Yesterday\'s Men.....(1)

آج کا کالم اُن سطور سے شروع کیا جائے گا جو 13 اکتوبر کو ایک معاصر کالم نگار اور ہم خیال دوست کی ایک باکمال تحریر کی آخری چند سطور تھیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ کیا محض ماتم ہی ہماری زندگی میں رہ گیا ہے یا واقعی کچھ تبدیل بھی ہونا ہے؟ اگر کچھ تبدیل ہونا ہے تو وہ روایتی اور فرسودہ طریقوں سے ممکن نہیں ہوگا۔ غیرمعمولی حالات غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں لیکن کیا اس ملک کا طاقتور طبقہ اپنے مفادات کو قربان کرکے عوامی مفادات پر مبنی نظام کو لانے کے لیے تیار ہے؟ ایک ایسا نظام جو طاقتور طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہو گیا ہو‘ اس کا متبادل سیاسی اور معاشی نظام عوام کے لیے قائم کیا جا سکے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کے فیصلہ ساز اور سنجیدہ افراد کو موضوعِ بحث بنانا چاہیے لیکن ہماری سیاست و جمہوریت اور صحافت سمیت اہلِ دانش کا بڑا طبقہ اسی طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہے کیونکہ یہ طبقہ بھی معاشرے میں اپنی سطح پر کوئی بڑا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے اشرافیہ کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ اس سے صورتحال میں مثبت تبدیلیوں کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اس وقت موجودہ نظام کے مقابلے میں ایک متبادل نظام کی تلاش پر بحث کرنی چاہیے کہ وہ کیسے سیاسی و جمہوری اور شفافیت پر مبنی نظام ہوگا جو عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
یورپی‘ بالخصوص برطانوی سیاست کی زبان میں اُن تمام سیاسی رہنمائوں کو گزرے ہوئے کل کا آدمی (Yesterday's Men) کہا جاتا ہے جو آزمودہ ہوں اور پہلے بھی ناکام ہو چکے ہوں۔ وہ چلے ہوئے کارتوس ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس نہ کوئی منشور ہوتاہے اور نہ قومی مسائل کا کوئی حل۔ نہ کوئی وژن ہوتاہے اور نہ کوئی افکارِ تازہ (جن سے جہانِ تازہ کی نمود ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے)۔ وہ چند برسوں کے وقفے کے بعد اپنے اُوپر کوئی نیا لیبل لگا کر اور بھیس بدل کر یا کسی مقبولِ عام سیاسی جماعت کی صفوں میں شامل ہوکر اپنے آپ کو نئی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر ایک بات یقینی ہے کہ ان کا ذہنی افلاس اور بنجر پن اور اخلاقی دیوالیہ پن اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہStatus quo (پرانے اور مروجہ نظام) کے فرسودہ‘ عوام دشمن اور گلے سڑے خول سے باہر نکل کر اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی دکھا سکیں۔ زیادہ سخت زبان استعمال کی جائے تو وہ چمگادڑوں کی طرح تاریکی کو روشنی پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ صرف اندھے ہوتے تو اُمید کی جا سکتی تھی کہ وہ خطرہ کی گھنٹی کو سُن کر ہمیں آنے والے خطرات سے بچا لیں گے مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ بہرے بھی ہیں۔ اس کالم نگار کی آنکھوں کے سامنے (75 سال پہلے) مملکتِ پاکستان وجود میں آئی۔ خزانہ خالی تھا۔ نظام حیدرآباد سے لے کر بہاولپور کے نواب صاحب تک ہماری حکومت کو عطیات دیتے تھے تاکہ سرکاری افسروں کو تنخواہ دی جا سکے اور دیگر سرکاری امور بلا توقف انجام دیے جا سکیں۔ دفتروں میں پیپر پِن تک نہ تھی۔ خار دار درختوں کی ٹہنیوں سے کانٹے اُتار کر کام چلایا جاتا تھا مگر اس وقت ڈالر اور پاؤنڈ کی شرح ہماری کرنسی کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ پاکستان کا پہلا بجٹ بھی خسارے کے بجائے سرپلس (Surplus) میں تھا۔ لاکھوں مہاجرین‘ جن کی بے سرو سامانی ناقابلِ بیان ہے‘ کی آباد کاری کا سنگین مسئلہ بھی درپیش تھا۔ اور یہ مسئلہ اس وقت ہمالیہ پہاڑ سے بھی بڑا مسئلہ تھا۔
آج ملک کے ہر حصے میں ایسے روشن دماغ اور عوام دوست لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو موجودہ سیاسی گھمسان کے رَن کی پست سطح سے بلند ہو کر اُن اعلیٰ اور ارفع مقاصد کے بارے میں نیک نیتی‘ سنجیدگی اور دیانتداری سے سوچتے ہیں جو قیامِ پاکستان کے معجزہ کے رونما ہونے کا محرک بنے تھے۔ قائداعظم نے ہندو مہا سبھائی ذہنیت کے شر سے اُن مسلمانوں کو جو مسلم اکثریت کے صوبوں (آدھے پنجاب‘ آدھے بنگال‘ سندھ‘ بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبے) میں آباد تھے‘ کو محفوظ کرنے کے لیے ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے سخت جدوجہد کی۔ 1940ء کی قراردادِ لاہور‘ جس میں لفظ 'پاکستان‘ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا اور Stateکے بجائے جمع کا صیغہ یعنی States کالفظ استعمال کیا گیا تھا۔ 1946ء تک کابینہ مشن کے دورۂ ہندوستان اور کانگریس کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی تک پاکستان کا کھل کر مطالبہ نہ کیا گیا تھا۔ غیرجانبدار اور غیر متعصب مورخین (جن میں ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ بھی شامل ہیں) تسلیم کرتے ہیں کہ ان مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری کانگریس کی قیادت (خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل) پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے اتنی احمقانہ حکمت عملی‘ جو خودکشی کے مترادف تھی‘ کو اپنایا کہ پاکستان اپنے قیام کے 24 سال کے اندر ہی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ 1946ء میں کانگریس کی مرکزیت پسندی اور وفاق کے اصول کو تسلیم کرنے سے انکار نے ہندوستان کو توڑ دیا اور 1971ء میں بالکل انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان ٹوٹا۔ داد دیجئے بھٹو صاحب جیسے ذہین و فطین رہنما کو کہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر بھی ان کا دل پوری طرح مطمئن نہ ہوا اور اپنے باقی ارمان پورے کرنے کے لیے اُنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے ایک سال کے اندر بلوچستان میں مقامی محرومیوں کا سیاسی حل ڈھونڈنے کے بجائے وہاں بھی آپریشن کا حکم دے دیا۔ دو سال بعد بھی بلوچستان میں امن و امان کی حالت اتنی خراب تھی کہ کالم نگار بال بچوں کے ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے (لندن سے لاہور تک کے زمینی سفر کے دوران) ایران سے بلوچستان جانے کا خطرہ ہرگز مول لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اور دو گنا لمبا سفر کرکے افغانستان سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا۔ پاکستان کے بعد یہ المیہ یوگو سلاویہ میں رونما ہوا۔ وہاں کے اکثریتی نسلی گروہ (Serbia) نے وفاق کے اصول کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا۔
برطانیہ میں مشرقی پاکستان کے سو فیصدی جائز مطالبات کی حمایت اور پُرامن حل کی تلاش کا مطالبہ کرنے کے لیے جو کمیٹی بنی اس میں کالم نگار کے علاوہ صرف تین پنجابی افراد شامل ہوئے۔ طارق علی‘ احمد شجاع اور ایم کے جنجوعہ۔ پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے ہم چاروں کے خلا ف جو اداریہ لکھا اس کا عنوان تھا ''ان غداروں کی بھی خبر لیجئے‘‘۔ پاکستان کی حکومتِ وقت نے ہم چار مسکین افراد کی فریاد تو نہ سنی مگر اس بڑے اخبار کا مطالبہ مانتے ہوئے ہمارے اوپر بغاوت کا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ نہ معلوم ہمیں کتنی سنگین سزا دی جاتی مگر مقدمہ کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں