اسلام اور سوشلزم

اقبال نے کہا تھا کہ جدید اور قدیم کا بیانیہ دہرانا کم نظری کی دلیل ہے۔ اگر ہم اس کمال کے نکتہ کو آگے بڑھائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو خوبیاں یا خصلتیں دورِ جدید کو قرونِ وسطیٰ سے ممتاز اور مختلف بناتی ہیں‘ وہ ہیں سلطانیٔ جمہور‘ قومیت کی بنیاد پر ریاستی اکائی کا وجود‘ عقل اور دلیل کی بالادستی‘ سائنسی ایجادات‘ قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق کا احترام ‘ انصاف اور مساوات اور شخصی آزادی۔ ان چار ستونوں پر کھڑے عوام دوست نظام کی تعمیر معاشی نظام میں محنت اور سرمایہ میں توازن‘ جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں کی جانب سے محنت کش طبقے کے استحصال پر قدغن‘ فلاحی ریاست کے قیام کی طرف سماج کا (تیز یا آہستہ) سفر یقینی بناتی ہے۔ کتنی بدنصیبی ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ خود کو نچلے درجہ پر لاتے ہیں (یعنی Degrade کرتے ہیں)۔ وہ دورِ جدید کی تمام نعمتوں کو خوش دلی سے اور بڑے ذوق و شوق سے قبول کرتے ہیں‘ ان کی حمایت اور تائید کرتے ہیں‘ مغرب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے جمہوری نظام کے گن گاتے ہیں‘ اس کو چلانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘ جدید سرکاری مشینری کے کل پرزے بنتے ہیں‘ مغرب میں ایجاد ہونے والی ہر شے بہ رضا و رغبت استعمال کرتے ہیں‘ ریڈیو‘ ٹیلی فون‘ ریلوے اور ٹیلی ویژن سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر نئی ایجاد کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے ہیں۔ وہ اچھے مسلمان جو کار‘ ٹرین‘ موٹر سائیکل اور ہوائی یا بحری جہاز میں سفر کرتے ہیں‘ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں‘ ووٹ ڈالتے ہیں‘ جدید ترین علاج کرانے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں‘ مغربی ممالک میں بنائی گئی دوائیاں استعمال کرتے ہیں‘ ریڈیو سنتے ہیں‘ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں‘ قلمی نسخوں کے بجائے جدید چھاپہ خانوں میں چھپی ہوئی کتابیں اور جرائد پڑھتے ہیں‘ موبائل فون اور کمپیوٹر اُن کی زندگی کا جزو لانیفک ہیں۔ وہ دورِ جدید کی صرف ایک اصطلاح ''سوشلزم‘‘ (اشتراکیت) کے مخالف ہیں حالانکہ بہت سے لوگوں کی رائے میں اگر کوئی معاشی نظام خلافِ اسلام ہو سکتا ہے تو وہ ہے سرمایہ داری اور جاگیر داری۔ اگر آپ کو شک ہو تو آپ قرآن پاک کی آیات‘ رسول اللہﷺ کے فرمودات اور کلام اقبال دیکھ لیجیے۔ ایران کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ کا وہ فرمان بھی ملاحظہ ہو کہ وہاں کی ساری زمین کاشتکاروں کو دی جائے نہ کہ فاتحین کو۔ یہ فرمان اس معاملے میں ناقابل اِنکار سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے احتساب‘ جواب دہی اور شفافیت کی بہترین شکل کو عملی صورت دی‘ بیت المال کے ذریعے فلاحی مملکت قائم کی۔ دورِ جدید میں زکوٰۃ کے لیے چاہے آپ ٹیکس کا لفظ ہی کیوں نہ استعمال کریں مگر اس کا مفہوم تو وہی رہے گا جو آنحضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور میں تھا۔ ارب پتی سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کے پاس سرمایہ کے ارتکاز پر ہمیں وہی اعتراض اور تحفظات ہیں جو حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے لے کر شاہ ولی اللہ اور مولانا حسرت موہانی تک کو تھے۔ جس طرح جمہوری نظام اسلام کے بتائے گئے اصولوں کے عین مطابق ہے اس طرح اشتراکی نظام بھی ہے جو ان اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ کالم نگار اجازت چاہتا ہے کہ مذہبی رہنمائوں اور مفکرین سے سوال کرے کہ کیا اُنہیں صرف اشتراکیت کے لفظ پر اعتراض ہے یا اُن معاشی اُصولوں پر جو اشتراکی نظام کی روح ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ صرف دو قوتیں مل کر پیداوار کا باعث بنتی ہیں اور وہ ہیں سرمایہ اور محنت۔ اشتراکیت کی طرح اسلام نے سرمایہ پر محنت کو ترجیح دی اور محنت کشوں (چاہے وہ کاشتکار ہوں یا صنعتی مزدور) کو یہ حق دیا کہ وہ اپنی پیداوار فروخت کر کے (منڈی میں طلب کی سماجی ضرورت کو تسلیم کرکے ) رزق کمائیں‘ بشرطیکہ صرف وہی منافع لیں جو استحصال یا لوٹ مار کے زمرہ میں نہ آتا ہو۔ ایک اور وزنی دلیل یہ دی جانی چاہیے کہ اسلام میں سود دینا یا لینا بالکل حرام ہے۔ اگر آپ اس قرآنی حکم کو مانتے ہیں (جو ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے) تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ سود کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام ایک قدم بھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چل سکتا۔ سرمایہ داری میں سود کا وہی مقام اور کردار ہے جو جسم میں خون کا ہے۔ مگر جس پیداواری عمل میں کسی کے حصہ کا تناسب یہ ہو کہ سرمایہ سو فیصدی ہو اور محنت صفر‘ ایسے عمل سے اسلام کسی شخص کو ایک روپیہ کمانے کا حق بھی نہیں دیتا‘۔ لیکن ہمارے جماعت اسلامی کے اکابرین کی تشریح گوادر میں حق دو تحریک چلانے والے ان مقامی رہنمائوں کی تشریح سے بالکل مختلف ہے۔ گوادر میں جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے مچھلی پکڑنے والوں کی حمایت کی‘ ان کی قیادت کی‘ انہیں کامیابی دلوائی نہ کہ بڑے Fish Trawlers کے مالکوں کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ گوادر (اور کراچی میں) جماعت اسلامی کو اتنی عوامی پذیرائی حاصل ہوئی جو بے مثال ہے اور بائیں بازو کے دوستوں کیلئے مقام عبرت ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ 1966-67ء میں جب میں لوہاری دروازہ (لاہور) میں رہتا تھا (اور برطانوی ویزا کا منتظر تھا) تو ہفت روزہ نصرت (مدیر اور مالک حنیف رامے صاحب تھے) کی ادارتی ٹیم کا اعزازی رکن تھا۔ مجھے فخر اور اس سے زیادہ خوشی ہے کہ میں نے رامے صاحب کے ساتھ مل کر اسلامی سوشلزم کی اصطلاح اور تصور کو اختیار کرکے اور اسے عوامی مقبولیت دلوانے اور پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ بنانے میں اپنا حتیٰ المقدور کردار ادا کیا۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بھٹو صاحب نے برسرِ اقتدار آکر نہ صرف جمہوری روایات کو برُی طرح پامال کیا بلکہ اسلامی سوشلزم کے نظریہ کی بھی بدترین تشریح کی۔ اُن کے زوال کے بعد اسلامی سوشلزم کا نظریہ بھی گہنا گیا۔ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد کوئی قابلِ ذکر سیاسی جماعت اسے اپنے منشور کا حصہ نہیں بناتی۔ سوشلسٹوں کو اسلامی سوشلزم کے پہلے لفظ پر اعتراض ہے اور اچھے مسلمانوں کو دوسرے لفظ پر۔ مجھے لگتا ہے کہ اب صرف دو لوگ رہ گئے ہیں جو آج بھی اسلامی سوشلزم کا پرچم اُٹھائے ہوئے ہیں‘ ایک حمید بھاشانی ہیں جو میری طرح 'دنیا‘ میں کالم لکھتے ہیں اور کینیڈا میں رہتے ہیں‘ دوسرا شخص یہ بوڑھا کالم نگار ہے جو برطانیہ میں رہتا ہے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا‘ میں نہیں جانتا کہ پاکستان میں ہم دونوں کا ایک بھی ہم خیال ہے کہ نہیں؟ ہمارے موجودہ معاشی نظام کا بحران جاگیرداری اور سرمایہ داری کی مکمل ناکامی کی وجہ سے ہے۔ علاج صرف ایک ہے اور وہ ہے (اسلامی اور سوشلزم)آپ آج نہیں تو کل یہ سچائی مان لیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اُس وقت آنکھیں کھولیں جب شہر کو سیلاب بہا کر لے گیا ہو اور اتنی دیر ہو چکی ہو کہ پھر علاج بھی ممکن نہ رہے۔ اس مرحلہ کو انگریزی میں Too Late کہتے ہیں۔ 1971 ء کی طرح آج پھر پاکستان کو کئی طرح کے خطرات درپیش ہیں۔ ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہم اُس شدید اور سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں جو انصاف‘ مساوات‘ قانون کی حکمرانی‘ قوتِ اُخوتِ عوام‘ جمہوریت اور اسلامی سوشلزم کی عدم موجودگی اور فقدان سے پیدا ہوا ہے۔ خدارا آنکھیں کھولیں۔ برطانیہ اور کینیڈا میں رہنے والے دو محب الوطن پاکستانیوں (بشرطیکہ اُن کے پاکستان سے باہررہنے کے جرم کی معافی مل جائے ) کی دردمندانہ فریاد سن لیں اور خود کو بچا لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں