کیا میں نے کیا ہے؟…(4)

ایک دن مجھے بیل خریدنے کیلئے قریبی گائوں جانا پڑا۔ وہاں کے لوگ بتانے لگے کہ نہ صرف ہمارا مال مویشی اول درجہ ہے بلکہ اس گائوں نے پاکستان کا سب سے بڑا شاعر بھی پیدا کیا ہے۔ جس کا نام فیض ہے۔ میں بیل خریدکر گھر واپس آیا تو میں نے ایک بیٹے کے ذمہ لگایا کہ جب شہر جائے تو فیض کی وہ کتاب خرید لینا جو پنجابی زبان میں ہوتاکہ میں اُسے سمجھ سکوں۔ اگلے دن وہ کتاب تو لے آیا۔ جو تھوڑی سی اُردو مگر زیادہ فارسی میں تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ کتاب کے آخر میں چند نظمیں میری زبان میں بھی تھیں۔ تو وہ میرے بیٹے نے مجھے پڑھ کر سنائیں تو دل خوش ہوگیا۔ فیض کو اللہ تبارک و تعالیٰ جنت میں جگہ دے۔ اُس نے وہی لکھا جو میرے اور میری طرح کے تمام کسانوں‘ کاشتکاروں کے دل میں ہے۔ ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔
بیل کو ہم پنجابی میں ڈھگاکہتے ہیں۔ سُنا ہے کہ اُردو بولنے والے پنجاب کے لوگوں کو ڈھگا کہتے ہیں اور پنجاب کے لوگ انہیں تلیر کہتے ہیں۔ مجھے شہرسے عید کی چھٹیوں میں گائوں آنے والے بائو نے بتایا تو میں بہت حیران ہوا کہ کراچی میں جو لوگ75 سال پہلے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور اب تو ان کے پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے‘ نواسیاں بھی جوان ہو گئی ہیں مگر وہ ابھی تک اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں۔وہ میری طرح تو نہیں کہ سکول کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ اُنہوں نے صرف دس بارہ نہیں بلکہ چودہ اور سولہ جماعتیں پڑھی ہیں۔ اگر وہ بھی اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں اورضد کرتے ہیں کہ اُنہیں اس نام سے بلایا یا پکارا جائے تو پھر میرے جیسے سیدھے سادھے جٹ کی کیا مجال کہ میں اُن پر نکتہ چینی کروں یا وکیلوں کی طرح جرح کروں کہ آپ اپنے کو اتنے سال گزر جانے کے بعد مہاجر کیوں کہتے ہیں؟ آپ سندھ میں رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سندھی ہیں۔ پرُانے نہیں مگر نئے سندھی تو ہیں۔ نکتہ چینی تو ویسے بھی ہمارے دیہی علاقوں میں پسند نہیںکی جاتی۔ اگر کوئی شخص خاص طور پر جب اُس کی عمر چھوٹی ہو بار بار سوال کرے تو اُس کے بزرگ اسے جھڑک کر چپ کرا دیتے ہیں کہ نکتہ چینی نہ کرو اور یہ سنتے ہی نکتہ چینی کرنے والا اپنے کان لپیٹ لیتا ہے اور منہ کو اتنی سخت گوند لگا کر بند کر دیتا ہے کہ لگتا ہے کہ اس کا منہ صرف کھانے کیلئے کھلے گا‘ باقی بند رہے گا۔
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اچھے کام کرنے والوں کو اگلے جہان انعام ملے گا اور برُے کام کرنے والوں کو سزا ملے گی۔ جب سے میںنے اُن کا یہ وعظ سنا ہے میں ہر وقت ہل چلاتے وقت زمین کو ہموار کرنے کیلئے اُس پر سہاگہ (لکڑی کا بھاری تختہ) پھیرتے وقت‘ فصل پک کر تیار ہو جائے تو ''واڈھی‘‘ جو ہم فصل کاٹنے کو کہتے ہیں‘ کرتے وقت یعنی ہر وقت سوچتا رہتا ہوں کہ میں نے کبھی کوئی اچھا کام کیا ہے جس کا مجھے اگلے جہان انعام ملنا ہے تو جواب ملتا ہے کوئی نہیں۔ کوئی ایک بھی نہیں۔ یہ سوچ کر مجھے سردیوں میں بھی پسینہ آجاتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ کوئی برُا کام کیا ہے جس کی مجھے اگلے جہان میں سزا ملے گی۔ اس کا بھی وہی جواب ہے جو مجھے میرا دل پہلے دے چکا ہے۔ یعنی ایک بھی برا کام نہیں کیا۔ آپ کو میں اپنا دوست سمجھتا ہوں۔ آپ سے کیا پردہ‘ دوست سے کوئی بات چھپانا اور پھر دعویٰ دوستی کا کرنا‘یہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ولایتی گھی میں پکا ہوا کھانا کھاتے ہیں۔ آپ کو شاید میری قسمت کے اچھا ہونے کا پتا نہیں اس لئے آپ نہیں جانتے کہ مجھے زمیندار کے گھر سے (جہاں لویرا ہے یعنی دودھ دینے والے جانور) ہر روز تازہ مکھن (جس کا پیڑہ ہر سال چھوٹا ہوتا جاتا ہے) اور لسی مل جاتی ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ اگر میں کسی ضروری کام کیلئے شہر گیا اور وہاں مجھے دو نمبر گھی والا کھانا کھانا پڑا تو میں بیمار ہو کر وہیں گر پڑوں گا اور میرے بھائی میرے بیٹے اور میرے بھائیوں کے بیٹے مجھے چار پائی پر ڈال کر ہسپتال لے جائیں گے اور کچھ دنوں بعد و ہی چارپائی قبرستان کی طرف جاتی نظر آئے گی۔ میں نے ایک دن اپنے گائوں کی مسجد میں امامت کرنے والے مولوی صاحب کو فارغ بیٹھے دیکھا تو میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھ لیا کہ یہ بتائیں جناب میری طرح کے غریب مسکین اور ملتانی زبان میں نمانے شخص کا اگلے جہان میںکیا بنے گا؟ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ میں ؟ میں تو صرف کھیتوںمیں محنت مزدوری کرتا ہوں۔ چارہ ''داتری‘‘ (درانتی) سے کاٹتا ہوں اور پھر سر پر اُٹھا کرلاتا ہوں اور ڈھگوں کی جوڑی کو ڈالتا ہوں۔ کئی بار بری باتیں دل میں آتی ہیں مگر میں لاحول ولا قوۃ پڑھ کر اُنہیں اتنی جلدی اور اتنی ہی سختی سے اپنے دل سے نکال دیتا ہوں جس طرح میرے کھیت میں کسی اور شخص کا جانور میری اتنی محنت مشقت سے اُگائی ہوئی فصل میں منہ مارنے اور اسے اُجاڑنے گھس آئے تو اسے نکالتا ہوں۔
مولوی صاحب کو یہ راز کی بات بتاتے ہوئے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہ سُن کر میرے ہاتھ میں دوزخ کی پرچی دے دیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُنہوں نے مجھے تسلی دی کہ اگر میں مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا رہوں اور توبہ استغفار کرتا رہوں اور اپنے گناہوں کی سچے دل سے معافی مانگ لوں تو اللہ سائیں مجھے معاف کر دے گا۔ یہ سن کر میں چل پڑا۔ تھوڑی دیر ہل چلا کر رُک گیا تو میری بیوی نے ساری زندگی میری اور میرے بچوں کی اتنی خدمت کی ہے۔ اُس کا اگلے جہان کیا بنے گا؟ میں واپس چل پڑا مگر افسوس کہ میری واپسی تک مولوی صاحب جا چکے تھے اور مجھے میرے سب سے ضروری سوال کا جواب نہ ملا۔ پھر خیال آیا کہ مولوی صاحب کو چھوڑوں۔ میں اپنے رب سے خود کیوں بات نہیں کر سکتا؟ پکا فیصلہ کیا ہے کہ اس جمعہ کو نماز پڑھنے جائوںتو وضو کر کے کسی صاف جگہ نماز کی نیت کرلوں گا اور اپنی بیوی کو اپنے ساتھ جنت بھیجنے کیلئے دعا کروں گا۔ لاہور گیا تو داتا دربار جائوں گا۔ پاک پتن شریف گیا تو وہاں بھی مزار پر حاضری دوں گا۔ میرے پاس لاکھوں روپے ہوتے تو میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر مکہ شریف میں اللہ کے گھر جاتا۔ میں وہاں تو جا نہیں سکتااگر لاہور یا پاکپتن شریف ہی چلا جائوں تو یہی بڑی بات ہوگی۔ آپ کی مہربانی کہ آپ نے ایک سادہ ان پڑھ کسان کی اتنی باتیں پڑھ لیں۔ میرے بیٹے کی مہربانی جس نے میری اتنی باتوں کو لکھا اور پھر ڈاکخانہ جا کر ولایت کیلئے لفافہ پر مہنگے ٹکٹ لگائے مگر وہ بدمعاش یہ قسم کھا کر بھاگ گیا ہے کہ وہ آئندہ کبھی میرے قابو نہ آئے گا۔ بھاگ جانے سے پہلے اُس نے میری ایک بات مان لی اور وہ یہ تھی کہ یہ خط دو الفاظ پر ختم کیا جائے اور وہ تھے ''رب راکھا‘‘ اگر میں لکھ سکتا تو میں یہ دو الفاظ دس بار‘ سو بار‘ ہزار بار لکھتا۔ میں اپنے پیارے وطن کی سلامتی کیلئے جتنی بھی دعائیں مانگوں کم ہوں گی۔ مجھے تو صرف ایک ہی چھوٹی سے دعا آتی ہے اُسے دہراتا رہوں گا۔مجھے لگتا ہے کہ میں نے لندن میں رہنے والے ایک اچھے دوست (جو میری طرح بہت بوڑھا ہے) کے نام جو خط اپنے بیٹے سے لکھوایا وہ بہت لمبا ہو گیا۔ وہ پڑھتے اور پھر لکھتے تھک جائے گا۔ ڈرتا ہوں کہ آپ بھی پڑھتے پڑھتے تھک نہ جائیں۔ میں آپ سے (اپنے دوست کے ذریعہ) باتیں نہ کروں تو کس سے کروں؟ اپنے بیلوں سے؟ مگر وہ بھی میری طرح بے زبان ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں