کیا ہمارے دکھوں کا مداوا ممکن ہے؟

میرے دوست قمر یورش‘ خواجہ رفیق شہید کے زیر انتظام ہونے والے ایک بڑے جلسہ میں تقریر کر رہے تھے۔ تقریر بھی وہ جو ہمیشہ شورش کاشمیری کی ہو بہو نقل ہوتی تھی۔ بے حد جذباتی‘ شعلہ فشاں۔ لگتا تھا کہ مقرر شدتِ جذبات سے بے ہوش ہو جائے گا۔ وہ تقریر کی دعوت قبول کرنے سے پہلے ہمیشہ میرا مشورہ لینے آتے تھے۔ میں اُنہیں (ان کی یقینی گرفتاری کی خطرے کے پیشِ نظر) جلسہ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیتا تھا۔ جو اُنہوں نے دو برسوں کی قربت میں ایک بار بھی قبول نہ کیا مگر نہ وہ میری رائے مانگنے سے باز آئے اور نہ میں دینے سے۔ اُنہوں نے ایک تقریر میں کسی گمنام شاعر کا ایک شعر اتنی بار پڑھا کہ سننے والوں کو زبانی یاد ہو گیا۔ وہ مارشل لاء کے اُس دور میں اُس شعر کو برسرِ عام پڑھنے کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے۔ میاں محمود قصوری مرحوم کا بھلا ہو کہ وہ ایک بار پھر قمر یورش کی ضمانت پر رہائی کیلئے ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ عدالتی کارروائی اس کالم نگار نے بھی سنی۔ کیانی صاحب نے وکیل استغاثہ سے پوچھا کہ وہ شعر کون سا تھا‘ جو قمر یورش کی گرفتاری کا موجب بنا؟ عدالت میں سناٹا طاری تھا۔ جب یہ شعر بلند آواز میں سنایا گیا ؎
دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ
جسٹس کیانی کا قہقہہ کمرۂ عدالت میں گونجا۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ اتنا اچھا شعر دوبارہ سنایا جائے۔ سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی میرا منہ اتنی دیر سے گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ بھی اُس پاکستان کی طرف دیکھیں جو قائداعظم نے بنایا تھا یا بنانا چاہتے تھے۔ اب تو ساری عدالت کشتِ زعفران بن گئی۔ قصوری صاحب کو ایک لفظ بھی نہ بولنا پڑا اور عدالت نے ملزم کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ اس واقعہ کو تقریباً 56برس بیت چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور دم بخود ہیں۔ ایک دوسرے سے یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتے کہ بھائی جان! بتائیے کہ ہم موجودہ خراب ترین صورتحال میں پہنچے تو کیونکر؟ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ ہم یا ہمارے حکمران؟ ہمارے صحافی یا ہمارے ادارے؟ پاکستان کا 75واں یومِ آزادی بھی گزر گیا مگر صد افسوس کہ مجھے خود احتسابی اور خود شناسی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سادہ الفاظ میں ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیانتداری سے (غالباً بہادری بھی درکار ہوگی) اپنی غلطیوں (اور وہ بھی فاش) کو مان لیں اور اس سال گزر جانے والے 14 اگست کے بعد ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔ ہمارا حکمران طبقہ چاہے جتنا برا منائے مگر ہم سب مل کر یہ اعلان جاری کریں کہ بس! بہت ہو گیا‘ اب ہم نئے سرے سے اپنے ملک کی تعمیرو ترقی کا سفر شروع کریں گے۔ سکیورٹی کے بجائے فلاحی مملکت کا قیام‘ انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی‘ اختیارات اور وسائل کو سب سے نچلی سطح تک پہنچانے کی ضمانت دیں۔ ہتھیاروں کے ساتھ عوام کی طاقت پربھی انحصار کریں۔ چھابڑی فروشوں‘ ریڑھی لگانے والوں‘ کسانوں اور مزدوروں‘ اساتذہ اور صحافیوں‘ گوادر کے ساحل پر مچھلی پکڑنے والوں سے لے کر کوئلوں کی کان میں کام کرنے والوں کو انسانی حقوق‘ انصاف اور معاشی مساوات کی فراہمی یقینی بنائیں۔ حق دو تحریک کی ماسی زینی اور مولانا ہدایت الرحمن سمیت ہر مکتب فکر کے نمائندہ کی اقتدار میں شرکت قبول کریں۔ تمام انسانی حقوق (جو قبل از مسیح میں اہلِ یونان نے متعارف کرائے اور ڈیڑھ ہزارسال قبل اُن پر اسلام نے مہر تصدیق ثبت کی) کا احترام کریں۔ زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی احترام کریں۔ اُن کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں (جنہوں نے یہ دولت بطور مافیا سرکاری مراعات سے فیض یاب ہو کر کمائی) پر اتنا ہی بھاری ٹیکس عائد کیا جائے جو یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لگایا جاتا ہے۔ کالم نگار ماہر معیشت نہیں مگر ایک بنیادی سچائی جانتا ہے۔ جو کھیت کھلیان میں کاشتکاری کرنے والا ہر کاشتکار بھی جانتا ہے کہ 1947ء سے لے کر 1970ء تک کے پاکستان کی بنیادوں کو مشرقی پاکستان سے ہونے والی ناانصافی اور احساس ناانصافی نے کھوکھلا کر دیا۔ نتیجہ؟ ملک 1971ء میں ٹوٹ گیا۔ اس سے بڑا المیہ اور کون سا ہو سکتا تھا؟ 1971ء سے لے کر 2002ء تک کا پاکستان کن خطوط پر چلایا گیا‘ وہ آپ کے سامنے ہے‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اب اگر ہم پاکستان کو مزید کسی المیے سے بچانا چاہتے ہیں (جو ہمارا اوّلین مقدس فرض ہے) تو اس سوال کا جواب ڈھونڈیں جو اس کالم کا عنوان ہے۔
میری طرح جو شخص 70ء برس درجہ اول کی کتابیں پڑھتا رہے‘ اُس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ 85 برس کی عمر اور اچھی صحت کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر دوسرے نہیں تو تیسرے درجہ کی کتاب یا کتابیں ضرور لکھے گا۔ اس وقت تک انگریزی میں میری چار کتابیں لندن میں شائع ہو چکی ہیں اور اعلیٰ معیار کی نہ ہونے کے باوجود اُنہیں عالمی پذیرائی ملی ہے۔ اُردو میں دو (افکار تازہ اور ''دنیا‘‘ میں میرے کالموں کا ایک مجموعہ) زیر طباعت ہیں۔ جن دوستوں کو میری زندگی میں آنے والے مدوجزر کا علم ہے اُنہوں نے برادرانہ مشورہ دیا کہ میں اپنی سوانح حیات لکھوں۔ خصوصاً لندن میں مظہر ترمذی صاحب نے۔ اُن کا مشورہ سر آنکھوں پر مگر نہ میرا دل مانتا ہے اور نہ دماغ۔ سنا ہے کہ قدرت اللہ شہاب اپنی آخری کتاب لکھنا چاہتے تھے (اور نہ لکھ سکے) اُس کا عنوان ہونا تھا ''ایک کامیاب انسان کی داستان‘‘۔ میں سوانح حیات لکھتا تو اُس کا عنوان مندرجہ بالا عنوان کے بالکل متضاد رکھتا یعنی ایک ''ناکام انسان کی داستان‘‘۔ میری ناکامیوں کی لمبی فہرست ہے۔ 1946ء میں میں نے بڑے جوش و خروش اور ذوق و شوق سے قیام پاکستان کے مطالبہ کو منوانے والے مظاہروں میں بھرپور حصہ لیا۔ پولیس کے ہاتھوں لاٹھی چارج سے اس لیے بچ گیا کہ میرا وزن ان سے کئی گنا کم تھا اور میں اُن سے کہیں تیز بھاگ کر جان بچا سکتا تھامگر اشک آور گیس سے ہر مظاہرہ میں پالا پڑا۔ آنکھوں سے بے تحاشا جلن پیدا کرنے والے آنسو بہتے تھے مگر جب ہمارے خوابوں کی سحر طلوع ہوئی تو پتا چلا کہ وہ شب گزیدہ ہے۔ یہ دیکھ کر اُس وقت میرے جو آنسو بہے تو میں نے اُنہیں اپنی پہلی ناکامی کا اقرار سمجھا۔ کالج کی تعلیم شروع کی تو ایف ا ے‘ بی اے اور ایم اے کے درجوں میں تحصیل علم سے بدترین کوتاہی کی۔ مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ جزوقتی طالب علم تھا۔ یونین کے انتخابات‘ بین الکلیاتی مباحثے‘ سیر و سیاحت‘ کرکٹ اور چھ میل کی دوڑ کی مشق۔ ایف اے اور بی اے (وہ بھی ایک سال ضائع کرنے کے بعد) تھرڈ ڈویژن اور ایم اے (دو سال ضائع کرنے بعد) بمشکل سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ یہ دوسری ناکامی تھی۔ سول سروس کے مقابلہ کا امتحان دیا تو سارے پرچے بہت اچھے ہوگئے مگر جب انگریزی مضمون لکھنے کی باری آئی تو میں نے سارے موضوعات چھوڑ کر ایک سیاسی موضوع‘ امریکہ کے سامراجی کردار پر کڑی تنقید کی۔ (میں یہ بھول گیا کہ یہ سرکاری ملازمت میں داخلے کا امتحان ہے نہ کہ موچی دروازے کا جلسہ)۔ اتفاقاً اس پرچہ کا ممتحن ایف سی کالج لاہور کا ایک امریکی پروفیسر تھا۔ اس نے صفر نمبر دینے کی خوشی حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کالم نگار انگریز کی بنائی ہوئی عوام دشمن انتظامی مشینری کا پرزہ بن جانے سے بال بال بچ گیا مگرقطع نظر اس کے‘ امتحان میں فیل ہو جانے کو بلاتوقف تیسری ناکامی مان لینا چاہیے۔ ناکامیاں تو اور بھی ہیں مگر لکھنے کی جگہ نہیں بچی۔ بقول غالبؔ:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرتِ نگاہ ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں