یورپی بالادستی اور غلبے کا نیا اور پرانا روپ

کون نہیں جانتا کہ ہندوستان پر قبضہ انگریزوں کی حکومت نے نہیں بلکہ مہم جُو تاجروں کی ایک کمپنی‘ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا۔رابرٹ کلائیو ان کا سردار تھا۔ ہندوستان پر اس کمپنی کا تسلط 1857ء میں پہلی جنگِ آزادی تک برقرار رہا‘ جس کے بعد عنانِ اقتدار برطانوی حکومت نے سنبھال لی۔ اُنیسویں صدی میں یورپی اقوام میں تیسری دنیا کے غریب‘ قبیلوں میں بٹے ہوئے‘ منتشر‘ غیرمنظم اور قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک پر قبضے اور وہاں کی دولت ہتھیانے کی ہوس نے اتنا زور پکڑا کہ مہم جُوتاجروں اور جنگجو لٹیروں کی رال بھی ٹپک پڑی اور وہ بھی وہاں مار دھاڑ اور بدمعاشی کرنے پہنچ گئے۔ اس موضوع پر میں نے حال ہی میں جب Tom Vaizey کا ایک دلچسپ مضمون پڑھا تو اس موضوع پر کالم لکھنے کا خیال آیا۔ اُنہوں نے ایک گمنام کردار کا تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ فرانسیسی فوج کا ایک افسر‘ ڈیوڈ ڈی میرینا‘ سرکاری ملازمت چھوڑ کر ویتنام کے شمال میں جنگلات سے گھرے ہوئے پہاڑی علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں وہ ایک دوسرے سے مستقل جنگ و جدل کرنے والے قبائل میں صلح کرا کے خود ان کا بادشاہ بن گیا جس کے بعد وہ اپنے بنائے ہوئے تخت پر براجمان ہو گیا‘ سر پر ایک تاج سجالیا‘ اپنی حکومت کے ڈاک ٹکٹ چھپوا لیے‘ اپنے وفادار ساتھیوں کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے اس نے انہیں تمغے دیے‘ پڑوسی حکومتوں سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی‘ اپنی ذاتی فوج بھی بنالی‘ دربار لگا کر تنازعات کا فیصلہ کرنے لگا‘ مجرموں کو سزائیں دینے لگا‘ ایک بدنصیب یورپی خاتون اُس کے ہاتھ لگ گئی تو اُس نے اسے ملکہ بنا لیا۔ لیکن بادشاہ سلامت کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس دوران وہ یورپی سرمایہ کاروں کو ویتنام میں سرمایہ کاری کی مسلسل دعوت دیتا رہا لیکن اس کی واحد کامیابی یہ تھی کہ اس کے کہنے پر ایک فرانسیسی بحری جہاز ویتنام سے ہانگ کانگ تک کا سفر کرنے پر تیار ہو گیا اور بادشاہ سے تمغۂ امتیاز کے حصول کا حق دار ٹھہرا۔ آج پیرس کے ایک عجائب گھر میں اس بادشاہ کے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ اور اُس کے دیے گئے چند بچے کھچے تمغے موجود ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ رُدیارڈ کپلنگ نے The man who would be King کے نام سے جو ناول لکھا تھا‘ اُس کی کہانی کی بنیاد مذکورہ بالا جعلی بادشاہ کی مہم جوئی پر رکھی گئی تھی۔ اس مختصر بادشاہت کا نام تھا Kingdom of Seddongs۔
سولہویں صدی میں پرتگیزی بدمعاشوں نے افریقہ سے کوڑیوں کے دام مظلوم مردوں اور عورتوں کو غلام بنا کر سفید فام جاگیرداروں کے ہاتھ فروخت کرکے بھاری رقم کمانی شروع کر دی۔ سترہویں صدی میں پہلے ولندیزی اور اس کے بعد فرانسیسی‘ برطانوی‘ ڈینش اور سویڈش بدمعاش بھی اس میدان میں اترے۔ مستند اور قابلِ اعتبار تحقیق کے مطابق 1650-1850ء کے درمیان‘ دو صدیوں میں جن افریقی لوگوں کو غلام بنا کر بحر اٹلانٹک کے پار شمالی امریکہ اور جزائرِ غرب الہند میں فروخت کیا گیا‘ اُن کی تعداد 12.5 ملین تھی۔ غلاموں کی تجارت میں کسی یورپی ملک کی حکومت کا کوئی کردار نہ تھا۔ یہ سو فیصدی یورپ کے بدترین اور ظالم ترین افراد کا کاروبار تھا۔ برطانوی افراد کا کردار اس لحاظ سے زیادہ شرمناک تھا کہ وہ ہندوستان‘ جنوب مشرقی ایشیا سے افیون خرید کر یا خود پوست کے پودوں کی کاشت کرکے بڑے پیمانے پر چین پہنچاتے تھے۔ ہندوستان پر قبضہ کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی اس مذموم کاروبار میں پیش پیش تھی۔ آپ کو شاید یقین نہیں آئے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ جب چین کی حکومت نے افیم کی بلا روک ٹوک درآمد پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے‘ برطانوی بحریہ کی مدد سے چین پر حملہ کر دیا۔ اس وقت چین اور برطانوی سامراج کے درمیان دو جنگیں لڑی گئیں جو Opium Wars کہلاتی ہیں۔ پہلی جنگ 1839-42ء اور دوسری1856-60 ء کے درمیان لڑی گئی۔ اس وقت چین بے حد کمزور تھا۔ وہ دونوں جنگوں میں شکست کھا کر مجبور ہو گیا کہ انگریز حملہ آوروں اور منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ایسے یکطرفہ معاہدے کرلے جو اس کے مفاد کے سراسر خلاف تھے۔ یہ سطور لکھی جا چکیں تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ تو ویسی ہی صورتحال تھی جیسی پاکستان کو آئی ایم ایف سے اُس کی مرضی کی شرائط پر قرض لینے کے لیے در پیش تھی۔ جب سفید فام آباد کار آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ کینیڈا اور شمالی امریکہ پہنچے تو ان چاروں ملکوں میں مقامی آبادی لاکھوں میں تھی‘ جس نے بڑی چاہت اور چاؤ سے اپنے مہمانوں کا استقبال کیا اور نئی سرزمین پر قدم جمانے میں ان کی ہر ممکن مدد کی۔ لیکن دوسری طرف مہمانوں نے میزبانوں کا شکریہ ان کا قتل عام کرکے‘ ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کرکے ادا کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہالی وُڈ میں بنائی جانے والی تمام فلموں میں مقامی آباد کاروں یا ریڈ انڈینز (انہیں یہ نام بھی نئے آباد کاروں نے دیا) کو بے رحم‘ وحشی اور ظالم جبکہ نئے آباد کاروں کو بلند کردار کا حامل اور مہربان دکھایا جاتا رہا ہے۔
ردیارڈ کپلنگ‘ جس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ لاہور میں گزارا اور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی ادارت کی‘ نے ادب میں نوبیل انعام حاصل کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ایشیا اور افریقہ میں رہنے والوں کو ''مہذب‘‘ بنانا سفید فاموں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے مطابق یہ 'وائٹ مینز برڈن‘ ہے۔ کالم نگار نے سب سفید فام لٹیروں کی فہرست بنائی تو جس شخص کا نام سرفہرست تھا‘ وہ تھاCecil Rhodes۔ وہ جنوبی افریقہ سے ہیروں کی کان کنی سے شروع ہوا اور پھر وسط افریقہ میں اتنے وسیع و عریض علاقہ پر قبضہ کر لیا کہ اُس کا نام ہی 'رہو ڈیشیا‘ رکھ دیا گیا۔ سفید فاموں نے انیسویں صدی کے آخری برسوں میں سب سے بڑے مقامی قبیلے Zulus سے ایک خونریز جنگ میں کامیابی حاصل کرکے وہاں نسل پرستی کی بنیاد رکھی تھی۔ بہت سے آزادی پسندوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سز سنا دی گئی۔ نسل پرست حکومت تقریباً سو سال برسر اقتدار رہی۔ انگولا اور رہوڈیشیا کی سرزمین سے لے کر شمالی افریقہ میں الجزائر تک سفید فاموں کے سامراجی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد میں قریباً پچاس ہزار لوگوں نے جان کی قربانی دی۔ مشرقی افریقہ کے ایک ملک کینیامیں جامو کینیاٹا کی قیادت میں 'مائو مائو‘ تحریک چلی تو اُسے کچلنے کے لیے سفید فام حکمرانوں نے جو مظالم ڈھائے وہ اتنے ہولناک ہیں کہ نہ مجھ میں لکھنے کی ہمت ہے اور نہ آپ میں پڑھنے کی۔ سفید فام مہم جُو‘ جنگجو لٹیروں نے ایشیا اور افریقہ میں وحشیانہ طاقت سے دو‘ تین صدیوں تک جو غنڈہ گردی‘ لوٹ مار اور استحصال کیا اس کے خلاف مقامی لوگوں نے وسائل اور تنظیم کے فقدان کے باوجود بڑی بہادری سے علمِ بغاوت بلند کیا اور کمال بہادری سے طویل المیعاد مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کی اور ہزاروں لوگوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ علم بغاوت بلند کرنے والوں میں لیبیا کے شیخ مختار‘ ہندوستان کے سبھاش چندر بوس (جو بعد میں نیتا جی کہلائے)‘ ویتنام کے ہوچی مِنہ‘ جنرل گیاپ اور ویٹ کانگ‘ ایران کے مصدق اور حسین فاظمی‘ کانگو کے پیٹرس لومامبا‘ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور کینیا کے جامو کینیاٹا سر فہرست ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں