صدیوں پرانے تخت پر نیا بادشاہ … (2)

70برس قبل‘ 25برس کی جس لڑکی کو اپنے باپ کی وفات کے بعد سلطنتِ برطانیہ ورثے میں ملی‘ اس نے اپنی کروڑوں افراد پر مشتمل رعایا سے پہلا خطاب کرتے ہوئے جو تاریخی اور مختصر الفاظ ادا کیے وہ یہ تھے کہ ''میں شاہی تاج کو اپنے سر پر رکھنے اور شاہی تخت پر بیٹھنے سے پہلے آپ سب سے یہ مقدس عہد کرتی ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں گی‘ میری زندگی کا واحد مقصد آپ کی خدمت کرنا ہوگا۔ میں دیانتداری اور فرض شناسی سے ان تمام ذمہ داریوں کو بطریق اِحسن نبھاؤں گی جو برطانیہ اور اس کے مقبوضات کی ملکہ ہونے کی حیثیت سے میرے اوپر عائد ہوتی ہیں‘‘۔ برطانوی شہنشاہیت کے سخت ترین نقادوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ملکہ ایلزبتھ نے ان 70 برسوں کے دوران اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔ ان 70 برسوں میں ملکہ ایلزبتھ کو جن سخت بحرانوں سے واسطہ پڑا ان کی تعداد یقینا دو چار سے بہت زیادہ ہوگی لیکن انہوں نے ہر بحران کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا۔ ان کے سامنے اپنے باپ کی روشن مثال تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کی فضائیہ چار برس تک ہر روز لندن پر بموں کی بارش کرتی رہی۔ وسطی لندن میں شاہی محل‘ ہائیڈ پارک اور گرین پارک کی قربت کی وجہ سے بڑی بلندی سے بہت صاف اور نمایاں نظر آتا تھا‘ اس لیے حملہ آور جنگی طیاروں کے لیے اسے اپنے تباہ کن بموں کا نشانہ بنانا ہر گز مشکل نہ تھا۔ بادشاہ کو ان چار برسوں کے دوران کئی بار شاہی محل چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ منتقل ہونے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ ہر بار یہ مشورہ ماننے سے انکار کرتے رہے تاکہ لندن میں رہنے والے لاکھوں افراد کا حوصلہ بلند رہے۔ بادشاہ (جارج ششم) نے چار سال تک ناشتے میں ایک بھی انڈہ نہ کھایا کیونکہ جنگ کے دوران میں جو سخت راشن بندی کی گئی تھی‘ اس میں اہل برطانیہ کو ملنے والی خوراک میں انڈہ شامل نہ تھا۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو اٹلی سے خبر آئی کہ وہاں جس خاتون(Giorgia Meloni) نے اٹلی کی نئی وزیراعظم کا حلف اٹھایا ہے‘ انہوں نے روم کے وسط میں 50کمروں پر مشتمل اور ایک ایکڑ پر بنے ہوئے شاندار محل‘ جو وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے‘ میں رہنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا روم کے ایک متوسط درجے کے محلے میں دوسری منزل پر چار کمروں کا فلیٹ ہے جہاں میں اپنے شریکِ حیات کے ساتھ دس برس سے ہنسی خوشی رہ رہی ہوں اور اب بھی وہیں رہوں گی۔ وزیراعظم نے سرکاری گاڑی استعمال کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے پاس اپنی ایک پرانی کار ہے‘ میں اسے ہی استعمال کروں گی اور اگر وہ کسی دن سٹارٹ نہ ہوئی تو میں اپنے سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جا سکتی ہوں۔
دوسری طرف اگر پاکستانی حکمرانوں کے شاہانہ طرزِ حکمرانی پر نظر ڈالیں تو عوام کی عقل دھنگ رہ جائے۔ ایک بار پاکستان کا ایک اعلیٰ سرکاری وفد چین سے قرض کی کوئی ڈیل کرنے گیا۔ اس وفد میں کالم نگار کے مرحوم بھائی (محمد افضل باجوہ) بھی شامل تھے۔ جنہوں نے مجھے بعد ازاں بتایا کہ جب ہم اپنی بیش قیمت کاروں پر سفر کرکے متعلقہ سرکاری دفتر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ چین کے وزیر اور اعلیٰ سرکاری افسر اپنے سائیکلوں سے اتر کر آرہے تھے۔ اجلاس کے اختتام پر جب غیر رسمی گفتگو ہونے لگی تو ایک چینی وزیر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ لگتا ہے کہ آپ لوگ ہم سے قرض مانگنے نہیں بلکہ ہمیں قرض دینے اور ہماری مالی مدد کرنے آئے ہیں۔ برطانیہ کا سابق وزیراعظم بورس جانسن تو لندن میں اکثر اپنے پرانے سائیکل پر گھومتا نظر آتا تھا۔ نصف صدی پہلے برطانوی نظام انصاف کا سربراہ‘Lord Hailsham ‘ جو لارڈ چانسلر تھا‘ پہلے ہائوس آف لارڈز اور پھر اپنے دفتر سائیکل پر آتا جاتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف چک جھمرہ‘ سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ایک رکن صوبائی اسمبلی‘ایم حمزہ صاحب کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ اپنے آخری دم تک اپنے حلقۂ انتخاب میں سائیکل پر سواری کرتے رہے۔ یہ پچاس ساٹھ سال پرانی بات ہے اور اب ان یادوں کا حصہ ہے جو خواب و خیال بن چکی ہیں۔حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے لمبے چوڑے وفد کے ساتھ نیو یارک کا سفر کیا اور مہنگے ترین ہوٹل میں ٹھہرے ‘ شنید ہے کہ انہوں نے ملک کی خراب معیشت کا لحاظ کرتے ہوئے اس ہوٹل کا بل اپنی جیب سے ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ خبر سچی ہی ہوگی۔ پرانی بات ہے کہ جب مجھے آصف زرداری صاحب سے ایک ایسی شکایت تھی جو صرف بے نظیر بھٹو صاحبہ جو کہ اس وقت وزیراعظم تھیں‘ دور کر سکتی تھیں۔ میں اس وقت لندن میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر سے جا کر ملا کہ وہ وزیراعظم صاحبہ تک میرا ایک خط پہنچا دیں۔ انہوں نے میری جائز شکایت سن کر میری مدد کرنے کی ٹھانی اور کہا کہ اگلے ہفتے وزیراعظم صاحبہ امریکہ سے پاکستان جاتے ہوئے دو دن لندن رکیں گی ۔ اس دوران میں آپ کا نام ان مہمانوں کی فہرست میں شامل کر دوں گا جو ان کے عشائیہ میں شریک ہوں گے۔ اس عشائیے کا دعوت نامہ ہم دونوں میاں بیوی کے نام جاری ہوا۔ جب ہم لندن کے سب سے مہنگے ہوٹل The Dorchester Hotelپہنچے‘ جہاں ایک رات کا کرایہ 4سے 6لاکھ پاکستانی روپے تھا‘ تو ہم دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وزیراعظم کے سرکاری وفد میں 50 اراکین شامل تھے اور ایک وقت کے کھانے کا فی کس خرچہ 35 سے لے کر 75 ہزار روپے تھا۔ بل حکومت پاکستان نے ادا کرنا تھا۔ ہم نے آپس میں صلاح کی اور متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم کھانا گھر جا کر کھا لیں گے اور پاکستانی عوام کے تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے بچائیں گے؛ چنانچہ ہم نے وزیراعظم سے عشائیہ سے پہلے مل لیا اور انہیں اپنی شکایت تحریری شکل میں دے دی اور کہا کہ جب آپ کو فرصت کے چند منٹ ملیں تو یہ پڑھ لیں۔ وہ بڑی اپنائیت سے اور دوستانہ انداز میں ملیں۔ ہماری بات بڑی توجہ سے سنی اور کمال مہربانی سے اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ میں نے انہیں اپنا دعوت نامہ دکھایا اور بالکل سچ بتا دیا کہ کھانا اتنا زیادہ مہنگا نہ ہوتا تو ہم آپ کی دعوت ضرور قبول کرتے اور آپ کے ساتھ آئے ہوئے 50 مہمانوں سے بھی مل لیتے۔ نہ وزیراعظم کو فرصت ملی اور نہ ہماری اُن سے دوبارہ ملاقات ہوئی کہ ہم انہیں اپنی عرضداشت یاد دلاتے۔ ان کے لندن سے چلے جانے کے بعد پتا چلا کہ ہائی کمیشن نے وفد کے لیے جو 12 عالیشان کاریں‘ ڈرائیور سمیت کرایہ پر لی گئی تھیں۔ ان کا بل بھی روزانہ ہزاروں پائونڈوں میں تھا۔ پاکستان کے محنت کش طبقہ کی حق حلال کی کمائی کو میں 55 برسوں سے لندن میں لٹتے دیکھتا چلا آیا ہوں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ مال مفت دل بے رحم۔
آپ ملکہ برطانیہ کے ہر دل عزیز ہونے کا صرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ پارلیمان کے مرکزی ہال میں ان کا شاہ بلوط کی لکڑی سے بنایا گیا تابوت رکھا گیا تو اس کا آخری دیدار کرنے اور اپنے عوام کے دلوں پر راج کرنے والی ملکہ کو الوداع کہنے کے لیے جو لوگ آئے‘ اُن کی تعداد تین لاکھ سے زائد تھی اور انہیں پانچ میل لمبی قطار میں 24گھنٹے تک کھڑے رہنا پڑا۔ جب اس تابوت کو لے کر گاڑیاں وسطی لندن سے 20میل دور Windsor Castle‘ جہاں ملکہ کا شوہر اور والدین دفن ہیں‘ روانہ ہوئیں تو سڑک کی دونوں جانب اتنے زیادہ لوگ اشکبار‘ سیاہ لباس پہنے اور سر جھکائے کھڑے تھے کہ ان کی تعداد گنی نہیں جا سکی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں