چند توجہ طلب خبریں اور تازہ ہوا کا جھونکا

میری فہم کے مطابق ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جو چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں‘ وہ ہیں: مؤثر اور فعال مقامی حکومتوں کا قیام‘ صوبوں کے بجائے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیا جانا‘ صدارتی نظام کا قیام‘ متناسب نمائندگی کو یقینی بنانا‘ تعلیمی اور قانونی نظام میں انقلابی اصلاحات لانا‘ ہر قسم کی مراعات یعنی سبسڈی کا خاتمہ‘ ہر برسر روزگار شہری (بشمول تمام چھوٹے بڑے دکاندار‘ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار اور پراپرٹی کی خرید و فروخت سے منسلک افراد) کو ٹیکس کی ادائیگی کا پابند بنانا‘ ہر حالت میں متوازن بجٹ بنانا تاکہ حکومت کو کسی قرض کی حاجت نہ رہے‘ چھوٹے ڈیم کثیر تعداد میں بنانا۔ اگر ہم سری لنکا نہیں بننا چاہتے تو ہمیں ان اصلاحات پر جلد از جلد عمل کرنا پڑے گا۔ وقت کم ہے اور کام بہت زیادہ۔ ہم یہ معرکہ صرف قوتِ ارادی ہی سے سر کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے FAO یعنی عالمی ادارہ برائے خوراک اور زراعت کے مطابق پاکستان میں تقریباً 40ملین (چار کروڑ) لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یعنی ان بدنصیب افراد کو دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کا خوشحال طبقہ مال مَست ہے۔ اُسے نہ علم ہے اور نہ پروا کہ ملک کا غریب طبقہ کس حال میں ہے۔ ہر سال غذائی قلت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ غربت تو برصغیر پاک و ہند کی معاشی زندگی کا کئی صدیوں سے مستقل‘ بے حد تکلیف دہ اور شرمناک پہلو رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت سے پہلے سلاطین دہلی کے دور میں‘ پھر مغلوں کے دور میں اور پھر انگریزوں کے دورِ حکومت میں۔ کبھی وقت پر بارش نہ ہونے اور فصلوں کی پیداوار کے بری طرح متاثر ہونے کا نتیجہ ہولناک قحط کی صورت میں نکلتا تھا تو کبھی بدترین سیلاب کی وجہ سے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اس کی ایک بدترین مثال 1943-44ء میں آنے والا قحطِ بنگال تھا۔ جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 30 لاکھ افراد‘ جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے‘ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ وہ جن حالات میں ہلاک ہوئے‘ وہ انتہائی تکلیف دہ اور ناقابلِ بیان ہیں۔ میں کئی برسوں سے اس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ابھی تک صرف گنتی کے چند صفحات ہی لکھ پایا ہوں۔
جب بھی قحطِ بنگال کی واقعاتی رپورٹ‘ تصاویر اور زین العابدین کے Sketches دیکھتا ہوں تو آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ پنجاب میں رہنے والوں (خصوصاً شمالی پنجاب والوں) کو قطعاً اندازہ نہیں کہ تھر اور چولستان کے صحرائوں میں لوگ قحط و خشک سالی کے باعث کس عذاب کا شکار ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ لڑنے اور ایک دوسرے کے گریباں چاک کرنے میں اس طرح شب و روز مصروف ہیں کہ اگر آپ سیاسی رہنماؤں کی تقاریر سنیں تو آپ کو اُن میں عوامی مشکلات کا تذکرہ مشکل ہی سے ملے گا۔ دکھوں کا مداوا کیا ہے؟ راہِ نجات کیا ہے؟ ہم معاشی گرداب سے نکلیں تو کیونکر؟ اس کا اشارتاً بھی کوئی ذکر نہ ملے گا۔ (ماسوائے کراچی میں حافظ نعیم الرحمن اور گوادر کی حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمن اور ماسی زینی کی تقاریر کے)۔
ابھی میں روم سے آنے والی اور ذہنی سکون کو درہم برہم کر دینے والی ایک خبر کے صدمے سے سنبھل نہ پایا تھا کہ وطن عزیز سے آنے والی ایک خبر نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی اور وہ یہ تھی کہ حکومت نے گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے افسران کو ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایگزیکٹو الاؤنس 30 جون 2022ء سے جاری بنیادی تنخواہ پر دیا جائیگا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تعینات کردہ افسران کے لیے ہوگا۔ حکومتی فیصلے کے تحت وفاقی دارالحکومت میں تعینات انتظامی افسران بھی ایگزیکٹو الاؤنس لینے کے اہل ہوں گے جبکہ ڈیپوٹیشن پر اور بیرونِ ملک تعینات افسران ایگزیکٹو الاؤنس کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس حکومتی اقدام سے ہمارے قومی خزانے پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں کہ معاشی بحران کے حوالے سے بھی مزید خبریں موصول ہوئیں۔ لگتا ہے کہ ہمارا معاشی نظام ریت کی دیوار بن گیا ہے‘ جو تیزی سے انہدام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شوکت ترین‘ حفیظ شیخ‘ حفیظ پاشا‘ اسحاق ڈار‘ اسد عمر اور اب مفتاح اسماعیل‘ یہ سب ماہرین معیشت ایک جیسی خوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ جدید اصطلاح کے مطابقNEO-Liberal معاشی نظام پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ معاشی نظام محنت کشوں کو مزید غریب اور سرمایہ داروں کو مزید امیر بناتا ہے۔ یہ نظام کسانوں‘ کاشتکاروں اور مزارعین کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھتا۔ اس کی سارا مراعات‘ ساری سبسڈیز امیر صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے لیے ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے معاشی ماہرین نے آج تک اس سوال کا جواب دیا ہے کہ دنیا بھر میں ہماری زرعی پیدوار فی ایکڑ سب سے کم کیوں ہے؟ ایک زرعی ملک اربوں ڈالر کی زرعی اجناس کیوں درآمد کرتا ہے؟ ہم سیم اور تھور سے ناقابلِ کاشت ہو جانے والی لاکھوں ایکڑ زمین کو جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے قابلِ کاشت کیوں نہیں بناتے؟ ہم کھاد اور بیج کے معاملہ میں خود کفیل کیوں نہیں بن سکتے؟ ہم دیہات میں جا کر دیہی نوجوانوں کو جدید زرعی علوم کیوں نہیں سکھاتے؟ ہم لاکھوں نیم خواندہ افراد کو فنی تربیت دے کر اپنی ہنر مند افردی قوت کیوں نہیں بڑھاتے؟ ہم بارش اور سیلابی پانی کو کیوں محفوظ نہیں کر سکتے؟ ہم آبی ذخیرے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم‘ جھیلیںاور آبی ذخائر کیوں نہیں بناتے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ اب دنیا بھر کے سائنس دان بڑے آبی ذخیرے بنانے کی افادیت پر بڑے سوالیہ نشان لگا رہے ہیں؟ کیا ہم یہ قانون نہیں بنا سکتے کہ ہر شخص سال میں کم از کم ایک بار کتاب مقدس پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اُٹھائے کہ وہ تمام ملکی قوانین کا احترام کرے گا۔ اپنے گلی محلے کو صاف رکھے گا۔ گھروں کا فالتو سامان اور فالتو خوراک ضرورت مندوں کو دے گا اور اپنے حصے کا ٹیکس پوری ذمہ داری سے ادا کرے گا۔ وہ قانون شکنی نہیں کرے گا۔
جو لوگ اس کالم نگار کے ہم عصر (افسوس کہ وہ اب دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں) ہیں‘ اُنہیں ساٹھ کے عشرے میں ہمارے قومی اُفق پر موجود سب سے روشن ستارے کا بخوبی علم ہوگا اور وہ تھے: ایم آر کیانی۔ اُن دنوں مغربی پاکستان‘ چاروں صوبوں پر مشتمل ایک ہی صوبہ (ون یونٹ) تھا اور اس کی صرف ایک ہی ہائی کورٹ تھی۔ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی میں اس عدالت کے مقامی بنچ تھے۔ اس عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس کیانی صاحب تھے۔ وہ نہ صرف بلند پایہ منصف تھے بلکہ سماجی تقاریب میں اپنی ظرافت کے پھول بھی کھلاتے رہتے تھے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے حبس زدہ ماحول میں وہ تازہ ہوا کا بے حد خوشگوار جھونکا تھے۔ میرے ایک دوست‘ جو میری طرح ہی گمنام تھے‘ میری طرح ہی اندرونِ شہر کے رہنے والے تھے‘ میری طرح ہی چیونٹی اور ہاتھی کے واضح فرق کو ملحوظ نہ رکھنے والے سیاسی کارکن تھے اور جن کا نام قمر یورش تھا‘ وہ اپنی تقریر میں ایک بے ضرر شعر پڑھنے پر نقضِ امن کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے۔ ضمانت کی درخواست کی سماعت اِنہی جسٹس کیانی صاحب نے کی۔ جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں