کیا میں نے کیا ہے؟…(2)

سنی سنائی بات ہے کہ ہمارے ملک میں لاکھوں مربع زمین ویران پڑی ہے۔ میں سوچتا ہوںکہ ہماری سرکار کو اسے غیر آباد رکھنے میں کیا فائدہ ہے؟ میری طرح کے بہت سے لوگ ہیں (افسوس کہ میں اُن کی گنتی نہیں کر سکتا) جو کاشتکار ہیں مگر اُن کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں۔ اگر وہ میرے جیسے کسانوں کو دے دی جائے تو ہم محنت کر کے اسے آباد کرلیں گے۔ اسے ہموار کریں گے‘ پھر اس پر ہل چلائیں گے‘ بیج بوئیں گے‘ فصل تیار ہو جائے گی تو اُسے منڈی لے جائیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اور میری طرح کے دوسرے کاشتکار اپنی آمدنی پر حکومت کو مالیہ بھی خوشی سے دیں گے۔ اگر میں دکاندار ہوتا تو حکومت کو ایک روپیہ بطور ٹیکس نہ دینے کی قسم پر پکا رہتا۔ میں ایک سیدھا سادہ کسان ہوں۔ زمین پر ہل چلانے والا کاشتکار۔ میں مالیہ دینے میں ڈنڈی مارنے کا طریقہ نہیں جانتا جو یقینا ایک اچھی بات ہے۔ ان دنوں میرے طرح آپ کو بھی لکھی ہوئی اچھی باتیں سننے کا زیادہ موقع نہیں ملتا۔ اس لیے آپ ایک اچھی بات (چاہے وہ کتنی چھوٹی ہو) کو گزارے موافق سمجھ کر خوش ہو جائیں گے اور آپ کو خوش دیکھ کر میرا دل بھی ویرانی سے نکل کر سرسبز باغ بن جائے گا۔ آپ خوش ہوں گے اور میں بھی‘ تو ہمیں رزق دینے والا اور ہمیں بنانے والا رب ہم دونوں سے خوش ہو جائے گا۔ یہ ہوگی نا کمال کی بات! چونکہ جب میں اپنے گائوں کے ڈیرے (ملاقات کی جگہ) میں شام کو دوسرے کسانوں کے ساتھ بیٹھ کر (چارپائی نہ ملے تو ہم زمین پر بیٹھ جاتے ہیں) حقہ پیتا ہوں تو وہ مجھے بڑے شہروں میں بڑے لوگوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس سے میرے دل میں یہ ڈر پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آپس میں لڑائیاں دیکھ کر ہمارا رب ہم سے ناراض ہو جائے۔
میری دکھ بھری داستان کی پہلی اور دوسری قسط کی اشاعت میں جو ایک ہفتہ کا وقفہ آیا اُس میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میرے بیٹے نے اقبال کے کلام کا مجموعہ پڑھتے ہوئے وہ نظم پڑی جس کا عنوان تھا۔ ''الارض للہ‘‘۔ اُسے اُس کے اُستاد نے بتایا کہ اقبال نے یہ عنوان قرآن پاک کی ایک آیت سے لیا‘ جس کا معنی ہے کہ ساری زمین خدا کی ہے۔ یعنی خدا کے بندوں کی ہے۔ بندے بھی وہ جو وکیل یا ڈاکٹر یا استاد یا سپاہی نہ ہوں بلکہ کاشتکار ہوں۔ ہے نا کمال کی بات۔ میرے ملک میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ملک کے نام کے ساتھ بھی اسلامی لکھا جاتا ہے مگر جو بات بالکل صاف الفاظ میں قرآن پاک میں لکھی ہوئی ہے وہ یہاں کوئی نہیں مانتا۔ کوئی نہیں جانتا۔ ایک بھی سیاسی یا مذہبی جماعت قرآنی حکم کو نہیں دہراتی‘ عمل تو دور کی بات ہے اور اگر آپ میری طرح عربی نہیں پڑھ سکتے (مجھے تو رہنے دیں‘ چونکہ میں کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا) وہ قرآن پاک کا اُردو ترجمہ پڑھ لیں۔ اقبال کی وہ نظم پڑھ لیں جس کا نام ہی قرآن پاک سے لیا گیا ہے اور مطلب ہے کہ زمین صرف خدا کی ہے۔ قائداعظم کی وہ تقریر پڑھ لیں جو اُنہوں نے فلاحی مملکت (اور وہ بھی اسلام کے اعلیٰ ترین اصولوں کی روشنی میں) بنانے کو قیام پاکستان کا جواز کہا تھا۔ میں جب زیادہ گلہ گزاریاں کروں تو میرے بچے مجھے ٹوکتے ہیں اور کہتے ہیں: بابا ابھی شکر کرو کہ ہم ملتان یا بہاول پور یا بلوچستان یا سندھ (اور وہ بھی تھر کے صحرا میں) میں پیدا نہیں ہوئے۔ نہ ہم بلوچ سرداروں کے غلام ہیں اور نہ ہاریوں کی طرح سندھی وڈیروں کے۔ شمالی پنجاب کا کسان پاکستان کے ہرحصے میں زمین کاشت کرنے والے کسان سے زیادہ خوش اور خوشحال ہے۔ میری بیوی (جو میرے اوپر لاٹھی چارج کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی) بھی اپنے بچوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے لقمہ دیتی ہے کہ اُن کا ابا تو ہمیشہ ناشکری کرتا رہتا ہے جو ایک گناہ ہے اور اس طرح وہ اپنے اوپر جنت کے دروازے بند کرتا رہتا ہے۔ میں نمازِ جمعہ اور عید کی دو نمازیں مسجد جا کر پڑھتا ہوں تاکہ اپنی ناشکری کے گناہ کی معافی مانگ سکوں۔ مولوی صاحب کی جو بات مجھے اُن کے خطبہ میں سب سے اچھی لگتی ہے کہ وہ مجھے اُمید دلاتے ہیں کہ میں مرنے کے بعد جنت میں جائوں گا۔ میرے کچھ رشتہ داروں نے جب شہری لوگوں کو دیکھا تو وہ شہر میں کارخانوں میں مزدوری کرنے چلے گئے۔ جب عید‘ تہوار پر گائوں واپس آتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اُن کا وہاں کتنا برُا حال ہوا؟ آمدنی کا شتکاری سے زیادہ مگر اخراجات بھی زیادہ۔ دوسرا بڑا نقصان کہ وہاں نہ جان نہ پہچان۔ ایک شخص بتا رہا تھا کہ کارخانوں میں جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ ہر سال ایک دو کارخانوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ فیکٹریوں میں آگ بجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تو آگ پر پانی پھینکنے والے ٹرک کے آنے تک بہت سے مزدور جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک رشتہ دار کا کارخانہ بند ہو گیا تو (تواُس کے مالک نے بنگالیوں کے ملک میں جا کر ایک فیکٹری بند کر کے وہاں دو بنا لیں) میرے گائوں کا ایک اور شخص ایک دن ٹرین کا سفر کر کے بلوچوں کے علاقہ میں جا پہنچا تاکہ زمین سے کوئلہ نکالنے والی کان میں کام کر سکے۔ اُس کا پہلا سال تو اچھا گزرا‘ وہ اپنے بال بچوں کو گزارے کے لیے پیسے بھیجتا رہا۔ ایک بار پیسے آنے بند ہو گئے تو اُس کے والدین بڑے فکر مند ہو گئے۔ اُس کا بوڑھا باپ اِدھر اُدھر سے ریل کے کرایے کی رقم مانگ کر بڑی مشکل سے وہاں جا پہنچا۔ جہاں اُس کا بیٹا کان میں کام کرتا تھا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ساری جگہ ویران ہے۔ پتا چلا کہ کوئلے کی کان میں آگ لگ گئی اور اُس میں کام کرنے والے جل کر خود کوئلہ بن گئے۔ وہ واپس آیا تو میرے گائوں کے لوگ اس کے پاس گئے تاکہ اُس کے مرحوم بیٹے کی مغفرت کی دعا مانگ سکیں۔ یہ بری خبر سن کر وہ نوجوان جو زیادہ کمائی کے شوق میں دور دراز جانا چاہتے تھے‘ گائوں چھوڑ کر یہاں سے بھاگ جانے کے ارادے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ حادثے میں مر جانے والے کی بوڑھی ماں مجھ سے بار بار پوچھتی تھی کہ میرے بیٹے کو اگلے جہان جانے (اور ہماری زندگی کو دوزخ بنانے ) کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ اگر وہ مرنے کے بعد جنت نہ گئی تو وہ اپنے بیٹے سے کس طرح ملے گی؟ اللہ سائیں میرے بیٹے کو جنت میں رکھنے کے بجائے میرے پاس واپس کیوں نہیں بھیج دیتا تاکہ میں اُسے اپنے ہاتھوں سے روٹی کھلائوں جس طرح اُس کے بچپن میں کرتی تھی۔ مرحوم کی والدہ کان میں حادثے کی ذمہ دار کان کے مالک کو نہیں بلکہ اپنی زار و قطاررونے والی بہو کو سمجھتی تھی کہ وہ اتنی منحوس ہے کہ جوان بیٹے کو کھا گئی مگر میرے جیسا اَن پڑھ بھی یہ جانتا تھا کہ اُسے اپنے بہو کا صدمے سے نڈھال دل ایک ناجائز بات کر کے زیادہ دکھانا نہیں چاہئے مگر زیادہ عورتیں (خصوصاً بوڑھی) مرحوم کی ماں سے اتفاق کرتی تھیں۔ ماتمی گھر میں وہ تمام عورتیں (بشمول میری بیوی) بڑے فاتحانہ انداز میں مُسکرا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھیں۔ وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ دیکھا کہ ہم کتنی خوش نصیب ہیں کہ ہمارا سہاگ ابھی تک سلامت ہے اور میں دل ہی دل میں یہ سوچتا رہا کہ وہ مزدور کتنے خوش قسمت ہیں کہ مر گئے اور زندگی بھر کے عذاب سے آزاد ہو گئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں