ہماری پڑوسن فرشتہ صفت خاتون

نام تھا ایلا (Ella) بھٹ‘ اُن کا تعلق بھارت کی ریاست گجرات سے تھا جو مہاتما گاندھی کی جنم بھومی ہے۔ ایلا 7ستمبر 1933ء کو پیدا ہوئیں اور مختصر علالت کے بعد انہوں نے 2نومبر 2022ء کو وفات پائی۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اتنے کمال کے کارنامے سرانجام دیے کہ اُن پر برطانیہ کے سب سے بڑے اخبار دی ٹائمز نے 22نومبر کو ایک تعزیتی مضمون (Obituary)شائع کیا اور وہ بھی اس سج دھج سے کہ اخبار کا ایک پورا صفحہ ان کی سوانح حیات بیان کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ آج کاکالم اسی عوام دوست خاتون کا آپ سے تعارف کرانے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ وہ آج سے 27برس پہلے بھی اتنی اہم تھیں کہ 1995ء میں جب ہیلری کلنٹن‘ جو اُس وقت امریکہ کی خاتونِ اول تھیں‘ بھارت کے سرکاری دورے پر آئیں تو وہ ایلا سے ملنے خاص طور پر گجرات گئیں۔ چھوٹے قد کی بڑی سادہ سفید ساڑھی میں ملبوس‘ ماتھے پر تلک لگائے‘ بالوں کو جوڑے کی شکل میں گوندھ کر ایک عام بھارتی خاتون نظر آنے والی ایلا نے یہ عہد ساز کام کیا کہ بھارت کے طول و عرض میں خود کام کرنے والی (Self-Employed) خواتین کو منظم کیا اور اُن کی ٹریڈ یونین بنائی تاکہ اُن کے معاشی حقوق کی حفاظت کی جا سکے۔ ہیلری کلنٹن اُن کے اس تاریخی کارنامہ سے اتنی متاثر ہوئی کہ اُس نے ایلا بھٹ کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ مسزکلنٹن نے کہا کہ وہ یہ منظر کبھی نہیں بھلاسکتیں کہ اُنہوں نے ہر رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی ہزاروں خواتین کو ایک پرچم کے نیچے کھڑے دیکھا جس نے اُس کو معاشی آزادی دلوائی اور اُن کے لیے محنت کر کے اجرت کمانے کے نئے امکانات کے اُفق روشن کیے۔ ان خواتین نے محنت کشوں کا گجراتی زبان میں انقلابی ترانہ گا کر اپنی معزز مہمان خاتون کا دل خوش کر دیا۔ جس کا عنوان تھا: We Shall Overcome۔
یہ کالم نگار برطانیہ میں اپنے 55برس کے قیام میں اَن گنت بار مزدوروں کے مظاہروں میں شریک ہوا تو اس نے یہ ترانہ گانے کی بڑی اچھی مشق کر لی۔ جس دن مسز کلنٹن کی ایلا بھٹ سے ملاقات ہوئی‘ اُن کی ٹریڈ یونین کو قائم ہوئے 20 برس گزر چکے تھے۔ جب اُس شہر میں کپڑا بننے والے تینوں بڑے کارخانے بند ہو گئے اور وہاں کام کرنے والے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ اور گھر چلانے کی ذمہ داری ان مزدوروں کی بیویوں اور بیٹیوں کو سنبھالنا پڑی‘ اُس وقت ایلابھٹ ٹیکسٹائل لیبر ایسوسی ایشن کے شعبۂ خواتین کی قائد تھیں۔ یہ وہ ٹریڈ یونین ہے جو مہاتما گاندھی نے 1920ء میں ہندوستان میں اپنی سیاسی سرگرمی شروع کرنے کے لیے بنائی تھی۔ اپنے گھر کا مالی بوجھ اُٹھانے کے لیے خواتین نے ردّی اکٹھی کرنے‘ مقامی منڈی میں سبزی اور پھل فروخت کرنے‘ گھر میں کپڑے پر کشیدہ کاری کرنے اور تمباکو کو کاغذ کی تہہ میں لپیٹ کر سگریٹ بنانے جیسے جو کام شروع کیے وہ انتہائی مشقت آمیز تھے اور اُن کی اُجرت بھی بہت کم تھی۔ کئی مجبور خواتین تو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے فٹ پاتھ پر ہی سوجاتی تھیں تاکہ وہ اگلے دن پو پھوٹتے ہی قریبی گوداموں میں مزدوری کر سکیں لیکن انہیں نہ تو پنشن ملتی تھی اور نہ وہ صحت کی انشورنس کی حقدار تھیں۔ بیماری کی صورت میں وہ اپنی تھوڑی سی آمدنی سے بھی محروم ہو جاتی تھیں۔ ستم بالائے ستم کہ ان خواتین کو دیہات سے شہر لانے والا ٹھکیدار ان کی اُجرتوں کا نصف حصہ ہڑپ کر جاتا تھا۔
ایلا بھٹ نے بھارت میں محنت کشوں کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوایا کیونکہ اُس نے ان ستم زدہ خواتین کی ایک جداگانہ ٹریڈ یونین کو منظم کرکے ان کے شب و روز بدل دیے۔ اس نیک کام کی ابتدا 1972 ء میں ریڑھی بانوں سے کی گئی۔ تھوڑی سی تحقیق کے بعد ایلا اس نتیجے پر پہنچی کہ اُن میں سے 97 فیصد کچی اور خستہ حال (Slums) بستیوں میں رہتے ہیں۔ 93 فیصد اَن پڑھ ہیں۔ ایلا نے جس بہت بڑی قانونی رکاوٹ کو عبور کیا وہ یہ تھی کہ بھارتی قوانین کے مطابق ٹریڈ یونین قوانین صرف کارخانوں میں کام کرنے والوں پر عائد ہوتے تھے اور گھر میں یا فٹ پاتھ پر کام کرنے والوں (یہ سب کی سب خواتین تھیں) پر ان کا اطلاق نہ ہوتا تھا‘ ایلا نے حکومت کو قائل کیا کہ موخر الذکر کی یونین بھی رجسٹر کی جانی چاہیے۔ یہ سب جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ایلا بھٹ کی مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد آخر کامیاب رہی۔ اُن کی بنائی یونین سیوا (Sewa) کے ممبروں کی تعداد 1975ء تک 5ہزار کے قریب تھی جوکہ اُس سے اگلے برس 9ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ سفر مزید آگے بڑھا تو ممبران کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی جس میں افغانستان اور پاکستان میں اپنے ہاتھوں سے (زیادہ تر گھر کی چار دیواری کے اندر) مزدوری کرنے والی خواتین بھی شامل تھیں۔ سیوا نے خواتین کارکنوں کے بچوں کی نگہداشت کرنے‘ اُنہیں ہنر سکھانے‘ اُن کی رہائش کا انتظام کرنے‘ انہیں حفظانِ صحت کے اُصولوں سے روشناس کرانے اور اُن کے انشورنس کے فوائد سے مستفید ہونے کے انتظامات کیے۔ ایلا بھٹ نے بھارت میں خواتین کا پہلا بینک قائم کیا۔ 2013ء میں اس بینک میں کھاتہ داروں کی کل تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی اور دیے گئے قرضوں کی واپسی کی شرح 97 فیصد تھی۔ جب ایلا خواتین کی آزادی کا نعرہ بلند کرتی تھیں تو اُن سے پوچھا جاتا تھا کہ آزادی کا کیا مطلب ہے؟ وہ ہمیشہ یہی جواب دیتیں کہ ''بیویوں کا استحصال کرنے والے اور اُن کی کمائی پر پلنے والے خاوندوں اور دھونس کے ذریعے رشوت وصول کرنے والے پولیس کے سپاہیوں کے آگے کھڑے ہو جانا اور ان کی زیادتی کی مزاحمت کرنا‘‘۔
ایلا بھٹ خاموش طبع اور دھیمی آواز میں بات کرنے والی خاتون تھیں۔ وہ سادہ کپڑے پہنتی تھیں۔ صرف سوتی ساڑھیاں‘ نہ زیور نہ میک اَپ۔ امیر والدین سے اُنہیں ورثہ میں بڑا گھر ملا مگر ایلا نے اُس میں بہت کم اور وہ بھی سستا ترین فرنیچر رکھا۔ برہمن ہونے کی وجہ سے وہ صرف دال سبزی ہی کھاتی تھیں۔ اُن کے شوہر کا نام رامیش بھٹ تھا۔ اُن کے والد کا نام سُمن ترائی بھٹ تھا جو ایک اچھے وکیل تھے۔ ایلا کے دادا ڈاکٹر تھے جنہوں نے گاندھی جی کی پُر امن سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لیا تھا‘ وہ سمندرکے پانی سے نمک بنانے والوں میں اور اس جرم کی سزا بھگتتے ہوئے قید کی سزا پانے والوں میں بھی شامل تھے۔ ایلا نے 1952ء میں بی اے کیا اور بعد ازاں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ایلا نے نہ صرف مہاتما گاندھی بلکہ روس کے ناول نگار لیو ٹالسٹائی کی تحریریں بھی پڑھ رکھی تھیں اور اُنہیں اپنی زندگی کا فلسفہ بنایا ہوا تھا۔ ایلا نے اپنی خدمات کی وجہ سے اتنا ممتاز مقام حاصل کر لیا کہ 1986ء میں اُنہیں بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کا رُکن بنایا گیا جہاں انہوں نے غریب کارکن خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون سازی کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ پارلیمان میں اپنی تقریر میں یہ بات بار بار کہتی تھیں کہ آپ یاد رکھیں کہ گاندھی جی نے اپنی سیاسی زندگی کا پہلا مرن برت ٹیکسٹائل ورکروں کے (جائز) مطالبات منوانے کے لیے رکھا تھا اور وہی میرے گرو ہیں۔
1956ء میں ایلا نے شادی کر کے اپنا گھر بسایا۔ ان کے شوہر معاشیات کے پروفیسر تھے۔ 25 برس پہلے وہ اپنی پتنی (ایلا) اور دو بچوں کو سوگوار چھوڑ کر وفات پا گئے۔ ایلا نے 25 برس بیوگی کا صدمہ سہا۔ ٹائمز نے اپنے تعزیتی مضمون میں ایلا کی وہ تصویر بھی شائع کی جس میں وہ 2010ء میں نیلسن منڈیلا‘ کوفی عنان (اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل)‘ نوبیل انعام یافتہ Rev. Desmond اور امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کے ساتھ کھڑی ہیں۔ بڑی انکساری سے شرماتے ہوئے وہ ہر لحاظ سے ایک بڑی شخصیت تھیں۔ اہلِ پاکستان کو فخر ہے کہ وہ ہماری پڑوسن تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں