مسائل اور اُن کا حل …(2)

گزشتہ کالم میں ملکی مسائل کے حوالے سے چند تجاویز پیش کی تھیں‘ آج ان تجاویز کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں:
ایک زرعی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات باعثِ تشویش ہو سکتی ہے کہ وہ خوراک میں بھی خود کفیل نہ ہو سکے۔ حکومت کی ایک احتسابی کمیٹی چھان بین کرے کہ چینی اور گندم سکینڈلز میں مافیاز نے اربوں روپے کس طرح لُوٹے؟ زراعت کا ہماری قومی آمدنی میں حصہ بمشکل 24فیصد بنتا ہے مگر وہ ہماری افرادی قوت کے 45فیصد حصے کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ ایک سال کے اندر کھاد کی قیمت میں تین گنا اضافہ کرنے سے زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس انتہائی خراب صورت حال کو ہنگامی بنیادوں پر درست کرنا عوامی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت میڈیا کے ذریعے ہر مہینے قوم کو بتائے کہ اس ضمن میں کون سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ زراعت کے بارے میں خاموشی اور بے عملی ہر لحاظ سے ناقابلِ معافی جرم ہے۔
عوام دوست معاشی ماہرین کے مشورے سے پارلیمانی کمیٹی نئی معاشی پالیسی مرتب کرے۔ پارلیمنٹ کی خارجہ اور معاشی امور کی کمیٹیوں کی اجازت کے بغیر مرکزی حکومت کوئی غیر ملکی معاہدہ کرنے اور ایک ڈالر بھی بطور قرض لینے کی مجاز نہ ہو‘تا کہ 75 برسوں پر پھیلی ہوئی دکھ بھری داستان (قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند) مزید طول نہ پکڑ سکے۔
مرکز‘ صوبے اور ضلع کی سطح پر احتسا بی کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے۔ قومی دولت کو ضائع کرنے یا لوٹنے والوںکو ان کے عہدوں سے برطرف کر کے مناسب سزا دی جائے اور اُن سے ضائع شدہ یا لوٹی ہوئی دولت وصول کی جائے۔
سرکاری ملازمین کا سرکاری خرچ پر اپنا اور اپنے رشتہ داروں کا علاج کرانے پر پابندی لگادی جائے تاکہ پاکستانی قوم پر ہر سال کروڑوں روپوں کا یہ زائد بوجھ نہ پڑے۔
زرعی ترقی کے لیے ہم بنگلہ دیش کے محمد یونس کے گرامین بینک اور بھارت سے سبق سیکھیں۔ گرامین بینک نے مارچ 2008ء میں تین کروڑ کسانوں کے قرضے معاف کر دیے اور کروڑوں بے حد غریب دیہاتی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے بے حد قابلِ تعریف منصوبے کا اعلان کیا۔ مقصد غریب کسانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنا تھا۔ ہمارے ملک حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کتنے اور کسان خود کشی کریں گے تو ہم ان کی حالتِ زار پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے؟
ہم جب تک پُرامن ماحول اور سستی توانائی اور قانون کی حکمرانی (جو گلف ممالک اور سنگا پور کی کامیابی کے راز ہیں) جیسی بنیادی نعمتوں سے محروم رہیں گے اُس وقت تک دیگر ممالک ہمارے یہاں سرمایہ کاری نہیں کریں گے اور ہمارے سرمایہ کار بھی دیگر ممالک میں اپنا سرمایہ منتقل کرتے جائیں گے۔ پورے ملک میں موجود اربوں ڈالر کی سرکاری املاک کو فروخت کرکے ملک کا قرض اُتارا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے مستقل بجٹ خسارے (جو بتدریج ہمیں دیوالیہ پن کی طرف دھکیل رہا ہے) کی سب سے بڑی وجہ غیر معمولی حد تک بڑے اور ناقابلِ برداشت اخراجات ہیں۔ کیا ہماری کسی پارلیمنٹ کو یہ توفیق ہوگی کہ وہ عوام کے سامنے ان اخراجات کی کوئی جائز توجیہ پیش کر سکے؟ اخراجات میں نمایاں کمی سے (جن سے وہ قابلِ برداشت ہو جائیں) ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔
ہر صوبائی اسمبلی اور وفاقی پارلیمنٹ خصوصی کمیٹیز قائم کرے جن میں غیرحکومتی اراکین کی تعداد کم از کم ایک تہائی ہو۔ یہ کمیٹیاں سرکاری اخراجات کے ذمہ دار مختلف محکموں کی نگران ہوں۔ یہ کمیٹیاں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو اپنا مشیر بنائیں۔ ہر مہینے ہر کمیٹی کا اجلاس ہو جس کی کارروائی اخبارات میں شائع اور ٹیلی وژن چینلز پر نشر ہو۔ امریکہ اور برطانیہ کی طرح اس طرز کی ہر کمیٹی کو یہ قانونی اختیار حاصل ہو کہ وہ کسی بھی شخص کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر جواب دہ ہونے کا حکم دے سکے۔ بڑے سے بڑے سرکاری افسر کیلئے کمیٹی کے اراکین کی جرح کا جواب دینا اس کے سرکاری فرائض میں شامل کیا جائے۔
وزرا کے لیے 1300سی سی سے بڑی گاڑیاں استعمال کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ اس پابندی پر اگر مکمل عمل درآمد ہو جائے تو یہ کسی کرشمے سے کم نہیں ہوگا لیکن اس وقت وزارتوں میں 1300 سی سی سے بڑی جو نئی گاڑیاں موجود ہیں‘ انہیں کہاں استعمال کیا جائے گا اور 1300 سی سی کی جو نئی گاڑیاں وزرا اور مشیروں کے لیے منگوائی جائیں گی اس کے لیے قومی خزانے کو کتنا جھٹکا اور برداشت کرنا پڑے گا‘ یہ بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں صرف حکومتِ پنجاب کے افسرانِ بالا کے لیے دو بار گاڑیاں تبدیل کی گئیں اور صوبائی وزرا کے لیے ستر کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چالیس گاڑیاں بھی خریدی گئیں۔ مبینہ طور پرپچھلے چند برسوں میں خریدی گئی 450 گاڑیاں اس وقت صوبائی سیکرٹریٹ کے احاطے میں کھڑی ہیں جنہیں وزرا‘ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور پارلیمانی سیکرٹریز نے بے دردی سے استعمال کیا حتیٰ کہ ان کے ٹائر اور دیگر قیمتی سامان بھی تبدیل کر دیا گیا۔
ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری صرف گزشتہ دو برسوں کے دوران 33 ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود برآمدی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران جو غیر ملکی سرکاری دورے کیے گئے وہ محض سیر سپاٹے ثابت ہوئے جن پر تقریباً پانچ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین پر حکومتی خزانے سے سالانہ اربوں روپے کے اخراجات ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایک رکن پر سالانہ تقریباً تیس لاکھ اور ایک سینیٹر پر ساٹھ لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ بیرونِ ممالک دوروں پر جو اربوں روپے جھونک دیے جاتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ بیرونی دوروں کے دوران شاہ خرچیوں کی ایک مثال پرویز مشرف کے آخری دورۂ لندن ہے، جس کے دوران ہوٹل میں صرف تین دن کے قیام پر لگ بھگ تیس لاکھ ڈالر کا خرچ آیا تھا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ کو غور سے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمیں جن سنگین معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اُن کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ حکومتِ پاکستان اربوں ڈالر کی مقروض ہے۔ بجٹ میں خسارے (چونکہ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہیں) کو پورا کرنے کے لیے حکومت اتنے نوٹ چھاپتی رہی ہے جس کا ہماری قومی پیداوار اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے کوئی تعلق یا نسبت نہیں۔ نتیجہ افراطِ زر اور ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شکل میں نکلتا رہاہے۔ آج بدترین مالی بدنظمی کی سزا22 کروڑ بے گناہ عوام کو مل رہی ہے اور ہر نئے ماہ و سال کے ساتھ اس سزا کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں