کیا میں نے کیا ہے؟…(3)

آپ کو شاید اعتبار نہ آئے مگر مجھے کل شام ایک بائو نے بتایا کہ جو شہر میں دفتر میں کام کرتا ہے‘ کرسی پر بیٹھتا ہے اور اپنے سارے کاغذ سامنے رکھی ہوئی میز پر رکھتا ہے اور ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو سرکار سے تنخواہ لیتا ہے۔ یہ بائو عید کی چھٹیوں میں دو دن کیلئے اپنے باپ دادا کے گائوں آیا تو حقہ پینے شام کو ہمارے ساتھ آبیٹھا۔ ہمارے پاس ایک ٹُوٹی ہوئی چارپائی تھی۔ ہم نے اپنے مہمان کو اُس کے اُوپر بٹھایا اور اُس کی باتیں غور سے سننے لگے۔ وہ بار بار خدا کا شکر ادا کرتا تھا کہ اُس نے اُسے سکول میں پڑھانے والے منشی صاحب کے گھر پیدا کیا جنہوں نے اُسے 14 جماعت تک پڑھوایا اور بائو بنا دیا۔ بائو کو میری طرح کے اَن پڑھ کسانوں سے بڑی ہمدردی تھی۔ بائو نے ہمیں ایک بڑی اچھی صلاح دی کہ اگر ہم لاہور یا اسلام آبادوالی اسمبلی میں نہیں جا سکتے تو ہم گائوں کی پنجایت کے چنائو میں دلچسپی لے کر اُس میں اپنے جیسا ایک کسان بلکہ زیادہ سے زیادہ کسان اور مزارع اور کمی کو اپنا ووٹ دے کرکامیاب کیوں نہیں بناتے؟ بائو پنچایت کیلئے کونسل جیسا انگریزی کا کوئی مشکل لفظ بولتا تھا جو مجھے سجھ نہیں آیا اگر سمجھ نہیں آئی تو یہ خط لکھوانے والے کو کیا بتائوں؟ میں نہ بھی لکھوں تو آپ جیسا سیانا آدمی سمجھ جائے گا کہ وہ کون سا انگریزی لفظ ہے جو گائوں کی پنچایت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ گورے تو ہمارے وطن سے چلے گئے مگر اتنی جلدی میں گئے کہ اپنی بولی کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکے۔ وہ پیچھے رہ گئی۔ جو میرے جیسے سادہ لوگوں کیلئے مصیبت کا باعث بنتی ہے۔ بائو بتاتا تھا کہ شہر کے لوگ بھی گوروں کی بولی نہیں جانتے ‘وہ بولتے تو اُردو ہیں مگر دوسرے لوگوں پر رعب ڈالنے کے لئے اُس میں انگریزی کے لفظ اس طرح ملا دیتے ہیں جس طرح ہم گڑ بناتے وقت اُس میں گرِی (پستہ بادام) ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ زیادہ مزیدار بن جائے۔ شہر میں رہنے والے نہ گڑ بنا سکتے ہیں اور نہ کھا سکتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے یہ شک پیدا ہو کہ وہ ''پینڈو‘‘ ہیں۔ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ میرا جو دوست ہزاروں میل دور سمندر پار ولایت میں رہتا ہے وہ مجھے بتا کر گیا کہ اُسے ولایت میں پڑھاتے وقت یا پھر مقدمہ لڑتے وقت جب یاد آجاتا ہے کہ وہ بھی ایک پینڈو ہے (آدھا سیالکوٹ میں تلونڈی عنایت خان کا اور آدھا ضلع سرگودھا چک 47 شمال کا) تو اُس کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے اور جب بھی وہ اپنے وطن آئے تو یہاں سے میوے والا گڑ خاص طو رپر ساتھ لے جاتا ہے جو وہ اور اُس کی بیوی بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
میرے دل میں کرنے والی ہزاروں باتیں ہیں مگر یہ خط لکھنے والے تابعدار بیٹے نے یہ گستاخی کی ہے کہ اس نے زیادہ لمبا خط لکھنے سے انکار کر دیا ہے‘ میں نے کہا :دعا سلام لکھو اور پوچھو کہ اب ربّ ہمیں کب ملائے گا؟ میرے بیٹے نے اجازت لی کہ اُسے لاہور میں سڑکوں پر رہنے والے اور رات کو سونے والے ایک شاعر (ساغر صدیقی) کے شعر کا ایک حصہ یاد آگیا۔ کیا وہ اسے میری طرف سے لکھ سکتا ہے؟ اُس نے لکھ کر مجھے سنایا ۔ وہ یہ تھا: جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔
میرے بیٹے نے کہیں یہ بات پڑھ کر مجھے بتائی تو میں حیران رہ گیا اور وہ یہ خبر تھی کہ تقریباً سو سال پہلے پنجاب کے ہر گائوں میں ایک آواز گونجی '' پگڑی سنبھال جٹا‘‘۔ اب آپ حق انصاف کی بات کریں کہ میرے جیسا غریب شخص اپنی پگڑی کو سنبھالے تو کس طرح؟ تھانہ‘ پٹوار‘ بڑا زمیندار اور میرے امیر رشتہ دار‘ یہ چاروں کبھی اکیلے اور کبھی مل کر میری پگ کو زمین پر گرانے اور مجھے ذلیل و خوار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ آج سے نہیں صدیوں سے۔ سرحد کی دوسری طرف بھی جو لوگ کاشتکار ہیں وہ بھی جاٹ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سکھ ہیں مگر اس سے زیادہ فرق یہ ہے کہ اُن کی مالی حالت میرے جیسے کسانوں اور مزارعوں سے بہت بہتر ہے۔ اُن کاآپس میں اتحاد بھی بہت ہے۔ وہ دہلی کی سرکار سے کسی بات پر لڑ پڑے تو اپنے ٹریکٹر چلا کر دہلی پہنچ گئے اور وہاں ایک سال بیٹھے رہے اور اُس وقت تک گھر واپس نہ آئے جب تک سرکار سے اپنی بات نہ منوا لی۔ سکھ برے لوگ ہوتے تو وہ بابانانک کو اپنا سب سے بڑا گرو نہ مانتے اور امرتسر میں سکھوںکے سب سے بڑے گردوارہ کی پہلی اینٹ حضرت میاں میر اپنے ہاتھوں سے نہ رکھتے۔میرے ملک میں لاکھوں کروڑوں لوگ تو آج کا چھپنے والا اخبار بھی نہیں پڑھ سکتے مگر کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میرے بیٹے کو ایک بہت پرانا اخبار مل گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ انگریزوں نے پنجاب کے دیہات میں رہنے والوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے دیہات سُدھار کا محکمہ بنایا۔ انگریزوں کا بادشاہ (میرے چاچا یعنی باپ کی طرح) بڑی کڑوی طبیعت کا تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا تھا اور اپنی فوج میں سپاہی پنجاب سے بھرتی کرتا تھا ۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو سمجھایا کہ وہ بھی فوج میں سپاہی بن جائیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پاس ایٹم سے چلنے والے بم ہیں‘وہ اتنی تباہی کر سکتے ہیں کہ اب لڑائی کے بارے میں سوچنے والے کو پاگل کہتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ 75 سالوں میں ہمارے ملک سے اپنے پڑوسی کی صرف دو لڑائیاں ہوئیں اور وہ بھی صرف ایک مہینہ۔ آخری جنگ 1971 ء میں ہوئی۔51 سال پہلے۔ میں نے اپنے بیٹوں کو پیار سے یہ سب باتیں بتائیں مگر وہ دونوں نہ مانے۔ ایک گائوں میں زمیندار کا ٹریکٹر چلاتا ہے اور دوسرا اُس کی کار۔ میں اُس کی زمین میں ہل چلاتا ہوں اور میری بیوی اُس کے گھر میں کھانا پکاتی ہے اور برتن (جو میرے گھر کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں) دھوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر میں نہ فکر ہے نہ فاقہ۔ منت سماجت کر کے میں نے اپنے بیٹے سے لندن میں اپنے ایک دوست (جو اتفاقاً میرے گائوں آیا مجھے اچھی طرح ملا اور جاتے ہوئے مجھے اپنا ڈاک کا پتا دے گیا) کو ایک اور خط بھی لکھوایا جو آپ اب پڑھ رہے ہیں۔ میرے ولایتی دوست نے مجھ سے دو سوال کیے۔ کیا میرے گھر چرخہ ہے جس پر میری بیوی سوت کاتتی ہے اور کیا میرے پاس گائے یا بھینس ہے؟ جس کا میں اور میرے بال بچے خالص دودھ پیتے ہیں؟افسوس کہ دونوں سوالوں کا جواب تھا ''نہیں‘‘ اب نہ میں کھدر کے کپڑے پہنتا ہوں اور نہ ہی میرے گھرمیں کوئی گائے یا بھینس ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب اس ملک میں گوروں کی حکومت تھی تو اُن کا ایک بڑا افسر ہمیشہ کھدّر کے کپڑے پہنتا تھا۔ نام تھامسعود اس لیے وہ کھدرپوش کے نام سے مشہور ہوا۔ سندھ میں کسانوں کے لیڈر تھے حیدر بخش جتوئی وہ بھی کھدر پہنتے تھے۔ بلوچستان میں عبدالصمد خان اچکزئی اور پختونخوا میں عبدالغفار خان کی طرح ۔ اچھا ہوا کہ وہ اب چاروں اس دنیا میں نہیں رہے ورنہ وہ ہمیں (میری طرح کے کسانوں کو) دیکھ کر دکھی ہوتے۔
عام طور پر میرا بیٹا مجھ سے جب کوئی فرمائش کرتا ہے تو وہ کبھی میرے گھٹنے کو ہاتھ لگاتا ہے اور کبھی میری ٹھوڑی کو او رمیں اُس کی بات مان جاتاہوں (چاہے اُس کی ماں مجھ سے بعد میں لڑے کہ میں نے اپنے بیٹے کی غلط بات کیوں مان لی)۔آج میں نے وہی طریقہ اپنے بیٹے پر آزمایا اور اُس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر کہا کہ ابھی کچھ باتیں میرے دل میں رہ گئی ہیں۔ مہربانی کر کے وہ بھی لکھو۔ میرے بیٹے نے کہا کہ یہ خط پہلے ہی بہت لمبا ہو گیا ہے۔ اسے یہاں بند کریں اور باقی باتیں اگلے خط میں کریں اور یہ وہ باتیں ہیں جوآپ اگلے منگل کو پڑھیں گے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں