یورپ کے مہم جُو، جنگجو، لٹیرے اور بدمعاش

مذکورہ بالا افراد کے لیے ان سے زیادہ نرم الفاظ استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اُن کی مہم جوئی کا واحد مقصد لوٹ مار کرکے دولت کمانا ہوتا تھا۔ اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی سے آٹھ یورپی حکومتوں (برطانیہ‘ فرانس‘ سپین‘ پرتگال‘ ہالینڈ‘ بلجیم‘ جرمنی اور اٹلی) نے ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کرکے اُنہیں اپنا محکوم اور غلام بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج کے اس کالم میں ہم ان حکومتوں پر نہیں بلکہ ان افراد پر ایک نظر ڈالیں گے جن کے چار اسم ہائے صفت اس کالم کے عنوان میں بیان کیے گئے ہیں۔ میرے خیال میں یورپی اقوام کے بنائے ہوئے نو آبادیاتی نظام کی تین صدیوں اور تین براعظموں پر پھیلی ہوئی دھند اتنی گہری‘ درد ناک‘ عبرت ناک‘ تکلیف دہ اور ہمہ گیر ہے کہ ہماری نظر سے وہ یورپی افراد اوجھل ہو گئے ہیں جو مہم جُو‘ جنگجو‘ لٹیرے اور بدمعاش تھے۔ آغاز صلیبی جنگوں سے ہوا۔ 1104ء میں یورپی صلیبی حملہ آوروں نے فلسطین کے ساحلی شہر عکا (Acre) پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کی کل تعداد نو بنتی ہے۔ تیرہویں صدی کے آخر تک تمام صلیبی حملہ آوروں کو فلسطین کی سرزمین سے نکالا جا چکا تھا۔ پہلی صلیبی جنگ میں یورپی حملہ آوروں کی فوج بے روزگار لفنگوں پر مشتمل تھی۔ ان کے دو لیڈرز تھے۔ ایک Peter the Hermit‘ یہ وہ شخص تھا جو اپنے ہاتھ میں تلوار پکڑنے سے پہلے اتنا گوشہ نشین درویش تھا کہ یہ اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ دوسرے کا نام اس سے بھی زیادہ دلچسپ تھا‘ وہ تھا Walton the Penniless‘ یہ شخص اس حد تک مفلوک الحال اور قلاش تھا کہ اُس کی مفلوک الحالی اس کے نام کا حصہ بن گئی۔ یورپی معاشرے کے بدترین افراد کو یروشلم اور اُس کے نواحی علاقوں پر حملے کرکے وہاں کے مقدس مقامات کو 'infidels‘ سے آزاد کرانے پر جس شخص نے اکسایا یا آمادہ کیا وہ یورپی کلیسا کا سربراہ تھا اور اُس کا نام Urban-ii تھا۔ ایک ہزار سال سے یورپ میں آنے والے مسیحی افراد یروشلم میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بلا روک ٹوک جا سکتے تھے۔ فلسطین پر عربوں کے قبضہ کے بعد بھی صلیبیوں کو وہاں جانے‘ رہنے‘ زیارت اور عبادت کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی تھی۔
قارئین شاید یقین نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1212ء تک یورپ میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی جنون اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ جب بڑی عمر کے صلیبی مسلمانوں پر حملے کرکے تھک ہار کر بیٹھ چکے تو اُن کے بچوں نے‘ جن کی تعداد ہزاروں میں تھی‘ اپنی گردنوں میں صلیبیں آویزاں کرکے یروشلم پر چڑھائی کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Children's Crusade کہا جاتا ہے‘ لیکن چونکہ تلواروں سے لڑنا ان بچوں کے بس کا کام نہ تھا‘ اس لیے اُن میں سے بہت سے مارے گئے۔ کچھ غلام بنا لیے گئے اور جو بچ گئے وہ جان بچا کر واپس اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ گھر لوٹنے والوں کے والدین نے اُن کی واپسی پر سکھ کا سانس لیا۔ تقریباً ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد کرسٹو فر کولمبس ہندوستان کی تلاش میں 1492ء میں جزائر غرب الہند جا پہنچا۔ انگلستان کیوں پیچھے رہتا؟ ایک بحری قزاقWalter Raleighنے شمالی امریکہ میں ورجینیا میں انگریزوں کی پہلی نو آبادیاتی کالونی قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس مہم جوئی میں وہ اگرچہ ناکام رہا مگر ملکۂ برطانیہ نے اسے Sirکا خطاب دیا۔
1500ء میں ایک اور بحری مہم جُو پیدرو کیبرال ہندوستان کی تلاش میں بھٹکتا ہوا جنوبی امریکہ کے سب سے بڑے ملک برازیل کے ساحل پر جا پہنچا اور اس نے دیدہ دلیری اور غنڈہ گردی سے اعلان کیا کہ اب اس خطۂ زمین پر پرتگال کا تسلط اور قبضہ ہو گیا ہے۔ برازیل رقبے میں پرتگال سے سینکڑوں گنا بڑا ملک ہے مگر وہاں صرف 500 ہسپانوی افراد نے Hernan Cortes کی قیادت میں 1519ء میں ظلم و تشدد‘ بربریت اور لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ وہ جنوبی امریکہ میں گھوڑوںپر‘ جو مقامی آبادی نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے‘ سوار ہو کر حملہ آور ہوا اور ایز ٹیکس (Aztecs) سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا اور کئی ہزار افراد کو قتل کر دیا۔ بدقسمتی سے ایز ٹیکس کے بادشاہ مونٹے زُوما کا راسخ عقیدہ تھا کہ مستقبل قریب میں طاقتور صفات کا حامل ایک دیوتا کوئٹز الکوٹل نمودار ہوگا اور اس کی سلطنت پر برکتوں کی بارش کرائے گا۔ بادشاہ نے حملہ آوروں کے سردار کورٹز جیسے سب سے بڑے بدمعاش کو مذکورہ بالا متوقع دیوتا سمجھا اور بخوشی اپنی گرفتاری پر رضا مند ہو گیا۔ ہسپانوی حملہ آور منوں کے حساب سے برازیلین سونا اور چاندی لوٹنے میں کامیاب ہوئے۔ جب ان کے لوٹ مار کے سامان سے بھرے ہوئے بحری جہاز سپین جاتے ہوئے انگلستان کے جنوبی ساحل کے قریب سے گزرتے تھے تو ملکہ ایلزبتھ کے دور میں انگریز بحری قزاق ان پر حملہ کرکے انہیں لوٹ لیتے تھے۔ پنجابی میں اسے کہتے ہیں ''چوراں نوں پے گئے مور‘‘۔
سولہویں صدی کے شروع میں ہسپانوی مقبوضات جنوبی امریکہ کے ممالک میکسیکو اور پیرو سے پھیل کر کیلیفورنیا‘ ایری زونا اور نیو میکسیکو‘جو اَب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حصہ ہیں‘ تک جا پہنچیں۔ آج جنوبی امریکہ کے سارے ممالک ماسوائے برازیل کے جہاں پرتگیزی بولی جاتی ہے‘ کی قومی اور سرکاری زبان ہسپانوی ہے۔ مقامی زبانوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ یہی وہ خدشہ ہے جو کالم نگار کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے بارے میں لگا رہتا ہے۔
1502ء سے مہم جُو ٹھیکیداروں اور مجرموں کے ٹولے کے سرداروں نے افریقہ سے معصوم اور بے گناہ افراد کو حملہ کرکے یا دھوکے سے گرفتار کرکے اور غلام بنا کر امریکہ میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔ 1505ء میں یورپ کے ایک ملک پرتگال کے مہم جُو لٹیروں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر بھی اپنے خونیں پنجے گاڑ دیے۔ 1520ء میں ایک اور مہم جُو فرڈینینڈ میگلین افریقہ کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ بحری سفر کرتے ہوئے جنوبی افریقہ میں ''کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ کو عبور کرکے جزائر فلپائن جا پہنچا۔ یہ مہم جوئی اسے بڑی مہنگی پڑی کیونکہ وہ مقامی لوگوں کی مزاحمت کا مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ 1542ء میں پرتگیزی مہم جُو دو سمندروں (بحر ہنداور اوقیانوس) کو عبور کرکے مشرق بعید میں جاپان جا پہنچے۔ ان سے سات برس بعد مسیحی مبلغوں نے جاپان میں لوگوں کو اپنے مذہب کا پیرو کار بنانا شروع کر دیا۔ 1682ء میں پرتگیزی مغربی افریقہ میں گولڈ کوسٹ (آج کے گھانا) کے ساحل پر قابض ہو گئے۔ 1698ء میں واسکوڈے گاما سارے افریقہ کا چکر کاٹ کر ہندوستان کے ساحل تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو گیا۔
افریقہ سے تین صدیاں مردوں اور عورتوں کو غلام بنا کر امریکہ اور جزائر غرب الہند میں فروخت کرنے کا مذموم کاروبار جاری رہا جو مہم جُو افراد نے صرف منافع کمانے کے لیے جاری رکھا۔ آخر کار ایک انسان دوست انگریز رکن پارلیمنٹ جس کا نام وِلبر فورس تھا‘ کا بھلا ہو جس کی سر توڑ کوشش سے غلاموں کی خرید و فروخت 1791ء میں غیر قانونی قرار دی گئی مگر اس کے باوجود غلاموں کی فروخت کا مکمل خاتمہ ہونے میں مزید ایک سو سال لگ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں