پاکستان مگر کس کا؟

صرف سات ہفتے رہ گئے ہیں جب خدا کی دی ہوئی یعنی خدا کے بندوں کی بنائی ہوئی مملکت کا75واں یومِ آزادی اسی دھوم دھام سے منایا جائے گا جو اس مبارک دن کے شایانِ شان ہے۔ ڈھول‘ آتش بازی‘ عمارتوں کی روشنیوں سے آرائش‘پرچموں کی بہار‘ رقص اور موسیقی۔ یہ سب اپنی جگہ صرف مناسب نہیں بلکہ ضروری ہے مگر یہ کافی نہیں۔ یہ دن ہمیں اُسی طرح دعوتِ فکر و عمل دیتا ہے جس طرح دوسرے مذہبی اور قومی تہوار۔ آج ہم ایک سنگین بحران کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ایک آتش فشاں پہاڑ دہک رہا ہے۔اندیشہ ہے کہ عوامی غیظ و غضب کا لاوا بہہ نکلے گا اور قومی مجرموں اور حکمران طبقے کے ہر فرد کے ساتھ بہت سے بے گناہوں اور (اس کالم نگار کی طرح) افتاد گانِ خاک‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ اساتذہ‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ کچی بستیوں (Slums) میں رہنے والوں‘خاکروبوں اور بھٹہ مزدوروں کے دوستوں اور خیر خواہوں کو بھی بہا کر لے جائے گا۔
فیض صاحب نے جب کمال کی نظم لکھی '' ہم دیکھیں گے‘‘ اور اقبال بانو نے اُسی کمال سے گائی‘ یہ نہ خواب ہے اور نہ فسانہ۔ فیض صاحب اپنی آنکھوں سے وہ دن نہ دیکھ سکے مگر غالباً ان کی اگلی نسلیں یہ دیکھیں گی۔ جب یہاں طوفان زور سے اُٹھے گا اور وہی دہشت ناک آوازیں سنائی دیں گی جو 1789ء میں فرانس میں‘ 1917ء میں روس میں 1950 ء میں چین میں‘75 19 میں ویتنام میں‘ 1979 ء میں ایران میں اور پچھلے برس ماہِ اگست میں افغانستان میں ظلم‘ بدی‘ استحصال‘ عدم مساوات اور ناانصافی کی مقتدر اور حکمران قوتوں کے خاتمے کا باعث بنیں۔
تاریخ کے قاضی کا یہ فتویٰ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ متاعِ کارواں چلی جانے کے سانحے کے بارے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں مگر بوڑھے کالم نگار کے دل میں ایک چراغ اب بھی ٹمٹماتا ہے اور وہ ہے اُمیدکا چراغ۔ اُمید یہ ہے کہ ابھی راکھ کے ڈھیر میں چنگاریاں ہیں‘ ابھی کارواں کے دل سے احساسِ زیاں پوری طرح نہیں گیا۔ ابھی امکان ہے کہ سحابِ بہار سے سوکھی ہوئی ٹہنی پھر سرسبز ہو جائے۔ ابھی ہمارے پاس ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں‘ گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن اور زینی ماسی ہیں‘ کراچی کے مولانا نقیب الرحمن ہیں ابھی کراچی میں رضا ربانی ہیں۔ (جنہوں نے علی وزیر کو قومی اسمبلی میں شرکت کیلئے ڈیڑھ سال کی قید سے رہائی دینے کا مطالبہ کیا ہے) اسلام آباد میں مصطفی نواز کھوکھر ہیں (وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سرکاری افسروں کے تبادلوں اور تعیناتی پرجاسو سی کی منظوری لینے کی مخالفت کی) ابھی طاہرہ عبداللہ ہیں‘ سرور باری‘ ڈاکٹر محمد اشتیاق‘ ڈاکٹر اکبر زیدی‘ ڈاکٹر طارق بنوری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی ہیں۔ میرا دماغ نہیں مانتا (وہ اتنے صدمات برداشت کر چکا ہے) مگر دل کہتا ہے (جب پاسبانِ عقل اس کے پاس نہیں ہوتا) کہ ایک دن مندرجہ بالا باضمیر‘روشن دماغ اور بہادر افراد کو حکمِ اذاں ملے گا اور وہ سب مل کر بے آواز خلقِ خدا‘ محنت کشوں‘صدیوں سے ظلم و استحصال کا شکار ہونے والوں‘ حالیہ مہنگائی کے عذاب کا نشانہ بننے والوں‘ خطِ غربت کے نیچے رہنے والوں‘ دیہاڑی داروں‘ چھابڑی والوں‘ ریڑھی لگا کر سردی گرمی میں روزی کمانے والوں کے ترجمان بن جائیں گے۔ اُن کے مسائل کا متفقہ حل پیش کریں گے اور اپنے تجویز کردہ حل کے حق میں ملک گیر تحریک چلائیں گے۔
لتا جی کی گلی میں چاند نکلا تو اُنہوں نے خوشی کے عالم میں کتنا سہانا گیت گایا۔ کالم نگار کے دوسرے دیس میں سورج نکلا تو بدقسمتی سے وہ نہ کوئی دھن بجا سکتا ہے اور نہ گیت گا سکتا ہے۔ وہ صرف رب العزت کا شکر ادا کر سکتا ہے (جو اس نے جی بھر کر کیا) اور دھوپ میں بیٹھ کر (جو یہاں اتنی ہی باعثِ راحت ہے جتنی میرے آبائی وطن میں باعثِ زحمت۔ بے ساختہ اگلے کالم کی سطور لکھیں۔ بلاکم و کاست‘ دیانتداری اور دردمندی سے۔ یہ کالم چلتے چلتے یہاں تک پہنچا تھا کہ دور دیس سے خبر آئی (اور دیس بھی اپنا) کہ جماعت اسلامی (جس کی سودی نظام کے خلاف جدوجہد صفر سے ذرا زیادہ ہے) کو اچانک خیال آیا کہ اوہو‘ ہم سوئے رہے یا دوسرے کاموں میں مصروف رہے اور اسلامی انقلاب لانا تو بھول ہی گئے۔ کیوں نا یہ نیک کام ان تپتی دوپہروں میں کر لیں؟ چنانچہ اس ماہ کے آخر میں ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مبارک ہو مگر ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جماعت اسلامی75 سال سے تو اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتی چلی آئی ہے مگر اُس نے آج تک یہ پتا چلنے نہیں دیا کہ وہ مزدوروں‘ محنت کشوں اور ٹھیکہ داری نظام کے شکار لاکھوں صنعتی کارکنوں کے ساتھ ہے یا اُن کو لوٹنے والے صنعتکاروں کے ساتھ ہے۔ کیاوہ مزارعین‘ سندھ کے ہاریوں‘ کاشتکاروں اور بے زمین کسانوں کے ساتھ ہے یا غیر حاضر زمینداروں اور جاگیرداروں کی خاموش مگر پکی دوست ہے؟ کیا وہ زرعی اصلاحات کی حامی ہے؟ کیا وہ اس تجویز کی حمایت کرتی ہے کہ اربوں روپوں سالانہ کا خسارہ دینے والے تمام سرکاری ادارے (سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلویز وغیرہ) ان میں کام کرنے والوں محنت کشوں کی تحویل اور ملکیت میں دے دیے جائیں یا نہیں؟ وہ ان اداروں کو یقینا نفع بخش بنا لیں گے۔ اپنی روزی بھی کمائیں گے اور حکومت کو کرروڑوں اربوں کا ٹیکس بھی بخوشی ادا کریں گے۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا یہ جماعت پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو پھر بتائے کہ اسلامی معاشی نظام اور عوام دوست فلاحی‘ منصفانہ اور مساویانہ نظام (جو کئی یورپی ممالک میں رائج ہے) میں کیا فرق ہے؟ کیا اس جماعت نے آج تک Bonded Labour اور بھٹہ مزدوروں کے نظام کار میں بہتری کے لیے ایک لفظ بھی بولاہے؟ کیا جماعت جانتی ہے کہ ایک طرف لاکھوں کسان بے زمین ہیں اور دوسری طرف لاکھوں (یا اس سے بھی زیادہ) ایکڑ قابل کاشت زمین بنجر اور بے کار پڑی ہے۔کتنا اچھا ہوگا کہ یہ زمین ان کسانوں کو دے دی جائے۔ اُنہیں اس کا مالک بنا دیا جائے، اور ایسا کرنے سے ہماری غذائی قلت دُور بھی ہو جائے گی۔
کیا اس جماعت نے گوادر میں اپنے ایک عہدے دار سے (جس نے گوادر میں زینی ماسی کے ساتھ حق دو تحریک چلا کر نئی تاریخ رقم کی) کوئی سبق سیکھا؟ مولانا ہدایت الرحمن کیوں کامیاب ہوئے اور جماعت کیوں ناکام ؟ اسی طرح کراچی میں جماعت کے سندھ میں رہنما مولانا نقیب الرحمن کے نقش قدم پر چل کر کامیابی مل سکتی ہے۔ کھوکھلے اور بے معنی نعرے بلند کرنے سے نہیں۔ مریض کی حالت نازک ہے۔ اُسے جلد آئی سی یو میں لے جانا ہوگا۔ ادھر جماعت ہے کہ مریض کے سرہانے بیٹھی صرف آیات کی تلاوت (مزید تلاوت) کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ وقت دعا ہے مگر دعا کی ساتھ فلاحی مملکت کی دوا یعنی معاشی انصاف کا نظام اتنا ہی ضروری ہے اگر اسلامی انقلاب دعائوں‘ نیک تمنائوں اور اچھے نعروں سے آسکتا تو کئی سال پہلے آچکا ہوتا۔ قراردادِ مقاصد کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اسے بڑے خشوع و خضوع سے 72 سال پہلے ہماری پارلیمان نے منظور کیا تھا۔ کیا ایک بھی نیک مقصد پورا ہوا؟ ہر گز نہیں اور نہ ہوگا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں