مسائل اور اُن کا حل…(3)

حکومت پاکستان غریب عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں کو بے دردی سے ضائع کرنے کے جو نئے نئے طریقے سوچتی ہے اس میں صدر اور وزیراعظم کی کروڑوں روپوں کی مالیت کی گاڑیوں اور اربوں روپوں کے ہوائی جہازوں سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آپ کو غالباً یاد نہ ہو گا کہ ہمارے ایک نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو نے نہ صرف اپنی مراعات اور پنشن کو کئی گنا بڑھایا بلکہ اربوں روپے خرچ کر کے پانچ نئے ہیلی کاپٹرز بھی خریدے۔ مجرمانہ ضیاع کی کس سے اجازت طلب کی گئی؟ وزیراعظم کے پاس پہلے کتنے ہوائی جہاز ہیں؟ پانچ ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا ہے؟ برطانوی اور فرانسیسی وزیراعظم کے پاس ایک بھی ہیلی کاپٹر نہیں۔ وہ اپنا کام کس طرح چلاتے ہیں؟ ہیلی کاپٹروں کے خریدنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ مذاق پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے غیر ملکی دوروں کی صورت میں کیا جاتا رہا۔ اس کمیٹی کے سابقہ صدر (نصراللہ خان مرحوم اور مولانا فضل الرحمن) انگریزی، فرانسیسی یا کوئی غیر ملکی زبانیں بول نہیں سکتے تھے۔ وہ سرکاری خرچ پر برطانیہ بار بار آتے رہے۔ یہ کالم نگاربرطانیہ کا چشم دید گواہ ہے کہ برطانوی سیاست دان، وزرا یا امور خارجہ کے ماہرین ان کو ملاقات کا وقت نہ دیتے تھے۔ کوئی اخبار نویس ان سے ملنے کا روادار نہیں تھا۔ وہ کرائے پر بلائے گئے کشمیری سامعین کے سامنے باسی تقریر کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے کشمیر کو آزاد کرالیا۔ لاکھوں روپے برباد کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
9 مارچ 2008 ء سے اب تک‘ وکلاکی جدوجہد کی بدولت عوامی بیداری کا جو نیا روشن دور شروع ہوا وہ نہ صرف عدلیہ کو آزاد بنانے‘ قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور قانون کے احترام کی روایت ڈالنے بلکہ رعایا کو عوام میں تبدیل کرنے کیلئے تھا۔ یہ کالم نگار وکلا‘ صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ ٹیلی وژن پروگراموں کے میزبانوںاور سول سوسائٹی کے ہر شعبے سے درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ خدا کرے ایسا نہ ہو کہ وہ اس تاریخ ساز مرحلے پر بے عملی کا شکار ہو جائیں‘ اپنی آنکھیں اور کان اس وقت بند کر لیں جب عمل کی گھڑی آپہنچی ہے۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے فعال اراکین مل کر مجلسِ عمل معرض وجود میں لائیں جس کا اپنا سیکرٹریٹ ہو‘ماہانہ اجلاس ہو اور وہ اتنا ہی مفید اور جاندار اور مثبت کردار ادا کرے جو انسانی حقوق کے بے حد اہم محاذ پر پاکستان کا ہیومن رائٹس کمیشن ادا کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ حکومت کی نگرانی کرے اور سول سوسائٹی پارلیمنٹ کی۔پی آئی اے کی طرح پاکستان ریلویز بھی بدترین بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے 16 ارب روپے کا خسارہ دکھا رہا ہے مگر آپ بذریعہ ٹرین سفر کرنا چاہیں تو بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ملتی۔ تحقیقاتی کمیشن چھ ماہ کے اندر قوم کو بتائے کہ ہمارے قومی خزانہ کو ہر سال چھ ارب کے لگ بھگ خسارہ برداشت کرنے سے کس طرح بچایا جائے۔ یورپ کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وزارت اطلاعات کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس طرح کی وزارتوں کو ختم کر دیا جائے۔ اطلاعات اور خبریں دینا اخبارات‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن کا کام ہے‘حکومت کا نہیں۔
لمز کے دو عوام دوست اور روشن دماغ پروفیسروں (علی چیمہ اور لیلیٰ خالد) نے LSE کے پروفیسر ڈاکٹر نوید حامد کے ساتھ مل کر غربت (خصوصاً دیہی علاقوں میں نہ کم ہونے والی غربت) کو کم کرنے کیلئے مفید تحقیقی کام کیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ سرائیکی علاقے کے سات اضلاع کی دیہی آبادی اوسط سے بھی زیادہ غریب ہے۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی ان تین معاشی ماہرین کے علاوہ ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی، ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور پروفیسر فیصل باری کے مشوروں سے فائدہ اُٹھائے۔ امریکہ کے ناجائز سامراجی دبائو کی پروانہ کرتے ہوئے ایران سے گیس اور روس سے تیل حاصل کیا جائے۔ بھارت سے صلح اور تجارت شروع کرنے کی بنیادی شرط یہ ہو کہ وہ ہمیں پانی کے ایک بھی مزید قطرے سے محروم نہ کرے گا۔ مرکز سے دور دراز اور غفلت کے شکار سرائیکی علاقوں میں رہنے والوں کے تمام مسائل کا حل اُنہیں پنجاب کی صوبائی حکومت کے چنگل سے نجات دلا کر مکمل داخلی خود مختاری دینا ہے۔ جو قومی ادارے (مثلاً سٹیل مل سرکاری افسروں کی بے پناہ بددیانتی اور پی آئی اے ضرورت سے کئی گنا عملے کی بھرتی سے) نفع بخش ہونے (جو وہ بہت سے سال رہے) سے زوال پذیر ہو کر اربوں کے خسارے کا باعث بن گئے وہ ارب پتی سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کے ہاتھوں اُن کے منہ مانگی قیمت پر ہر گز فروخت نہ کیے جائیں بلکہ اُن اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو اُن کا مالک بنا دیا جائے تاکہ یہ ادارے ایک بار پھر نفع بخش ہو جائیں۔ محنت کشوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ حکومت پر بوجھ بننے کے بجائے کروڑوں روپے بطور ٹیکس ادا کر سکیں۔ عوام دوست ماہرین معیشت کو اس پہلی بار دی جانے والی تجویز پر سنجیدگی سے اور عالمانہ نقطہ نظر سے غور کرنا چاہئے۔ قابلِ کاشت مگر ان دنوں بیکار اور بنجر زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے‘ اس شرط پر کہ وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار حکومت کے ہاتھ فروخت کریں گے اور حکومت اُس پیداوار کو (نفع کمائے بغیر) عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز پر فروخت کر سکے گی۔
1973 ء میں متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے آئین کے مطابق صرف 15 برس کی مہلت دی گئی تھی‘ جس میں حکومت کو انگریزی کے بجائے اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانا تھا۔ 1988 ء کو گزرے ہوئے 33 برس ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کے (مذکورہ آئینی پابندی کے احترام کا حکم دینے والے) فیصلے پر بھی گرد جم چکی ہے۔ ابھی تک ہم نے آئین کے اس اہم حصے پر عمل درآمد کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا۔ وجہ؟ حکمران طبقے کے ہاتھ میں انگریزی کی بالادستی ایک مؤثر ہتھیار ہے۔
پاکستان کے موجودہ چار صوبے برٹش راج کی غیر جمہوری‘ ناقابل دفاع‘ بے جواز اور ناقابلِ قبول نشانیاں ہیں۔ پاکستان کے کئی بڑے شہر (خصوصاً کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد) بہت سے یورپی اور عرب ممالک سے کئی گنا بڑے ہیں۔ پچاس کی دہائی میں چاروں صوبوں کو وَن یونٹ بنا کر ختم کر دیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے اُنہیں ایک بڑا صوبہ بنا دیا گیا جس سے عوامی مشکلات کئی گنا بڑھ گئیں۔ ہماری انتظامی بدحالی اور پرلے درجے کی خراب کارکردگی کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیا جائے۔ جو داخلی طور پر خود مختار ہو۔ ہمیں کمزور مرکز اور مضبوط صوبوں کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتیں ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔مقامی حکومتوں کا سلطانی ٔجمہور اور عوامی اقتدار سے وہی گہرا اور قریبی رشتہ ہوتا ہے جو زمین سے گھاس کی جڑوں کا۔ بہترین مثال کراچی کی دی جا سکتی ہے جہاں عوام کے نمائندے اور عوام کے سامنے جواب دہ دو میئر ز (نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی) نے کرچی میں فلاح و بہبود کے کمال کارنامے سرانجام دیے۔
انتخابات متناسب نمائندگی کے ذریعے کرائے جائیں۔ ہر صوبہ کا انتظامی سربراہ لوگوں کے براہ راست ووٹوں سے چنا جائے اور سارے ملک کے عوام اپنے ووٹوں سے صدرِ مملکت کو چنیں۔ ہمارے ملک میں آج تک جسے جمہوری نظام کی ناکامی کہا جاتا ہے وہ محض پارلیمانی نظام کی ناکامی ہے۔ وفاقی سطح پر عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے (تحریک عدم اعتماد کے ذریعے) صرف دو وٹوں کے فرق سے ہٹایا گیا۔ عثمان بزدار کے استعفیٰ سے لے کر اب تک پنجاب میں سیاسی ابتری ہے۔ اراکینِ اسمبلی کو کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کی رشوت دے کر خریدنے (ہارس ٹریڈنگ) کے جو سچے جھوٹے الزامات لگائے گئے‘ ان شرمناک مناظر کو بدترین سیاسی سرکس شو کہا جا سکتا ہے۔ سالِ رواں میں وفاق اور پنجاب اور اس سے پہلے بلوچستان میں ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ہمارا سیاسی معاشی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ مقام حیرت ہوگا کہ اگر آج بھی ہمارے ملک میں کوئی سیانا شخص پارلیمانی نظام کی حمایت اور صدارتی نظام کی مخالفت کرے۔ صدارتی نظام کے اپنے مسائل ہیں مگر وہ مجموعی طور پر پارلیمانی نظام کے مقابلے میں کئی گنا استحکام کا ضامن ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں