پاکستان مگر کس کا؟…(2)

پچھلے کالم کی طرح آج کا کالم بھی ایک بنیادی سوال سے شروع ہوا ہے۔ پاکستان کس کا ہے؟ لاکھوں کروڑوں کسانوں مزدوروں‘ محنت کشوں کا یا سیٹھوں اور ارب پتی تاجروں اور صنعت کاروں کا؟ کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے یا گلو بٹوں کا؟ جسٹس کار نیلئس‘ جسٹس کیانی اور جسٹس بھگوان داس کا یا سانحۂ ماڈل ٹائون میں 14 بے گناہ افراد (بشمول خواتین) کے قاتلوں کا یا قانون کو پامال کرنے والوں کا یا غنڈہ گردی‘ آئین شکنی اور لاقانونیت کے سرپرستوں کا؟ یہ بہت بڑے سوال ہیں۔ ان کا جواب دیے بغیر ہم آگے بڑھے تو آنے والا وقت موجودہ وقت سے بھی خراب ہوگا۔ مزید عذاب لائے گا اور بحران پیدا کرے گا۔
14 اگست کو ہمارے تمام سیاسی راہ نما اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جائیں‘ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور پھر سب مل کرمیثاق جمہوریت‘ میثاق معیشت‘ میثاق انصاف‘ میثاق تعلیم پر دستخط کریں اور اسلام کی انقلابی روح کے تقاضوں کے مطابق غربت ختم نہیں تو کم کرنے‘امن و امان قائم کرنے اور فلاحی مملکت کے قیام کا مشترکہ عزم کریں۔
جو لوگ اس کالم نگار کے ہم عصر (افسوس کہ وہ اب دُنیا سے اُٹھتے جا رہے ہیں) ہیں۔ اُنہیں ساٹھ کے عشرے میں ہمارے قومی اُفق پر سب سے روشن ستارے کا بخوبی علم ہوگا اور وہ تھے۔ ایم (محمد) آر (رستم) کیانی۔ اُن دنوں مغربی پاکستان وَن یونٹ سکیم کے تحت‘ جو صرف مشرقی پاکستان کا مقابلہ کرنے اور برابری کا جھوٹا دعویٰ بلند کرنے کیلئے تھا‘ ایک صوبہ تھا (یعنی آج کے چاروں صوبوں پر مُشتمل) اور س کی صرف ایک ہی ہائی کورٹ تھی۔ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی میں اس عدالت کے مقامی Bench تھے۔ اس عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کیانی صاحب تھے۔ وہ نہ صرف بلند پایہ منصف تھے بلکہ سماجی تقاریب میں اپنی ظرافت کے پھول کھلاتے رہتے تھے۔ ایوب خان کے مارشل لاء دور کے حبس میں وہ تازہ ہوا کا بے حد خوشگوار جھونکا تھے۔ میرے ایک دوست اور میری طرح گمنام اور میری طرح اندرون شہر میں رہنے والے اور میری طرح چیونٹی اور ہاتھی کے واضح فرق کو ملحوظ نہ رکھنے والے ایک سیاسی کارکن کا نام تھا قمر یورش۔ وہ خواجہ رفیق شہید کے زیر انتظام ہونے والے ایک بڑے جلسہ میں تقریر کر رہے تھے۔ تقریر بھی وہ جو ہمیشہ شورش کاشمیری کی ہو بہو نقل ہوتی تھی۔ بے حد جذباتی۔ شعلہ فشاں۔ لگتا تھا کہ مقرر شدتِ جذبات سے بے ہوش ہو جائے گا۔ وہ تقریر کی دعوت قبول کرنے سے پہلے ہمیشہ میرا مشورہ لینے آتے تھے۔ میں اُنہیں (ان کی یقینی گرفتاری کے خطرہ کے پیش نظر) جلسہ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیتا تھا جو انہوں نے دو سالوں کی قربت میں ایک بار بھی قبول نہ کیا مگر نہ وہ میری رائے مانگنے سے باز آئے اور نہ میں دینے سے۔ اُنہوں نے ایک تقریر میں کسی گمنام شاعر کا ایک شعر اتنی بار پڑھا کہ خفیہ پولیس والوں کو زبانی یاد ہو گیا۔ وہ پاکستان کے امن و سلامتی کے خلاف شعر کو برسرِ عام اور وہ بھی بار بار اور خصوصاً مارشل لاء کے دور میں پڑھنے کے جرم میں گرفتار کر لئے گئے۔ میاں محمود الحق قصوری (مرحوم) کا بھلا ہو کہ وہ ایک بار پھر قمر یورش کی ضمانت پر رہائی کیلئے ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ عدالتی کارروائی اس کالم نگار نے بھی سنی۔ کیانی صاحب نے وکیل استغاثہ سے پوچھا کہ وہ شعر کون سا تھا جو قمر یورش کی گرفتاری کا موجب بنا؟ عدالت میں سناٹا طاری تھا۔ جب یہ شعر بلند آواز میں (کاغذسے پڑھ کر ) سنایا گیا۔
دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ
جسٹس کیانی کا قہقہہ کمرئہ عدالت میں گونجا۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ اتنا اچھا شعر دوبارہ سنایا جائے۔ کیانی صاحب نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی میرا منہ اتنی دیر سے گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ بھی اُس پاکستان کی طرف دیکھیں جو قائداعظم نے بنایا تھا یا بنانا چاہتے تھے۔ اب تو ساری عدالت کشتِ زعفران بن گئی۔ قصوری صاحب کو ایک لفظ بھی نہ بولنا پڑا اور عدالت نے ملزم کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ اس واقعہ کو تقریباً 62 برس گزر چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے ایک دوسرے کا منہ تکتے جا رہے ہیں اور دم بخود ہیں۔ ایک دو سرے سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں پاتے کہ بھائی جان! بتایئے کہ ہم موجودہ خراب ترین (سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی) صورت حال میں پہنچے تو کیونکر؟ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ ہم یا ہمارے حکمران؟ ہمارے صحافی یا ہمارے یا (اپنی اپنی صلاحیتوں کے حساب سے) ہم سب؟
پاکستان کا 75 واں جنم دن اورقریب آگیا‘ ایک ہفتہ اور گھٹ گیا مگر بے حد افسوس کہ مجھے خود احتسابی‘ خود شناسی اور خود نگری کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سادہ الفاظ میں ہم اپنے اپنے گریبان (منو بھائی کے کالم کے گریبان سے بھی زیادہ کٹا پھٹا) میں جھانکیں۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ محاوروں کے مطابق بغلوں کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیانتداری سے (غالباً بہادری بھی درکار ہوگی) اپنی غلطیوں (اور وہ بھی فاش) کو مان لیں اور اس سال آنے والے 14 اگست کو اک نئے سفر کا آغاز کریں۔
''برہمن‘‘ (ہمارا حکمران طبقہ) چاہے جتنا برا منائے مگر ہم سب مل کر یہ اعلان جاری کریں کہ ہمارے'' صنم کدوں‘‘ کے ''بت‘‘ پرانے ہو گئے ہیں اور اب ہمیں (بقول اقبال) اک نیا '' شوالہ‘‘ تعمیر کرنا ہوگا۔ اس شوالہ کے درو دیوار اور ستون کیا ہوں گے؟ سکیورٹی کے بجائے فلاحی مملکت کا قیام‘ انصاف‘مساوات اور قانون کی حکمرانی۔ اختیارات اور وسائل کو سب سے نچلی سطح تک پہنچانے کی ضمانت۔ قوتِ اخوتِ عوام پر انحصار۔ چھابڑی اور ریڑھی لگانے والوں ‘ کسانوں اور مزدوروں‘ اساتذہ اور صحافیوں‘ گوادر کے ساحل پر مچھلیاں پکڑنے والوں سے لے کر کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں تک۔ حق دو تحریک کی ماسی زینی اور مولانا ہدایت الرحمن سے لے کر بنیادی حقوق کے تمام کارکنوں تک۔ تمام انسانی حقوق (قبل از مسیح دور میں اہل یونان کے متعارف کرائے اور ڈیڑھ ہزارسال اُن پر اسلام نے مہر تصدیق مثبت کی) کا احترام‘ زبانی کلیدی نہیں بلکہ عملی احترام۔ کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں (جنہوں نے ساری دولت بطور مافیا سرکاری مراعات سے فیض یاب ہو کر کمائی ) پر اتنا ہی بھاری ٹیکس عائد کیا جائے جو سارے یورپ میں لگایا جاتا ہے۔ کالم نگار ماہر معیشت نہیں مگر ایک بنیادی سچائی جانتا ہے (جو کھیت کھلیان میں کاشتکاری کرنے والااللہ کا ہر بندہ اور ہر خاتون خانہ بھی جانتی ہے کہ 1947ء سے لے کر 1970ء تک کے پاکستان کو مشرقی پاکستان سے ہونے والے ناانصافی اور احساس ناانصافی نے کافی ضعف پہنچایا۔ نتیجہ؟ملک 1971 ء میں ٹوٹ گیا۔ اس سے بڑا المیہ اور کون سا ہو سکتا تھا؟ 1971ء سے لے کر 2022 ء تک کا پاکستان جن خطوط پر چلایا گیا وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اب اگر ہم سب (جو ہمارا اوّلین مقدس فرض ہے) پاکستان کوہر قسم کے المیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اس سوال کا جواب ڈھونڈیں جو ان دو کالموں کا عنوان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں