کیا ہماری مت ماری گئی ہے؟ …(3)

چھ ہزار میل دور سے یہ کالم نگار وطنِ عزیز کے بیشتر سیاست دانوں‘ ماسوائے جماعت اسلامی کے امیر‘ سراج الحق صاحب‘ گوادر کی 'حق دو تحریک‘ کے قائد مولانا ہدایت الرحمن اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ کو دیکھتا ہے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کا قومی خدمت کے میدان میں ریکارڈ اتنا خراب ہے کہ لگتا ہے جیسے یہ دو الفاظ تہمت بن چکے ہیں۔ وہ جس طرح کی نامعقول باتیں اور سراسر گمراہ کن بیانات کروڑوں افراد کو صبح و شام بلا توقف سُنا رہے ہیں اور ہمارے معاشی ماہرین‘ ہماری ہر لحظہ بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کی جو وجوہات بتاتے ہیں وہ سن کر جی چاہتا ہے کہ غالب کی طرح اگر اِس کالم نگار کے مقدور ہوتا تو وہ نوحہ گر کو ساتھ رکھتا۔ اگرچہ 85 سال کی عمر میں اس بوڑھے جسم میں اتنی توانائی نہیں رہی مگر یہ اُمید ہے کہ افلاک سے میرے نالوں کا جواب آئے گا۔ حالانکہ 85 برس میں نہیں آیا تو اب کس طرح آئے گا؟ ہر سال اربوں روپوں (بدقسمتی سے مجھے اس سے زیادہ حساب کتاب نہیں آتا) کے خسارے کو دور کرنے کے صرف دو طریقے بتائے جاتے ہیں جو اتنے زود فہم ہیں کہ میرے آبائی گائوں میں ہل چلانے والا روایتی کسان اللہ دتہ اور اُس کی بیوی سکینہ بیگم بھی اس کا جواب جانتی ہے۔ ہم اپنی آمدنی بڑھائیں‘ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو اپنا خرچہ کم کریں۔ لگتا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کرنے والوں کی بھی ان دانش کدوں نے مت مار دی ہے۔
سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک ملک کی آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات (خصوصاً غیر پیداواری اخراجات) میں فرق بڑھتا جا رہا ہے تو ہماری مالیات کے ذمہ داروں کو رات نیند کس طرح آتی ہے؟ کارخانوں کے بجائے موٹرویز اور میٹرو ٹرین بنانے اور ٹھیکہ داری نظام کے ذریعے اربوں روپوں کی مبینہ کرپشن کی گئی۔ سالہا سال سے ہماری معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے پیندے میں مزید سوراخ کر دینے سے سنگین عدم توازن پیدا ہوتا چلا گیا۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض‘ چین اور سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد ہمیں قیامت تک خود کفیل نہیں بنا سکتی۔
گزشتہ ہفتے شائع ہونے والا کالم نام نہاد گورنر معین الدین اور Agent to the Governor General کے نام عبدالصمد اچکزئی کے کھلے خط پر ختم ہوا۔ جناب اچکزئی کو مسلسل (مقدمہ چلائے بغیر) قید میں رکھنے والوں نے اپنی خُو نہ چھوڑی تو جناب اچکزئی اپنی وضع کیوں بدلتے؟ جب یہ دیکھا گیا کہ یہ دیوانہ کسی طور پر ڈھب پر نہیں آتا‘ نہ ڈرتا ہے اور نہ خریدا جا سکتا ہے تو تین دسمبر1973ء کو وہ اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ الطاف گوہر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ جب میں کوئٹہ گیا تو اُس وقت بلوچستان میں ایک آپریشن جاری تھا۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس آپریشن کا کیا مطلب ہے۔ بھارت نے 1948ء میں حیدر آباد پر فوج کشی کی تو اسے پولیس آپریشن کہا گیا۔ بھٹو صاحب نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو (غالباًشاہ ایران کو خوش کرنے کے لیے) برطرف کر دیا تھا اور بلوچ سرداروں (سیاست دانوں) کی سرکوبی کے لیے وہاں یہ آپریشن کیا گیا تھا۔ پاکستانی اداروں کو بارہا اپنے عوام کے خلاف استعمال کیا گیا‘ جس کی وجہ سے کئی سیاسی لیڈر ملک سے فرار ہو گئے۔ باقی حراست میں لے لیے گئے۔ اُن پر مختلف قسم کے مقدمات بنا دیے گئے۔ سال‘ دو سال ان جھوٹے مقدمات کی سماعت حیدر آباد جیل میں ہوتی رہی۔ جب ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مارا اور اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد حیدر آباد جیل گئے‘ تو وہ وہاں سب سرکاری قیدیوں سے ملے اور اُنہیں آزادی کا مژدہ سنایا۔ اُن پر جو بھی الزمات لگائے گئے تھے‘ بے بنیاد تھے۔ جاگیرداروں کے ایک گروہ کی وجہ سے ان دنوں ذات اور برادری بہت اہم چیز بن گئی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے ذریعہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو آگے لایا گیا۔ ضیا الحق نے کچھ ضمیر فروشوں کے مشورہ سے آئین میں ایسی ترامیم کیں کہ اُس کی جمہوری شکل بگاڑ کر رکھ دی گئی۔ ہمارا ملک آج تک اقتدار کی اُن چالوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ یہ مندرجہ بالا الفاظ میرے نہیں جناب الطاف گوہر کے ہیں جو 23 دسمبر 1974ء کے ایک اردو روزنامہ میں ان کے کالم کی صورت میں شائع ہوئے۔ جمہوریت واپس تو آئی مگر لٹی پٹی‘ پوری قوم کو فرقوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا گیا۔ دو‘ ڈھائی سو خاندان حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ عہدوں کی بندر بانٹ تاحال جاری ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آزادی کے فوراً بعد ہر اُس سیاست دان‘ جس کا اپنا کوئی نقطۂ نظر یا اُصول تھا‘ کو ''غدار‘‘ قرار دے کر ملکی سیاست سے خارج کر دیا تھا۔ عوام کی نہ پہلے سنی جاتی تھی اور نہ اب۔ ایک بار پھر اقتدار پر چھاپے کی سازش کو کامیاب بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آج بھی ایسے موقع پرست سیاست دانوں (اور اُن کے ہمنوا دانشوروں) کی کمی نہیں جو مختلف زاویوں سے ان سازشوں کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔
عبدالصمد اچکزئی صاحب کی قوم پرستی‘ جو ہر لحاظ سے ایک قابلِ قدر خوبی اور قابلِ صد تعریف جذبہ ہے‘ کی وجہ سے کچھ اہلِ پنجاب‘ جن کا یہی رویہ مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی علمبردار عوامی لیگ کی طرف تھا‘ اُنہیں ''غدار‘‘ کہتے تھے مگر اچکزئی صاحب پٹھانوں میں ایک عظیم رہنما کے طور پر شہادت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ اُنہیں وہی مرتبہ حاصل ہے جو جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو‘ ویت نام میں ہوچی منہ کو‘ ایران میں خمینی کو‘ کیوبا میں کاسترو کو اور اگر اتنی دور نہ جائیں تو اندرونِ وطن ہمارے ایک حصہ‘ پختونخوا میں جناب عبدالغفار خان (باچا خان) کو‘ جو اچکزئی صاحب کی طرح پاکستان بننے سے پہلے اور پھر پاکستان بننے کے بعد بھی سالہا سال (کم از کم 33 برس) جیل میں قید رہے یا گھر میں نظر بند یا جلا وطن۔ وہ پچاس کی دہائی میں زبردستی پنجاب بھیج دیے گئے تو فیصل آباد (اُس زمانہ کے لائل پور) میں میر عبدالقیوم مرحوم کے گھر ایک طویل عرصہ تک قیام پذیر رہے۔ یہ میر صاحب کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لائل پور کے ایک طالب علم کو اپنے معزز مہمان سے ملنے کی دعوت دی جو اُس کی زندگی کے سنہری لمحات میں شامل ہے۔
ہم نے جمہوری اور فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف کتنا طویل سفر طے کیا ہے‘ اُس کا آپ صرف اس حقیقت سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب بھی سیاسی مخالفین کو کئی کئی ماہ مقدمہ چلائے بغیر قید میں رکھا جاتا ہے‘ برسوں بعد ضمانت ملتی ہے اور اگر آپ کا تعلق بلوچستان یا پختونخوا سے ہو تو آپ اُن ہزاروں لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اچانک غائب ہو گئے اور ان کا اتا پتا کسی کو معلوم نہیں۔ اُن کے اہل خانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ کب گھر واپس آئیں گے‘ آئیں گے بھی یا نہیں؟ امریکہ میںقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے رشتہ داروں کی بھی یہی رائے ہے‘ لیکن چونکہ وہ زندہ سلامت ہیں‘ اس لیے عافیہ صدیقی کی واپسی کی امید باقی ہے‘لیکن ابھی تو عافیہ نے لمبی قید میں سے پہلے 17برس ہی کاٹے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں