صدیوں پُرانے تخت پر نیا بادشاہ …(3)

وفات پا جانے والی ملکۂ برطانیہ نے گزشتہ 43 سالوں میں جن سرکاری تقریبات میں شرکت کی (مثلاً رسمِ افتتاح وغیرہ) اُن کی تعداد 19 ہزار 700 ہے۔ وہ 117 ممالک کے دوروں پر گئیں (جن میں پاکستان بھی شامل ہے)۔ ایک شخص نے (جو اس کالم نگار سے کہیں زیادہ حساب کا ماہر ہے) بتایا کہ ملکہ ایلزبتھ نے ان 117 ممالک کے دوروں پر جو ہوائی سفر کیا‘ اگر اس کا کل فاصلہ جمع کیا جائے تو وہ 10 لاکھ 32 ہزار 513 میل بنتا ہے۔ برطانیہ میں جو شخص سو برس کی عمر پائے اُسے جنم دن پر ملکہ (بادشاہ) تہنیتی کارڈ بھیجتی ہے۔ ملکہ ایلزبتھ نے 3 لاکھ سات ہزار ایسے کارڈز بھیجے۔ جو میاں بیوی اپنی شادی کی 60ویں سالگرہ منائیں انہیں نیک خواہشات کا کارڈ بھیجنے والوں میں ملکہ بھی شامل ہوتی تھیں۔ ایسے کارڈز کی کل تعداد نو لاکھ 27 ہزار تھی۔ (دو ماہ قبل مجھے اور میری بیوی کو ملکہ کی جانب سے کارڈ موصول ہوا تو ہمارا دل خوش ہو گیا) اپنے دورِ شہنشاہیت میں ملکہ نے امریکہ کے 14 صدور اور برطانیہ کے 15 وزیراعظم بھگتائے۔ اُنہیں دو جانوروں سے خصوصی لگائو تھا۔ ایک تھے Corgi نسل کے کتے (کل تعداد 30 تھی) اور دُوسرے تھے عربی نسل کے بہترین مہنگے گھوڑے (ان کی تعداد صرف بیس تھی)۔ لندن میں مومی مجسموں کے شہرہ آفاق مادام تُسائو (Madame Tussauds) میوزیم میں ملکہ برطانیہ کی ہوبہو مشابت کے مجسموں کی تعداد 24 ہے۔ برطانیہ میں 257 سڑکوں کے نام Elizabeth Street/ Road ہیں۔
کالم نگار پرنس چارلس کے بادشاہ بن جانے پر اس لیے خصوصی طور پر خوش ہوا کہ وہ تارکین وطن (بالخصوص مسلمانوں) کے خیر خواہ اور دوست ہیں۔ شاہ چارلس سوم (جب وہ ولی عہد یعنی پرنس آف ویلز تھے) چار سال قبل فلسطین اور اسرائیل کے سرکاری دورے پر گئے تو اُنہوں نے کمال جرأت (جو بے مثال ہے) سے اپنے میزبانوں کو بتایا کہ اُن کی دلی خواہش ہے کہ وہ اہلِ فلسطین کو آزاد دیکھیں۔ کالم نگار نے انہیں شکریے کا خط لکھا تو اگلے ہفتے ہی ان کا بڑا دوستانہ جواب موصول ہوا۔ اس سے میرا حوصلہ اتنا بڑھا کہ جب لندن میں میری چوتھی کتاب شائع ہوئی (Declassified British Documents, 1980) تو وہ انہیں بطور تحفہ پوسٹ کی گئی۔ پرنس چارلس (جو اَب بادشاہ چارلس سوم کہلاتے ہیں) کی سیکرٹری نے اس کتاب کے مل جانے پر جن الفاظ میں شکریہ ادا کیا‘ وہ کتاب اس کی ہرگز مستحق نہ تھی۔ کالم نگار نے ایک یورپی ملک میں 55 سال گزار کر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ملکہ ہو یا بادشاہ‘ اُن کا دل عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وہ عوام کے دُکھ‘ سکھ میں اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ ہمارے جیسے نام نہاد جمہوری ملک کے عوامی نمائندے کبھی نہیں ہوتے۔ ہمارے حکمران طبقے کے افراد کی جلد کا رنگ تو سفید نہیں مگر وہ بجا طور پر اپنے خون کے سفید ہو جانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال ہے قیامت خیز سیلاب کی تباہ کاریاں ایک طرف‘ بڑے سرکاری افسران‘ ارب پتی افراد اور ساری سیاسی جماعتوں (ماسوائے جماعت اِسلامی) کی کروڑوں مردوں‘ عورتوں (خصوصاً حاملہ) اور بچوں کی طرف بے اعتنائی اور لاتعلقی ایک طرف۔ دوسری طرف ہالی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بے حد ہمدردانہ روّیہ! چھوٹی سی کشتی میں سوار ہو کر سیلاب زدگان تک جانے اور بادلوں کی بلندی پر سے ہیلی کاپٹر میں پرواز کر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے میں بڑا فرق ہے۔
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ میں نے اپنے تھکے ہوئے دماغ کو چند لمحوں کا آرام دینے کیلئے بی بی سی پر خبروں کا نشریہ دیکھا۔ نئے بادشاہ (چارلس سوم) برطانیہ کے شمالی صوبے (سکاٹ لینڈ) میں ایک بڑے قصبے کو (آبادی میں اضافہ ہو جانے کی وجہ سے) ترقی دے کر شہر (city) کا درجہ (جو ایک قانونی اصطلاح ہے) دینے کی رسم ادا کر رہے تھے۔ بادشاہ بننے کے بعد یہ ان کی پہلی سرکاری مصروفیت تھی۔ بڑے قصبوں کو سٹی کا درجہ دینا ہو یا یونیورسٹیوں کو چارٹر عطا کرنا ہو یا سرکاری عمارتوں (تعلیمی اداروں‘ پلوں‘ ہسپتالوں) کی رسم افتتاح ادا کرنی ہو‘ شاہی فرمان (رسمی تقریب میں ادا کردہ خطاب) بادشاہ یا ملکہ اِسے خود جاری کرتا؍ کرتی ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو صدیوں پرانی روایت کے مطابق وزیراعظم نہیں کرتا (اور نہ کر سکتا ہے)۔ شاہی فرمان کی رسمی ادائیگی تو کوئی ایسی بڑی خبر نہیں کہ میں اپنے قارئین تک پہنچائوں‘ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چارلس سوم نے شاہی لباس کے بجائے وہ لباس پہنا جو ہزاروں سالوں سے سکاٹ لینڈ کے لوگوں کا مقامی لباس ہے۔ یہ مردانہ سکاٹش لباس ہے؛ جیکٹ اور ٹائی کے ساتھ (گھٹنوں تک لمبا) سکرٹ۔ ایسا سکرٹ برطانیہ کے دیگر تین صوبوں میں خواتین پہنتی ہیں۔ میں نصف صدی قبل جب پہلی بار سکاٹ لینڈ میں ایک تقریب میں شرکت کیلئے گیا تو میں نے مردوں کو پہلی بار ایسا سکرٹ پہنے دیکھا جو انگلستان میں صرف خواتین کا پہناوا ہے۔آپ میری حیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے کہ آپ اپنے وطن کے کسی علاقے میں مردوں کو خواتین کا پہناوا (لہنگا یا ساڑھی) پہنے ہوئے دیکھیں تو یقینا آپ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔
ملکہ برطانیہ کی وفات پر پرنس چارلس (جو اُس وقت ولی عہد تھے) سرکاری طور پر پرنس آف ویلز تھے۔ (ہر ولی عہد کو یہی شاہی خطاب ملتا ہے)۔ اُن کے بادشاہ بن جانے پر پرنس آف ویلز کی اسامی خالی ہوئی تو وہ بادشاہ کے سب سے بڑے بیٹے (پرنس ولیم، ڈیوک آف کیمبرج) نے پُر کی۔ یہ مرتبہ مل جانے پر نئے پرنس آف ویلز نے وہی کچھ کیا جو بہت سال پہلے اُن کے باپ کو روایت کے مطابق کرنا پڑا تھا اور وہ ہے Wales کی مقامی زبان (جو انگریزی سے بالکل مختلف ہے) کو سیکھنا اور وہ بھی اس طرح کہ اُس پر مکمل عبور حاصل کرنا۔ اب آپ بتائیں کہ کیا پاکستان میں کوئی بھی ایسا سیاست دان ہے جو قومی رہنما ہونے کا دعویٰ کرتا ہو اور پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو زبان جانتا ہو؟ سقوطِ ڈھاکہ کی بہت سے وجوہات تھیں، جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مغربی پاکستان کا ایک بھی سیاسی رہنما بنگالی زبان کا ایک لفظ تک نہیں بول سکتا تھا جبکہ ہر بنگالی رہنما اتنی اچھی اُردو جانتا تھا کہ اس میں روانی سے تقریر کر سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے ایک وزیراعلیٰ عطاء الرحمن 1963ء میں لاہور آئے تو بکمال مہربانی میرے دفتر (جب میں ایک اشاعتی ادارے میں بڑے عہدے پر فائز تھا) تشریف لائے۔ ایک گھنٹے کی اس یادگار ملاقات میں وہ اُردو ہی میں بات چیت کرتے رہے۔ مولانا بھاشانی کی تقریر میں نے پہلی بار مارچ 1970ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس میں اور دوسری بار 1973ء میں لندن میں ایک جلسے میں سنی۔ ٹوٹی پھوٹی مگر سمجھ آنے والی اُردو بول سکتے تھے۔ مجیب الرحمن سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک بار وہ لاہور آئے تو میاں افتخار الدین (بائیں بازو کے ترقی پسند اور عوام دوست رہنما) کے مہمان بنے۔ بدقسمتی سے وہ میاں صاحب کے گھر میں ان کے نوکروں کیلئے مخصوص گھروں میں سے ایک میں ٹھہرائے گئے۔ اس 'زبردست استقبال‘ کے بعد کچھ عجب نہیں کہ مجیب الرحمن کو جو تھوڑی بہت اُردو آتی تھی (میرے مرحوم دوست ملک حامد سرفراز اُن کے قریبی ساتھی تھے اور میں اُن کی گواہی پر اعتبار کرتا ہوں) وہ بھی بھول گئی ہو اور لاہور میں موصوف کا سارا وقت اپنے اُن چھ نکات کی نوک پلک سنوارنے میں گزر گیا ہو جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (پیپلز پارٹی) اور حکمران اشرافیہ کو قابلِ قبول نہ تھے۔ یہ المیہ اب نصف صدی سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے مگر ہمیں ایک بڑا قیمتی سبق سکھاتا ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی درسگاہوں میں مقامی زبانیں سیکھنے کی سہولتیں مہیا کریں۔ سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور بلجیم میں ہائی سکول جانے والا ہر طالب علم تین‘ چار زبانیں بول سکتا ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ پنجاب میں پڑھنے والے بچوں کو اپنی مادری زبان (پنجابی) بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بے چارے گونگوں کی ایسی نسل بن گئے جو نہ اچھی اردو اور نہ معیاری انگریزی لکھ یا بول سکتی ہے۔ کالم مکمل ہوا تو کالم نگار نے دُعا مانگنے کیلئے اپنے بوڑھے ہاتھ اُٹھائے۔ اللہ تعالیٰ میری دُعا قبول فرما اور اہلِ وطن (خصوصاً اہلِ پنجاب) میری فریاد سن لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں