں کی طرح‘ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا تھا اور گھر آ کر اماں کو بتاتا تھا کہ میرا جوفرض تھا وہ میں نے ادا کر دیا۔ وہ بھی خوش ہو جاتی تھی۔
میں نے اپنے بچپن میں (جو اب بڑی پُرانی بات لگتی ہے) اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ وہ اور اُن کے ساتھ گائوں میں رہنے والے سب لوگ کتنے غریب تھے۔ پھٹے پرانے کپڑے‘ ٹوٹے ہوئے دیسی جوتے‘ خستہ حال مکان۔ میرے بزرگ کہتے تھے کہ اُنہوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہی سنا تھا۔ اسی سے صاف پتا چلتا ہے کہ میری طرح کے جو لوگ‘ بد نصیب لوگ چاہے کھیتوں میں کاشتکاری کریں یا گائوں چھوڑ کر شہر چلے جائیں اور وہاں بے حد گندی کچی بستیوں میں رہ کر کارخانوں میں مزدوری کریں یا کوئی بھی ایسا کام جس میں اپنے ہاتھوں سے نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا (جو شہروں میں میرے مقابلہ میں زیادہ آرام سے رہتے ہیں) رزق پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ غریب رہتے ہیں۔ اُن کا مذہب چاہے کوئی بھی ہو۔ چاہے وہ کوئی زبان بولتے ہوں۔ اگر مزدور یا میری طرح کاشتکار ہے تو ضرور غریب رہے گا۔ اپنے والدین اور والدین کے والدین کی طرح۔ یہی مقدر اُس کی اولاد‘ پوتوں اور پڑپوتوں کا ہے۔ پرانی بات ہے کہ میرے باپ (جسے ہم چاچاکہتے تھے اور ماں کو بے بے ) کی فصل اچھی قیمت پر بک گئی تو اُس نے میرے اور میرے بہن بھائیوں کے اصرار پر ایک چھوٹا سا ریڈیو خریدا۔ اُس پر چوہدری نظام الدین شام کو دیہاتی پروگرام پیش کرتے تھے۔ وہ ایسی زبان میں تھا جسے ہم سب اچھی طرح سمجھتے تھے چونکہ ہم گھر میں‘گائوں میں‘ سکول میں وہی زبان بولتے تھے۔ہم اپنے ماں باپ سے اس زبان میں بات چیت کرتے تھے۔ افسوس کہ اب نہ نظام الدین رہے اور نہ اُن کا پروگرام جو میری ماں بولی میں ریڈیو پر سنایا جاتا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں