مسائل اور اُن کا حل

آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ ہماری درآمدات‘برآمدات سے بہت زیادہ ہیں۔ ہم ہر سال بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے امریکہ اور سامراجی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر ادھار مانگتے ہیں‘اوریہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقروض ملک کی خارجہ پالیسی آزاد ہو؟ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری‘ پانی اور بجلی کی فراہمی میں ہر سال بڑھتی ہوئی کمی‘ دیوالیہ پن کے خطرات‘ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور بجٹ کا مستقل اور بہت بڑا خسارہ‘ یہ ہیں وہ پانچ تلواریں جو پچاس برسوں سے ہمارے سر پر لٹک رہی ہیں اور وہ رسی جو انہیں ہماری گردن پر چل جانے اور سر پر گرنے سے روکے ہوئے ہے وہ ہر سال‘ ہر ماہ بلکہ ہر دن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ کافی چیخ و پکار ہو چکی۔ مستقل طور پر ہم اپنی بُری حالت پر ماتم کناں ہیں۔ آئیے ہم مل کر اپنے امراض کا علاج ڈھونڈیں۔
اجازت دیجئے کہ میں بسم اللہ کرکے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجویز پیش کروں۔ ہم سرطان (Cancer) کے مریض کا علاج اسپرین سے نہیں کر سکتے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے بارے میں مستقبل کا مورخ یہ لکھے کہ ہم اس وقت جاگے جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اصلاحِ احوال کے لیے نیم دلی سے جو ادھورے اقدامات (Half Measures) کیے گئے وہ نامکمل تھے اور بعداز وقت یعنی Too Little, Too Late۔ 18 فروری 2008ء کو جمہوریت کے آغاز سے بہار کی جو نئی رُت آئی تھی‘ بدقسمتی سے ہم اُسے خزاں سے محفوظ نہیں بنا سکے۔ یہ مقامِ صد افسوس ہے۔
1- ہماری قومی سلامتی کو داخلی انتشار اور معاشی انہدام (Economic Collapse) کے خطرات لاحق ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی وضع کی جائے۔
2- سرکاری ملازمین پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کو بچانے کے لیے وہ قابلِ مذمت روایتیں ختم کر یں جو دورِ غلامی کی یادگار ہیں۔ کسی ترقی یافتہ آزاد ملک میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
3- صوبائی اور وفاقی وزیروں‘ صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کو بے جا مراعات نہ دیں۔ اگر صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا کوئی وزیر بھاری اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اپنے اوپر خرچ ہونے والے اخراجات کی وہ حد مقرر کرے جو سابقہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ‘ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور افغانستان کے سابق سربراہ ملاعمر کے سرکاری اخراجات سے ایک پائی بھی زیادہ نہ ہو۔
4- ہم مختلف ترقیاتی منصوبوں میں اپنی کروڑوں افراد پر مشتمل افرادی قوت (Man Power) کو استعمال کرتے ہوئے چین کے نقش قدم پر چلیں۔ سرکاری افسروں اور وزیروں کے غیر ضروری غیر ملکی دوروں پر اس وقت تک پابندی لگا دیں جب تک ہم غیر ملکی امداد کے سہارے اپنا ملک چلانے پر مجبور ہیں۔
5- ہم اربوں روپے خرچ کرکے بڑے آبی منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیم بھی تعمیر کریں۔ دنیا بھر کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بڑے ڈیم کے بجائے زیادہ تعداد میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانا زیادہ مفید اور بہت سستا اور کار آمدہے۔
6- صوبائی خود مختاری محدود ہو چکی ہے۔ ایسا نظام موجود ہونا چاہیے جس کے تحت صوبوں کے وسائل میں اُس صوبائی حکومت کا خاطر خواہ حصہ مقرر کیا جا سکے جس صوبے کے وسائل استعمال کیے جا رہے ہوں۔ اب تک ملک میں یہ روایت ہے کہ صوبوں کے وسائل سے حاصل ہونے والی کمائی سرمایہ دار کمپنیوں اور وفاق میں تقسیم ہو جاتی ہے اور صوبے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ نظام تبدیل کرنا ہو گا۔
7- قومی مالیاتی ایوارڈ کے حقائق قوم کو بتائے جائیں۔ قومی مالیاتی ایوارڈ مرتب کرتے وقت آبادی کے ساتھ رقبے کو فیصلہ کن اہمیت دی جائے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پہلے سارے محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی مرکزی حکومت حاصل کرتی ہے اور پھر اپنی مرضی سے چاروں صوبوں میں تقسیم کرتی ہے اور منصفانہ تقسیم نہیں کر پاتی۔
8- بڑے زمینداروں کی زرعی آمدنی اورزمین کی خرید و فروخت سے کروڑوں روپے کمانے والوں پر ٹیکس عائد کیا جائے۔
9- جن سرکاری افسروں یا سیاست دانوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کر وائے ہیں‘ ان سے یہ قرضے وصول کیے جائیں۔ قرضوں کی معافی کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔ قرضوں کی معافی کے گزشتہ احکام کو منسوخ کیا جائے۔ بارہ سال پہلے شائع ہونے والی اخباری اطلاعات کے مطابق محض چھ برسوں میں ایک کھرب اور ایک سو پچیس ارب روپے کی قرضے معاف کیے گئے تھے۔
10- صارفین کے استعمال میں آنے والی زیادہ تر چیزوں (خصوصاً اشیائے خورو نوش) پربالواسطہ (Indirect) ٹیکس منسوخ کیے جائیں۔ ٹیکس آمدنی پر لگایا اور وصول کیا جائے۔ ٹیکسوں کے موجودہ گلے سڑے اور فرسودہ نظام میں بڑی اصلاحات کی جائیں۔ یورپ کے آزاد‘ ترقی یافتہ‘ عوام دوست ممالک میں امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں غریب ٹیکس ادا کرتے ہیں تاکہ امیروں اور بڑے سرکاری افسروں کا شاہانہ معیارِ زندگی قائم رکھا جا سکے۔
11- سڑکوں‘ پلوں اور سرکاری عمارتوں کا افتتاح کرنے پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی وہ روایت ختم کی جائے جس کا یورپ میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اپنی ایک ایک پائی بچائیں اور اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔
12- قومی اداروں کو نجی ملکیت میں دینے (Privatization) کے بدترین سامراجی نسخے پر مزید عمل کرنا بند کر دیں۔ خدا کا شکر ہے کہ چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری نے سٹیل مل کی اونے پونے داموں فروخت رکوا دی تھی۔ کوئی ایسا قومی ادارہ فروخت نہ کیا جائے جو منافع بخش ہو یا بنایا جا سکتا ہو۔ نجکاری سے پہلے کئی ادارے ایسے تھے جو منافع میں جا رہے تھے لیکن اُن کی نجکاری کے بعد وہ خسارے میں چلے گئے جس سے سینکڑوں افراد بے روزگاری کا شکار بھی ہوئے۔ اگر حکومت عوام دوست ہے یا ایسا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ امریکہ یا امریکہ کے ماتحت مالیاتی اداروں (مثلاً IMF) کے تجویز کردہ مہلک نسخوں پر عمل کرنا بند کر دے۔
13-ہم توانائی حاصل کرنے کے لیے برطانیہ اور فرانس کی طرح ایٹمی طاقت سے چلنے والے ری ایکٹروں سے بے حد سستی بجلی بڑے پیمانے پر پیدا کریں(ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے ذمہ یہ کام لگایا جاتا تو غالباً وہ ہمارے اوپر دوسرا احسان بھی کر سکتے تھے)۔ وسطی ایشیا اور ایران سے سستی گیس حاصل کی جائے۔ شمسی توانائی‘ تیز ہواؤں‘ سمندری لہروں اور متبادل توانا ئی کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لانے کے راستے پر چلیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مصنوعی طرز پر بلند معیار زندگی کو ترک کر دیں جس کی بنیاد توانائی کے زیادہ استعمال پر ہو۔
14-برآمدات کو بڑھانے کے لئے اور زیادہ مؤثر اقدامات کریں۔ درآمدات میں اربوں روپوں کی کمی کر دیں تا کہ ہماری درآمدات پر خرچ کسی حالت میں بھی برآمدات سے ایک پیسہ زائد نہ ہو۔ ہم نہ گندم درآمد کریں اور نہ کپاس۔ نہ ملائیشیا سے اربوں روپوں کا خوردنی تیل اور نہ کینیڈا سے ادرک۔
15-آبپاشی کے نئے منصوبوں سے سیراب ہونے والی زمینیں چھوٹے کسانوں کو دی جائیں اور ان مزارعین کو جلد از جلد حقِ ملکیت دیا جائے جو طویل مدت سے کاشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں