صدیوں پرانے تخت پر نیا بادشاہ

14اکتوبر 1066ء‘ یہ دن برطانوی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن برطانیہ کے جنوب مشرقی ساحل پرہاسٹنگز کی بندرگاہ پر نارمن فوج اتری اور اس نے اینگلو سیکسن(Anglo-Saxon) فوج کو شکست دے کر انگلستان میں اپنے قدم جمائے۔ ہیرلڈ گاڈ ونسن جسے (Harold II) بھی کہا جاتا تھا‘ اس وقت انگلستان کا بادشاہ تھا‘ وہ بھی میدانِ جنگ میں مارا گیا۔ حملہ آوروں کو سارے انگلستان پر قبضہ کرنے میں 26 برس لگ گئے۔ آج 956 برس گزر چکے ہیں مگر کوئی اور حملہ آور سرزمینِ برطانیہ پر قابض نہیں ہو سکا اور اس سارے عرصہ میں (ماسوائے کرامویل کے Republican دور کے) مختلف شاہی گھرانے یکے بعد دیگرے برطانوی تخت و تاج کے مالک رہے ہیں۔ جب آٹھ ستمبر کو ملکہ ایلزبتھ نے 96 سال کی عمر میں وفات پائی تو انہیں برطانیہ کی ملکہ بنے 70 برس گزر چکے تھے۔ تخت نشین ہونے کے وقت ان کی عمر 25 برس تھی۔ جب اُن کے چچا ایڈ ورڈ ہشتم نے ایک طلاق یافتہ خاتون (Wallis Simpson) سے شادی کرنے کے لیے برطانیہ کے تخت و تاج کو ٹھکرا دیا تو ملکہ ایلزبتھ کے والد جارج ششم کو ایڈورڈ ہشتم کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوصف تخت نشین ہونا پڑا۔ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے ہرگز خواہش مند نہ تھے۔ ذہنی اور جسمانی صحت اچھی نہ ہونے کے علاوہ اُن کی زبان میں لکنت بھی تھی۔ وہ صرف 56برس کی عمر میں فوت ہوئے تو ان کی بیٹی ایلزبتھ کو تقدیر نے برطانوی تحت و تاج کا مالک بنا دیا۔ بادشاہ کی وفات کے وقت شہزادی ایلزبتھ سیر و سیاحت کرنے اور چھٹیاں گزارنے مشرقی افریقہ کے ایک ملک کینیا گئی ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی ایلزبتھ کو درختوں پر چڑھنے اور ان کی بلند ترین ٹہنیوں پر جھولنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن وہ معمول کے مطابق ایک درخت پر چڑھی ہوئی تھیں کہ جب انہیں زمین پر کھڑے ہوئے ان کے ذاتی محافظ نے ان کے والد کی وفات اور ان کی تخت نشینی کی خبر سنائی تو وہ کافی دیر سکتے میں رہیں۔ جب وہ درخت سے نیچے اتریں تو وہ شہزادی سے ملکہ بن چکی تھیں۔ ملکہ نے بڑی متانت‘ لگن‘ فرض شناسی‘ انکساری‘ وقار اور دل جمعی کے ساتھ 70 برس اپنے فرائض سرانجام دیے۔ آج کے جمہوری دور میں ملکہ یا بادشاہ بننا ایک بہت کٹھن کام ہے۔ اقبال کو میرِ کارواں سے ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ اس میں خوئے دل نوازی نہیں ہے لیکن اگر وہ ملکہ ایلزبتھ کی کارکردگی کو ملاحظہ فرماتے تو یقینا کہتے کہ وہ اس معیار پر پورا اتری ہیں۔ ملکہ ایلزبتھ بھی بہرحال ایک انسان ہی تھیں اور انسان کبھی کبھار کسی کوتاہی یا لغزش کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے۔ میں یہاں ایسی صرف دو مثالیں دینے پر اکتفا کروں گا۔ 1964ء میں برطانیہ کے مغربی صوبے ویلز میں ایک قیامتِ صغریٰ بپا ہوئی جہاں ایک قصبے میں کوئلے کی کانوں کے باہر ناقابلِ استعمال کوئلے کا ایک بہت بڑا انبار تھا۔ کوئلے کا یہ انبار لگ بھگ ایک چھوٹی پہاڑی جتنا تھا‘ وہ کسی وجہ سے اپنی جگہ سے ہل کر مکانوں اور بچوں کے ایک سکول پر گر پڑا۔ اس حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 166تک جا پہنچی تھی جن میں 116 سکول میں پڑھنے والے بچے تھے۔ ملکہ ایلزبتھ کو جائے حادثہ پر فوراً پہنچنا چاہیے تھا تاکہ وہ بچوں کے والدین اور دوسرے پسماندگان کی ڈھارس بندھاتیں مگر انہوں نے وہاں جانے میں آٹھ دن کی تاخیر کر دی۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس تاخیر کی وجہ سے ملکہ کے خلاف غم و غصے کی کتنی بلند لہر اٹھی۔
دوسرا واقعہ شہزادی ڈیانا کی پُراسرار وفات کے بعد رونما ہوا۔ سارا ملک بے حد غم زدہ اور اشکبار تھا مگر ملکہ نے اپنے رویے سے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے آپ کو چہار سو پھیلے اس ماتمی ماحول سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ جونہی اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کو اس صورت حال کا علم ہوا تو وہ بھاگم بھاگ ملکہ کو ملنے گئے اور انہیں سمجھایا کہ وہ کتنی تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہیں۔ ملکہ کو بات سمجھ آگئی اور انہوں نے بعد ازاں ہر وہ قدم اٹھایا جس سے برطانوی عوام کو یہ پتا چل گیا کہ ان کی ملکہ بھی ان کے دکھ درد میں شریک ہے۔ 1992ء کا سال ملکہ کے لیے بڑا دکھ دینے والا سال ثابت ہوا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ازدواجی رشتے اس سال ختم ہو گئے۔ ملکہ نے اگلے سال کرسمس کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس سال کے لیے لاطینی زبان کے جن مناسب ترین الفاظ کا استعمال کیا وہ تھے: Annus Horribilis، یعنی ستم ظریف سال۔ اس سال ان کے آبائی گھرونڈسر کاسل میں آگ لگ جانے سے کافی نقصان ہوا۔ اٹھارہویں صدی سے لے کر بیسوی صدی تک یورپ میں سلطانیٔ جمہور اور عوام پر عوام کے نمائندوں کی حکومت کا جو زبردست طوفان آیا وہ بہت سے بادشاہوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے گیا۔ فرانس کے بادشاہ Louis XVI اور اس کی رسوائے زمانہ ملکہ Marie Antoinette‘ 1789ء میں انقلابِ فرانس کی بھینٹ چڑھے‘ اسی طرح 1917ء میں انقلابِ روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد شہنشاہ نکولس II‘ اس کی ملکہ اور سارے بچے قتل کر دیے گئے۔ چند دیگر ملکوں کے بادشاہوں نے اسی طرح کی صورتحال میں عین وقت پر بھاگ کر اور محفوظ مقامات میں پناہ لے کر جان بچائی۔ آج یورپ کے جن گنتی کے ممالک میں بادشاہت کا قدیم نظام قائم و دائم ہے ان میں برطانیہ کے علاوہ ہالینڈ‘ سپین‘ ڈنمارک‘ بلجیم‘ ناروے اور سویڈن شامل ہیں۔ ان ممالک میں شاہی خاندان ایک دوسرے کے نزدیکی یا دور کے رشتہ دار ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اب بادشاہ یا ملکہ بالکل بے اختیار ہوتے ہیں۔ وہ نہ قانون بناتے ہیں اور نہ نافذ کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنی مملکت کے سربراہ کے رسمی فرائض سرانجام دیتے ہیں اور ہر اس قانون پر اپنی منظوری کے دستخط ثبت کر دیتے ہیں جو عوام کی نمائندہ پارلیمان منظور کرتی ہے۔ وہ اپنے وزیراعظم کے دیے گئے ہر مشورہ پر عمل کرنے کے قانوناً پابند ہوتے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ مدت ہوئی کہ وہ سلطنت ختم ہو گئی۔ آج کا برطانوی بادشاہ یا ملکہ دولتِ مشترکہ کے سربراہ کے رسمی فرائض سرانجام دیتا ؍ دیتی ہے۔ دولت مشترکہ میں شامل ممالک کی تعداد 54 ہے اور یہ اُن ممالک کی تنظیم ہے جو سابق برطانوی مقبوضات ہیں(جن میں ہندوستان سرفہرست تھا اورJewel in the Crown کہلاتا تھا) 1688ء کے ''شاندار انقلاب‘‘ کے بعد جب برطانیہ میں شہنشایت کو بحال کیا گیا تو اس کی کڑی شرط یہ تھی کہ وہ آئین کی پابند اور پارلیمان کے ماتحت ہوگی۔ اور یہ طے پایا کہ بادشاہ برائے نام ہوگا اور پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین اور صدیوں پرانے آئین کے تحت برطانیہ کا نظم و نسق چلایا جائے گا۔ 1215ء میں برطانیہ کے حکمران طبقے نے بادشاہ کے ساتھ جو تحریری معاہدہ کیا وہ Magna Carta کہلاتا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ برطانیہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا آئین غیر تحریر شدہ ہے اور وہ مستحکم روایات کے ستونوں پر بڑی مضبوطی سے استوار ہے۔ اختیارات اور اثر و رسوخ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ برطانیہ کا بادشاہ پس پردہ رہ کر اپنا بے پناہ اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے اور ماسوائے ہنگامی حالات کے وہ کبھی منظرِ عام پر نہیں آتا۔ وہ برطانیہ کے چاروں صوبوں (جن کی اپنی اپنی تاریخ ہے) میں رہنے والے عوام کے درمیان اتحاد اور اخوت کی علامت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں