روشنی کی ایک کرن

جب گھپ اندھیرا ہو‘ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہوتب روشنی کی ایک مدھم سی کرن نظر آئے تو(چاہے وہ ہزاروں میل کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو) دیکھنے والے کو اپنی خوش قسمتی پر اعتبار نہیں ہوتا۔ کالم نگار نے کچھ عرصہ قبل جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک عالمانہ مذاکرے کی خبر پڑھی تو اُس کا یہی حال ہوا تھا۔ ایاز امیر صاحب‘ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی اور جناب شمشاد احمد (سابق سفارت کار) کی بصیرت افروز اور ہمیں دعوت فکر دینے والی تقاریر۔ منتظمین‘ مقررین اور سامعین تینوں دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سوچنا‘ غور و فکر کرنا‘ مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ملک و قوم کو بحران سے نکالنا‘ ڈوبتی ہوئی کشتی کو گرداب سے بچانا‘ آنے والی ہر مصیبت کا تدارک اور سدّباب کرنا‘ ہر سیلاب کے آگے بند باندھنا‘ یہ سب کام بنیادی طور پر اور منطقی اعتبار سے سیاسی جماعتوں کے ہیں۔ وہ بنائی ہی اس مقصد کے لیے جاتی ہیں۔ یہی ان کے وجود کا واحد جواز ہے کہ وہ قومی اُمنگوں کی ترجمان بن جائیں۔ ان کا کام ہے کہ وہ صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھیں تاکہ وہ اپنی قوم کی امامت کا فریضہ بخوبی سرانجام دے سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس (ماسوائے جماعت اسلامی کے) ایک بھی نظریاتی سیاسی جماعت نہیں۔ مسلم لیگ (ن ) پر میاں برادران اورمسلم لیگ (ق) پر چودھری برادران اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان کی اجارہ داری ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) پر مولانا فضل الرحمن چھائے ہوئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت خان عبدالولی خان سے ورثے میں چلتی چلتی پہلے اُن کے بیٹے اور اب اُن کے پوتے تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک انصاف کے آگے (ع) لکھیں یا نہ لکھیں‘ وہ لازم و ملزوم ہیں۔ یہ سب کی سب سیاسی جماعتیں کروڑوں عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے صرف اور صرف اقتدار میں اپنا حصہ مانگنے یا وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
اقتدار ملنے کا مطلب ہے مراعات سے فیض یاب ہونا۔ سرکاری خزانے سے لے کر سرکاری تحفوں تک رسائی۔ پنجابی محاورے کے مطابق موجاں ہی موجاں۔ رہے عوام تو آپ جانتے ہیں کہ ان کی ازل سے قسمت ہی خراب ہے۔ قدرت اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود میں دلچسپی رکھتی تو اُنہیں کسی یورپی ملک میں‘ چین یا جاپان میں کیوں پیدا نہ کرتی؟ اس ملک کے عوام برسوں سے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔ غربت‘ افلاس‘ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی‘ بے کسی‘ بے بسی اور بے آواز ہوناتو رہا ایک طرف‘ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ گاہے گاہے قحط اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ ماضی بعید میں بیرونی حملہ آوروں کے مظالم کا نشانہ بننے سے لے کر دورِ جدید میں یورپی سفید فام سامراجی قوتوں کے جارحانہ حملوں‘ نوآبادیاتی قبضے اور استحصال کا شکار۔ اُفتادگانِ خاک کی دکھ بھری داستان نہ لکھی جا سکتی ہے اور نہ پڑھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ عوام دوست ہیں تب بھی اس المیے کا بمشکل اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تاریخ کا پہیہ چلتے چلتے جولائی 2022ء تک پہنچ گیا۔ اندھیرا‘ اضطراب‘ بے یقینی‘ چار سو پھیلے بحران‘ بڑھتی ہوئی معاشی ابتری اور بدحالی‘ معاشرتی انتشار‘ سیاسی عدم استحکام‘ قانون کی حکمرانی کی ڈگمگاتی عمارت‘ انسانی حقوق کی نہ ختم ہونے والی پامالی‘ فلاحی مملکت کے خواب (جو قیام پاکستان کا سب سے بڑا جواز تھا) کی تعبیر دیکھنے کے امکانات کا بڑھنے کے بجائے ہر سال‘ ہر مہینے اور ہر روز کم ہوتے جانا۔ یہ ہے وہ سیاق و سباق جس میں ایک ایسی انہونی ہوئی جس سے بنجر زمین میں کنول کے پھول کھل اُٹھے اور سنگلاخ چٹانوں میں چشمے پھوٹ پڑے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ مذاکرے سے دلوں میں یہ اُمید جاگ اُٹھی کہ وہ ڈالی جو (بقول اقبال) فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ گئی تھی‘ وہ سحابِ بہار سے پھر ہری ہو جائے گی۔ مذکورہ بالا مذاکرے میں تینوں فاضل مقررین نے بڑے کام کی باتیں کیں۔ ان کی تقاریر میں افکارِ تازہ کے ایسے پھول گندھے ہوئے تھے جو جہانِ تازہ کی نمود کے لیے راہ ہموار کریں گے۔ یہ سوچنے سمجھنے والے لوگ(جو ہمارا ہر اول دستہ ہیں) عوام کو اس طرح راہِ راست دکھائیں گے جس طرح خورشید ندیم‘محمد اظہار الحق‘ ایاز امیر اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے لے کر سعد رسول‘ ڈاکٹر اکبر زیدی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ سرور باری‘ مشرف زیدی اور درجنوں دوسرے روشن دماغ اور عوام دوست کالم نگاردکھا رہے ہیں۔
کتنا اچھا ہو کہ پشاور‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ کوئٹہ‘ حیدر آباد اور کراچی میں بھی اس طرح کے عالمانہ مذاکرے منعقد ہوں۔ جن کا موضوع ہو موجودہ سیاسی‘ معاشی اور قانونی نظام۔ موجودہ نظام کو ٹھوس‘ مثبت اور قابلِ عمل انقلابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ وکلا کا فرض ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اپنی اپنی وابستگی یا ہمدردی کی نچلی سطح سے اُوپر اُٹھ کر ملکی مفاد (جس کا مطلب ہے عوامی مفاد یعنی کسانوں‘ مزدوروں اور محنت کشوں کا مفاد) کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ ریٹائرڈ جج صاحبان سے قانونی اصلاحات کا اپنا کمیشن بنانے کی درخواست بھی کی جانی چاہیے۔ جو موجودہ انتہائی تشویش ناک صورتحال کا فی الفور مداوا کرنے کے لیے سفارشات پیش کرے۔ قانونی نظام کی اصلاح قانون دان نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا؟ اگر ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہسپتالوں پر یلغار کرے گا یا جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنائے گا‘ انفرادی یا اجتماعی طور پر خود قانون شکنی کرے گا تو ہمارے ملک میں اندھیرا اور بڑھے گا اور اُمید کا چراغ (جو اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے مذاکرے سے جل اُٹھا ہے) ٹمٹما کر بجھ جائے گا۔ کالم نگار کا اپنا تعلق وکلا برادری سے ہے۔ وہ اپنے رفقائے کار کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق Last Best Hope ہیں۔ سوسائٹی کا ہر اول دستہ بن کر اندھیرے کو روشنی میں بدل دینے کے عمل کو آگے بڑھائیں۔
بیرون ملک رہنے والے لاکھوں پاکستانی پرُ نم آنکھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ جب ٹیلی وژن پر ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مناظر دیکھتے ہیں تو اُنہیں یہ لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی بیڑا ڈوب رہا ہے اور بیڑے کا عملہ عرشۂ جہاز (Deck) پر کرسیوں کی ترتیب اور تقسیم پر باہم دست و گریباں ہے۔ اُسے کچھ خبر نہیں (اور اگر خبر ہے تو پروا نہیں) کہ جہاز کے اُن تمام سوراخوں (جو ہم نے ان 75 برسوں میں اُس کے پیندے میں کیے ہیں) سے پانی تیزی سے اندر داخل ہو رہا ہے۔ صورتِ حال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ سکہ بند اشتراکی دانشور بھی فریاد کر رہے ہیں کہ دائیں اور بائیں بازو کے افراد مل کر پاکستان سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں۔ موجودہ اسمبلیوں کے اراکین میں سے ایک فیصد بھی ایسے نہیں جو قانون سازی کے لیے اسمبلی کے رکن بنے ہوں۔ وہ قانون کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ اُن کا واحد مقصد اقتدار حاصل کر کے وہ کروڑوں روپے وصول کرنا ہے جو اُنہوں نے الیکشن جیتنے پر صرف کیے۔ ہمارے بچائو کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے موجودہ استحصالی نظام کا جلد از جلد خاتمہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں