کیا ہماری مت ماری گئی ہے؟ …(2)

یہ کالم پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ مندرجہ بالا عنوان کے تحت پہلا کالم الطاف گوہر (جو صدر ایوب خان کا دماغ سمجھے جاتے تھے) کے وطنِ عزیز کے 1971ء میں دو حصوں میں تقسیم ہونے پر کیے جانے والے تبصرے کے موضوع پر لکھا گیا تھا۔ بات جہاں ختم ہوئی تھی‘ وہیں سے شروع کرتے ہیں۔
الطاف گوہر میں ذہانت‘ معاملہ فہمی‘ اتنے برس حکمران ٹولے میں شامل رہنے کی صلاحیت اور یقینا دوسری کئی خوبیاں ہوں گی مگر ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ نہ وہ مسعود کھدر پوش تھے (جو سرکاری عہدوں کے اعتبار سے الطاف گوہر سے کئی درجہ بلند تھے) کہ ہاری رپورٹ لکھتے۔ وہ کابینہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں پنجابی بولتے اور مرتے دم تک کھدر پہنتے رہے۔ وہ اختر حمید خان بھی نہ تھے جنہوں نے ICS سے مستعفی ہو کر اور فرش پر بیٹھ کر قفل بنانے کا ہنر سیکھا۔ کومیلہ (Cumilla) سے لے کر کورنگی تک وہ بستیاں آباد کیں جو عوام دوستی کی لازوال روشنی کے مینار ہیں۔ نہ وہ حیدر بخش جتوئی تھے اور نہ تاریک راہوں میں مارے جانے والے اُن عظیم لوگوں میں سے ایک جن کا نوحہ فیض صاحب نے لکھا:تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم ؍ دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے ؍ تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم ؍ نیم تاریک راہوں میں مارے گئے ۔
اقبال نے کہا تھا:
دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
اسی اقبالؔ کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا
وہ ایک مردِ تن آسان تھے جو تن آسانوں کے کام آئے۔
اس فہرست میں آپ سیاسی شعور سے عاری آمروں کو بھی شامل کر لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ الطاف گوہر جیسے شخص کی ذہانت کے کیسے کیسے نتائج برآمد ہوئے۔ الطاف گوہر کا یہ کہنا کہ اُن کی 1971ء میں مت ماری گئی تھی‘ درحقیقت اپنے اُوپر بہتان تراشی کے زمرے میں آتا ہے۔ میں نے اُنہیں بہت عرصہ دور سے دیکھا اور کچھ عرصہ بڑے قریب سے بھی۔ وہ ایسے لوگوں میں ہر گز شامل نہ تھے جن کی مت ماری جاتی ہے۔ مت تو دیوانوں کی (جو نہ مصلحت کوش ہوتے ہیں اور نہ موقع شناس) ماری جاتی ہے کہ وہ حسن ناصر ہوں یانذیر عباسی کی طرح عقوبت خانوں میں شہید ہو جاتے ہیں۔ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف مظاہرے کرنے والے طلبہ ہوتے ہیں جن کے لہو سے سڑکیں جگمگ جگمگ کرنے لگتی ہیں۔ وہ امریکہ کے بہادر جوڑے روزن برگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا میں قیامِ امن کی خاطر برقی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے اپنی اولاد کو بتاتے ہیں کہ اگر وہ دنیا میں دوبارہ آئے تو وہی کریں گے جو انہوں نے اس جنم میں کیا‘ پھر بھگت سنگھ کی طرح سزائے موت کو گانا گاتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔
وہ الطاف گوہر نہ حسرت موہانی تھے، نہ جمال الدین افغانی اور نہ عبیداللہ سندھی۔ البتہ لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی مت مارنے کی افسوسناک کارروائی میں جن لوگوں کا نمایاں اور ناقابلِ فراموش کردار ہے‘ اُنہوں نے اپنانام ان میں لکھوایا۔کمال کی بات یہ ہے کہ وہ برس ہا برس اقتدار کی تنی ہوئی رسی پر گرے بغیر اتنے آرام سے چلتے رہے جیسے اُنہوں نے ایک بار اس کالم نگار کے ساتھ لندن کے شہرہ آفاق Hyde Park میں بغیر بولے سیر کی تھی۔ دیانتداری اور مرحوم کے ساتھ ہمدردی (جس کا ہمارے ملک میں ہر مرحوم کو حق دار سمجھا جاتا ہے) کا تقاضا یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ اُن کا دماغ عوام دشمنوں کے کام آیا تو ان کا دل عوام دوستوں کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ وہ انسانی تاریخ میں پہلے اور آخری شخص تو نہ تھے جو بیک وقت شکار اور شکاری کے ہم رکاب رہے۔ ثبوت کے طور پر میں آپ کی توجہ اُن کی کتاب کے 5صفحات (240-244) کی طرف دلاتا ہوں۔ یہ اُن کا وہ کالم ہے جو ایک ناموراردو معاصر میں شائع ہوا ۔ عنوان تھا ''زبانِ سنگ یہ کہتی ہے وہ لٹو تو نہیں‘‘۔ موضوع تھے مرحوم پشتون رہنما جناب عبدالصمد اچکزئی صاحب جنہوں نے اپنے سیاسی نظریات کی سربلندی کی خاطر 32 برس قید و بند میں گزارے۔ تین عشروں سے زیادہ پر محیط اس قید کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ تھا انگریز کی قید اور دوسرا حصہ تھا انگریزوں سے آزادی حاصل کر لینے والے ملک کی قید۔ پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعدتک‘ عبدالصمد اچکزئی کو جیلوں میں کوئی بھی مقدمہ چلائے اور جرم بتائے بغیر سالہا سال قیدی بنا کر رکھے جانے میں کوئی فرق نہ پڑا۔ مجھے یہاں روسی ناول نگار اور مفکر ٹالسٹائی کا قول یاد آیا کہ اگر قیدیوں کو اپنا جیلر اپنے ووٹوں سے چننے کا اختیار دے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ آزاد ہو گئے ہیں۔
اچکزئی صاحب نے جب دیکھا کہ اُن کی قید مہینوں یا برسوں نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہے تو اُنہوں نے اپنی قید کے دوران قرآن پاک کا پشتو ترجمہ مکمل کیا۔ اور ایک پشتو لغت بھی مرتب کی۔ 1936ء میں وہ عارضی طور پر جیل سے رہا ہوئے تو اُنہوں نے اپنے ایک دوست کو لکھا ''میرا عقیدہ ہے اور قرآن کریم بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ دعا کا کائنات کے تغیر و تبدل میں بڑا دخل اور اثر ہے۔ میں نے اپنے آپ کو پورے طور پر اپنی قوم کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ میرے تمام افعال کی باز پرس کرسکتی ہے۔ میں اپنے مال کو اپنی مرضی سے اپنے لیے صَرف کرنے کا حق بھی محفوظ نہیں رکھتا‘‘۔ انگریز کے زمانے میں وہ حراست‘ نظر بندی اور جیل کو ثواب سمجھتے تھے‘ اس لیے کہ وہ انگریز کے خلاف جہاد کو فرض سمجھتے تھے‘ مگر قیامِ ِپاکستان کے بعد وہ کبھی نہ سمجھ پائے کہ آخر اُنہیں آزادی کی نعمت سے (اور وہ بھی انگریز سے آزاد ہو جانے والے ملک میں) محروم کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ 22 جولائی 1952ء کو اُنہوں نے ہری پور سنٹرل جیل سے ایجنٹ ٹو گورنر جنرل (جب بلوچستان کے پاس صوبائی درجہ نہ تھا تو وہ گورنر کی تعیناتی کی نعمت سے کس طرح فیض یاب ہوتا) میاں امین الدین کو خط لکھ کر پوچھا کہ حکومت نے اُنہیں کس جرم میں پانچ سال سے جیل میں رکھا ہوا ہے؟ اُنہوں نے لکھا ''غالباً آپ کو علم ہوگا کہ کسی نظر بند کو کم از کم یہ تو بتانا چاہیے کہ اُس کی نظر بندی کی وجہ کیا ہے۔ اُسے اتنا موقع تو ملنا چاہئے کہ وہ اپنے دفاع میں اپنا نقطہ نظر پیش کر سکے۔ اگر قانون محض الفاظ کا نام نہیں اور اُس کا کوئی مقصد اور منشا بھی ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے ان وجوہات سے مطلع کرے جن کی بنا پر حکومت بار بار اور متواتر مجھے آزادی سے محروم کرتی چلی آئی ہے اور امیروں کی طرح میں بھی ہائی کورٹ یا فیڈرل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہوں‘ مگر میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور حضرت یوسف علیہ السلام کی پیغمبرانہ سنت کی روشنی میں اپنے اوپر لگے الزامات کی پوری تحقیق ضروری سمجھتا ہوں تاکہ حکومت کی تسلی اور تشفی ہو سکے۔ میں اسے قانونی ہیرپھیر کے ذریعے رہائی حاصل کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر حکومت مجھ پر پاکستان کے دوسرے شہریوں اور بہی خواہوں کی طرح اعتماد کرنے کو تیار ہے تو بہتر ہے‘ ورنہ خیر!‘‘۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں