سویرا یا اندھیرا؟

پچاس کی دہائی میں فیض صاحب نے نظر اٹھا کر اُفق کی طرف دیکھا تو انہیں داغ داغ اجالا نظر آیا۔ سحر طلوع ہوئی مگر وہ شب گزیدہ تھی۔وہ رجائیت پسند تھے اور بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک دن تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ یہ تھا عوامی انقلاب کا دل گرمانے والا وہ منظر جو اُن کے ایمان کا حصہ تھا کہ وہ ضرور دیکھیں گے۔ اُنہوں نے ''میں‘‘ کے بجائے ''ہم‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ خود نہ دیکھ سکے تو آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گی۔ کالم نگار نہ نجومی ہے‘ نہ فیضؔ اور نہ اقبالؔ۔ نہ کیفی اعظمی‘ نہ احمد فراز‘ نہ سبط ِحسن اور نہ حسن ناصر۔ نہ حیدر بخش جتوئی اور نہ سوبھو گیان چندانی‘ وہ محض وطنِ عزیز کا غالباً سب سے عمر رسیدہ عوام دوست سوشلسٹ ہے جس کی آنکھیں تین چوتھائی صدی سے یہ خواب دیکھ رہی ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب راج کرے گی خلقِ خدا‘ جب سلطانیٔ جمہور کی روشن صبح طلوع ہوگی‘ جب قانون کی حکمرانی ہوگی۔ انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہوگا۔ ہر قسم کا ظلم و ستم ختم ہو جائے گا۔ ہر نوعیت کی ناانصافی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ مملکت کی اصل طاقت کا سر چشمہ اُس کے عوام ہوں گے۔ کھیتوں میں محنت مشقت کرنے والے‘ فصلیں اُگانے والے‘ پیاسی زمین کو پانی پلانے والے‘ ہل چلانے والے اور فصل پک جانے پر اسے اُتنی ہی محنت مشقت سے کاٹ کر منڈیوں میں پہنچانے والے اُس زمین کے مالک ہوں گے۔ اس لیے نہیں کہ وہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز (Friedrich Engels) کے افکار کی عملی تعبیر ہوگی بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ وہ ساری زمین کا مالک ہے۔ شاہ ولی اللہؒ اور عبید اللہ سندھی سے لے کر اقبال اور حسرت موہانی تک نے اس کی پُر زور تائید کی ہے۔ اگر آپ کو اس بارے مزید علم و آگاہی کی ضرورت ہے تو فہمِ قرآن رکھنے والے کسی صاحب سے استفادہ کریں۔ ان لوگوں سے بھی جو جدید سماجی علوم کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔
کالم نگار نے جب 27نومبر 2022ء کو حسبِ معمول اُردو اخباروں میں شائع ہونے والے کالموں کے مطالعہ سے دن شروع کیا تو روزنامہ دنیا میں جن پانچ (ایک بھی ہوتا تو کافی تھا) کالم نگاروں کی تحریریں پڑھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا‘ وہ تھے محمد اظہار الحق‘ ڈاکٹر رشید احمد خاں‘ خالد مسعود خان‘ آصف عفان اور انجم فاروق۔ ان حضرات نے کمال کر دیا اور وہ بات لکھی جو گویا میرے دل میں تھی۔ صرف میں نہیں‘ مرحوم ارشاد احمد حقانی (جو اپنے وقت کے سب سے بڑے کالم نگار تھے) کی روح بھی خوشی سے جھوم اُٹھی ہوگی۔ یہ لکھا تو یاد آیا کہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم سے لے کر ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم تک نے بھی ساری زندگی موجودہ فرسودہ‘ گلے سڑے‘ عوام دشمن‘ غیر فعال‘ دیمک زدہ اور دورِ غلامی میں بنائے گئے نظام کو بدلنے کی اشد اور فی الفور ضرورت پر زور دینے میں گزاردی۔ ہم نے اقبال کے انقلابی پیغام پر کان نہ دھرے۔ فرشتوں کے نام خدا کا فرمان (اقبال کا لکھا ہوا) نہ سنا‘ نہ پڑھا۔ جب اقبال نے ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کی کارروائی سنائی تو ہم نے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ روس اور چین کے انقلابات تو اب ذرا پرانی بات بن چکے ہیں‘ ویتنام اور ایران کے انقلاب ابھی کل کی بات ہیں۔ ہم نے اُن سے کیا سبق سیکھا؟ پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کے لیے کون سے ٹھوس اقدامات کیے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب یہی ہے کہ نہ ہم نے کچھ سیکھا اور نہ ہی فلاحی مملکت کی طرف کوئی قدم اٹھایا۔
سیاسی نظام میں اصلاحات مقصود ہوں تو آپ ڈاکٹر رسول بخش رئیس اور ڈاکٹر حسن عسکری رضو ی اور ڈاکٹر رشید احمد خاں سے رجوع فرمائیے۔ معاشی نظام میں اصلاحات کریں تو کس طرح کریں۔ ڈاکٹر اکبر زیدی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر فیصل باری اور فرخ سلیم صاحب سے رہنمائی لینے میں کون سی رکاوٹ درپیش ہے۔ ماسوائے طبقاتی مفادات‘ دورِ جہالت میں جنم لینے والے عوام دشمن نظریات‘ قدامت پسندی‘ تعصبات‘ آئینِ نو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اڑنے کی روش کے اور کوئی سنگِ گراں حائل نہیں ہے۔ موجودہ نظام کا مطلب ہے بے روز گاری‘ مہنگائی اور وہ بھی بڑھتی ہوئی‘ ناانصافی‘ عدم مساوات‘ سماجی اضطراب‘ حکمران طبقہ کی بڑھتی ہوئی دولت اورمراعات۔ 22میں سے 20کروڑ عوام کی غربت کی گہرائی میں مزید اضافہ۔ نہ تھانہ کچہری میں انصاف‘ نہ ہسپتالوں میں علاج‘ نہ سکولوں میں تعلیم۔ سعد رسول کا اللہ دتا اور کالم نگار کی روایتی سکینہ بیگم کرے تو کیا کرے؟ جائے تو جائے کہاں؟ زمین سخت ہے اور آسمان دور۔
ڈاکٹر مفتاح اسماعیل جو کچھ دانش گاہوں میں اپنے خطابات میں کہہ رہے ہیں اور اخبارات میں لگی لپٹی رکھے بغیر لکھ رہے ہیں کہ ہمارا وہ نظام جس میں ایک فیصد حکمران طبقہ معاشی اور سیاسی طور پر ننانوے فیصد عوام پر بزور شمشیر غالب ہے‘ صرف غالب نہیں غاصب بھی ہے‘ اپنے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو بے دریغ قربان کرنے والا یہ طبقہ ہمارے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہے گا۔ وہی ہمارے عوام دشمن نظام کے خدوخال مرتب کرے گا۔ ہمیں بھارت سے (اپنے شدید اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے) تجارتی تعلقات قائم نہ کرنے دے گا۔ پہلے ہماری واحد سٹیل مل بننے نہ دے گا اور اگر (روس کی مدد سے) وہ پھر بھی بن جائے تو پھر اُسے چلنے نہ دے گا۔ ایک زرعی ملک کو خوراک اور زرعی اجناس برآمد کرنے کے قابل بنانے کے بجائے اسے خوراک اور زرعی اجناس (یہاں تک کہ ادرک اور دالیں بھی) بیرونِ ملک سے درآمد کرنے پر مجبور کر دے گا۔ ہماری دفاعی حکمت عملی کو دوسری جنگ عظیم سے آگے بڑھنے نہ دے گا۔ ہمارے کفن میں نئے نئے کیل ٹھونکنے سے باز نہ آئے گا۔ نہ خود (بشرطیکہ اُسے قومی مفاد کی رتی بھر بھی فکر ہوتی) یوکرین کی اپنے سے دس بیس گنا بڑی فوجی طاقت (روس) کی جارحیت کودس ماہ تک کامیابی سے روکنے سے کوئی سبق سیکھے گا اور نہ 99 فیصد کو سیکھنے دے گا۔ (ثبوت درکار ہو تو اپنے اخبار اور ٹیلی وژن پروگرام دیکھ لیں)۔ اس ایک فیصد طبقے کو تین کروڑ سے زائد سیلاب زدگان (جو چار ماہ سے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں) کی ذرہ بھر فکر نہیں ہے۔ ہمارے اوپر اربوں ڈالروں کے قرض کی تلوار بھی لٹکتی رہے گی اور اتنا ہی بڑا گردشی قرض کا بوجھ بھی۔
ہم اس وقت حالتِ نزع میں ہیں مگر ہماری توجہ غیر ضروری کاموں پر مرکوز ہے۔ ہے نا کمال کی بات؟ سیاسی ابتری‘ خلفشار اور عدم اتفاقِ رائے میں روز افزوں اضافہ‘ معاشی بحران کی سنگینی‘ افراطِ زر‘ بے روز گاری‘ درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا فرق۔ ایک فیصد خواص اور حکمران طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ ننانوے فیصد سے اچھی طرح زندہ رہنے اور باعزت رزق کمانے کا حق چھین چکا ہے‘ ہمارے منہ سے سوکھی روٹی کا لقمہ بھی مگر وہ طبقہ رومن بادشاہوں جیسا ہے؛ سر کس شو سے لطف اندواز ہونے کے یکے بعد دیگرے مواقع مہیا کرتا رہتا ہے۔ ہماری ڈولتی ہوئی کشتی میں ان 75برسوں میں بہت سے سوراخ کر دیے گئے ہیں۔ ہم کس کس سوراخ کو بند کریں؟ جلے ہوئے جسم کے کس کس حصے پر مرہم لگائیں؟ ستم بالائے ستم کہ ہماری ڈوبتی ڈولتی معیشت کی کشتی تیزی سے ایک ایسے خطرناک بھنور کی طرف بڑھ رہی ہے جو دیوالیہ پن سے شروع ہو کر سری لنکا اور لبنان کے وحشت ناک منظر نامہ پر ختم ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں