کیا ہماری مت ماری گئی ہے؟…(1)

''مت‘‘ پنجابی کا لفظ ہے جس کا معنی ہے عقل و فہم‘ سُوجھ بوجھ۔ اگر خدانخواستہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت معطل یا مفلوج ہو جائے تو اہلِ پنجاب متاثرہ شخص سے اظہارِ ہمدردی کے بجائے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ سنگدلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ 28اپریل کو میرے اور آپ کے اخبار کے معاصر میں کہنہ مشق اور گرم و سرد چشیدہ صحافی کا وہ کالم شائع ہوا جس میں اُنہوں نے جنرل ایوب خان کے دستِ راست الطاف گوہر مرحوم کے ساتھ اپنی ایک گفتگو کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جب اُنہوں نے اپنے ممدوح سے پوچھا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے 1971ء میں پاکستان ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا تو آپ نے اس عمل کو روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ قومی اسمبلی کا اجلاس 23 مارچ کو (پہلے عام انتخابات کے ساتھ) ہونا طے پایا تھا تو اُسے غیرمعینہ مدت کے لیے کیوں ملتوی کر دیا گیا؟ عوامی لیگ کے (100فیصد جائز) چھ نکات مان کر ہم اُس طرح کی وفاقی مملکت قائم کرنے پر راضی کیوں نہ ہوئے جو امریکہ کی 50ریاستوں کو دو سو سال سے ایک مضبوط رسی سے باندھے ہوئے ہے؟ سیاسی اختلافات کا سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل ڈھونڈنے کے بجائے آپریشن (مطلب ہے اَن گنت اور زیادہ تر بے گناہوں کا قتلِ عام) کا مہلک راستہ کیوں اختیار کیا گیا؟ الطاف گوہر جیسے ذہین آدمی کا جواب تھا ''بدقسمتی سے ہماری مَت ماری گئی تھی۔ نہ ہمیں کچھ نظر آیا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت (جو وزارتِ اطلاعات کے ایک چھوٹے افسر کو سول سروس کی بلندی تک لے گئی) جاتی رہی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب (جو ذہانت میں الطاف گوہر سے بھی بڑھ کر تھے اور برسہا برس کابینہ کے ایک رکن رہ چکے تھے) نے اپنے اور اپنی نوازئیدہ سیاسی جماعت (پیپلز پارٹی) کے مخصوص سیاسی مفادات کو یحییٰ خان اور اُس کے قریب ترین مشیروں (جنرل پیرزادہ سرفہرست تھے) کے مقاصد سے ہم آہنگ پایا تو وہ ہمیں یہ خوش خبری سناتے ہوئے مشورہ دینے لگے کہ ہم پاکستان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کریں۔ پاکستان1971 ء کا منحوس سال ختم ہونے سے پہلے ٹوٹ گیا مگر ہم قائد ِعوام کے حکم پر عمل کرتے ہوئے 51 برسوں سے اپنے خدا کا بلاناغہ شکر ادا کرتے رہے ہیںکہ امریکی دھمکی کام آئی‘ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ بحیرہ عرب پہنچ گیا اور مسز گاندھی (اپنی افواج کے کمانڈر جنرل مانک شاہ کے پُراصرار مطالبے کے باوجود) مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کے مذموم ارادے سے باز رہیں۔ فاضل کالم نگار (میری اور آپ کی طرح)ہمارے موجودہ بحران‘ بے یقینی‘ افراتفری‘ تقسیم اور تفریق کی گہری لکیر (Polarisation)‘ چار سُواضطراب اور انتشار‘ معاشی دیوالیہ پن کے بڑھتے ہوئے خطرے اور بے سمتی سفر (Drifting Rudderless) پر خون کے آنسو روتے ہیں۔ میرے لیے ہر گز ممکن نہیں کہ میں اُن کی تحریر میں ایک لفظ کا بھی اضافہ یا ترمیم کر کے اسے بہتر بنائوں مگر چاہتا ہوں کہ میں اُن کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہوں کہ اُنہوں نے جو کچھ لکھا ہے‘ اُس کا ایک ایک لفظ ہر محبِ وطن اوردرد مند پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ میرے جس ہم وطن نے بھی پڑھا تو یہی سوچا کہ (بقول غالب) گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ الطاف گوہر نے جنرل ایوب خان کی سوانح عمری لکھی اور اُن کے بیٹے (ہمایوں گوہر) کو پرویز مشرف کی سوانح حیات کا پوشیدہ مصنف (Ghost Author) ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ الطاف گوہر پر زوال آیا تو وہ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بنے۔ بھٹو صاحب سے اپنی دیرینہ رقابت نے اُن سے اتنے غیر دوستانہ اداریے لکھوائے کہ بھٹو صاحب (جنہیں ناراض کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوتا تھا) نے اُنہیں سراسر غیر قانونی طور پر جیل میں قید کر دیا۔ الطاف گوہر کی دنیا تو کافی خراب ہوئی مگر اُن کی آخرت سنور گئی کہ اُنہوں نے قید و بند کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے مولانا مودودی کی لکھی ہوئی تفسیرِ قرآن پاک کے کچھ حصوں کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔ شومئی قسمت کہ موسم خزاں کی ایک ایسی تند و تیز ہوا چلی کہ وہ کالم نگار کو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں اور الطاف گوہر کو اسّی کی دہائی میں پاکستان سے زرد پتوں کی طرح اُڑا کر برطانیہ لے آئی۔ فرق یہ تھا (اور یہ کافی بڑا فرق تھا) کہ یہ کالم نگار بطور لیکچرر پاکستان میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ وہ برطانیہ میں بھی دن میں کالجوں میں علم سیاسیات پڑھا کر اور شام کو BBC ریڈیوپر اُردو میں خبریں سنا کر محنت مزدوری کرنے لگا۔ جناب الطاف گوہر پاکستان میں تو بامِ عروج پر تھے ہی‘ برطانیہ آئے تو یہاں پر بھی بام عروج پر پہنچے۔ لندن کے ٹریفالگر سکوائر (جو لاہور کے ریگل چوک‘ کراچی کے تلوار اور اسلام آباد کے ڈی چوک کے مترادف ہے) کے قریب Hay Market میں بلند و بالا NewZealand House کی آٹھویں منزل کے سارے دفاتر الطاف گوہر کے اُس ادارے کے تصرف میں تھے‘ جس کا نام تھاThird World Quartery (یہ ادارہ اُن کے نام سے ایک بلند معیاری سہ ماہی شائع کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے) صرف یہی نہیں‘ الطاف گوہر چوٹی کے انگریزی اخبار The Guardian میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ اُن کے صبح و شام بادشاہوں‘ صدورِ مملکت اور عالمی راہنمائوں کے ساتھ گزرتے تھے۔ الطاف گوہر کی دوستی ایک عالمی بینک (BCCI) کے سربراہ آغا حسن عابدی سے بھی تھی جس نے الطاف گوہر کی بھرپور مالی سرپرستی کی۔ الطاف گوہر نے عالمی سطح پر جھنڈے گاڑے اور (میرے ایک عزیز عمران کے قول کے مطابق) چھا گئے۔ الطاف صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ (ابھی اُن کی بیٹی اپنے وقت کے بڑے صحافی ارشاد احمد حقانی کے بیٹے ڈاکٹر نعمان کی بیوی نہ بنی تھی) Westminster Cotladerd کے پاس ایک عمدہ فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُسی شان و شوکت کے ساتھ جو پاکستان میں اُن کا طرئہ امتیاز تھا۔ یہ اُن کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے میرے پیارے دوست مظفر قادر (مرحوم) کے تعارف کا اتنا لحاظ کیا کہ نہ صرف اپنے دفتر بلکہ رہائش گاہ پر بھی بارہا بلایا۔ ایک شام محفل جمی ہوئی تھی تو میں نے ہمت کر کے اُن سے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں کئی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات (جو وجہ تنازع بنے) اُنہوں نے لکھے تھے یا اُن کی مشاورت سے لکھے گئے؟ یہ سوال سن کر میزبان کے چہرے پر سے ہمیشہ رہنے والے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ کچھ دیر کی ناگوار خاموشی کو اُن کی بیگم صاحبہ (خدا اُن کا بھلا کرے) نے موضوع بدل کرتوڑا تو مہمان نے سکھ کا سانس لیا۔ نہ میں نے 1971 ء کی تلخ یادوں کو دوبارہ کریدا اور نہ انہوں نے۔ یہ ادب کے خلاف تھا اور آداب کے بھی۔
مذکورہ بالا کالم پڑھ کر میں اپنی لائبریری کی طرف لپکا اور وہ کتاب ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب رہا جو 2009 ء میں لاہور کے ایک پبلشنگ ہاؤس نے شائع کی تھی۔ کتاب کا عنوان ہے ''لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘‘۔ یہ مجموعہ ہے اُن کالموں کا جو الطاف گوہر نے 1993 ء اور 1995 ء کے درمیان لکھے اور روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئے۔ کالموں کی کل تعداد 92 ہے۔ الطاف گوہر کا شمار ہمارے ملک کے اُن سیانے‘ وقت شناس اور موقع پرست لوگوں میں ہوتا ہے جو فرش سے عرش تک جانے کا فن جانتے ہیں۔ اُنہوں نے مبالغہ آرائی کی حد کر دی کہ اپنی تحریروں کو ''جنوں کی حکایت‘‘ کا گمراہ کن عنوان دیا۔ جن بہادر اور باضمیر لوگوں نے جنوں کی حکایت لکھی۔ اُن کے ہاتھ یقینا قلم ہوئے اور کبھی کبھار ہاتھوں کے ساتھ سَر بھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں