احساسِ زیاں

ہمارا فکری نشاۃِ ثانیہ جو سر سید احمد خان اور ان کے رفقا سے شروع ہو کر حسرت موہانی اور عبید اللہ سندھی سے ہوتا ہوا اقبال کی توانا‘ معتبر اور محترم آواز پر ختم ہوا‘ اُس نشاۃِثانیہ کے آخری ترجمان‘ علامہ اقبال جب بھی عالمِ اسلام کو دیکھتے تو خون کے آنسو روتے مگر اُن کو سب سے زیادہ صدمہ ہندوستانی مسلمانوں (خصوصاً پنجابی مسلمانوں) نے پہنچایا۔ انہوں نے دوبار باآوازِ بلند مسلمانوں کی اس فکری لاپروائی پر آہ وزاری کی۔ پہلی بار ان کی متاعِ کارواں لٹ جانے پر اور دوسری بار اپنی سب سے قیمتی متاع سے محروم ہو جانے پر غم زدہ‘ افسردہ اور دل گرفتہ نہ ہونے پر۔ یعنی مسلمانوں کے احساسِ زیاں سے محروم ہو جانے پر۔ تقریباً نو دہائیاں گزر گئیں۔ اقبال ہم سے جدا ہو کر ابدی نیند سو گئے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ اگلے جہان میں بھی‘ جب اُس پاکستان کو‘ جس کا اُنہوں نے خواب دیکھا تھا‘ دیکھتے ہوں گے تو سوچتے ہوں گے کہ میں نے بیسویں صدی کے مسلمانوں کی متاعِ کارواں اور پھر احساسِ زیاں سے محرومی کا رونا رویا تھالیکن برصغیر کے مسلمانوں پر اُس کا کچھ اثر نہ ہو سکا۔ ہماری نئی نسل اقبال کے کلام تو دور کی بات ہے‘ ان کے نام سے بھی ٹھیک طرح واقف نہیں۔ سمندر کے گہرے پانیوں سے مچھلی پکڑنے والے ہمارے ماہی گیروں سے لے کر ہزاروں فٹ گہرائی سے کوئلہ نکالنے والوں اور اس دوران آئے روز حادثات کا شکار ہو جانے والوں تک‘ ہسپتالوں کی چھتوں پر لاوارث لاشوں کی موجودگی سے لے کر لاکھوں التوا کا شکار کیسوں تک‘ چار ماہ سے خیموں اور خوراک کے بغیر سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوئے لاکھوں سیلاب زدگان سے لے کر ہزاروں زیر تفتیش مقدمات میں پولیس کے ناقابلِ برداشت تشدد کا نشانہ بننے والوں تک‘ سینکڑوں گمشدہ افراد سے لے کر دن دہاڑے قتل کے مرتکب مجرموں کی رہائی کی اپیلیں منظور ہونے تک‘ کرپشن سے اربوں روپے بنانے سے لے کر معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے انجان مسافروں کو سب اچھا کی لوریاں سنا کر سلا دینے تک‘ 75 برس قبل برائے نام اور نمائشی آزادی مل جانے سے لے کر آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان بنانے سے پکے انکار تک‘ دو کروڑ بچوں کو حقِ تعلیم‘ جو آئین کے تحت اُن کا بنیادی انسانی حق ہے‘ سے محروم کرنے سے لے کر پنجاب میں طلبا اور طالبات کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق نہ دینے تک‘ زرعی ملک کی آبادی کو قحط اور فاقہ کشی سے بچانے کے لیے اربوں ڈالروں کی خوراک درآمد کرنے سے لے کر لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین کسانوں میں تقسیم نہ کرنے تک‘ سالہا سال سے بند پڑی سٹیل مل پر اربوں ڈالر ضائع کرنے سے لے کر وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو اس کا مالک بنا کر اسے دوبارہ نفع بخش بنانے سے مسلسل انکار تک‘ 75برس قبل اُمید‘ جوش و جذبے اور ولولے سے شروع ہونے والے سفر سے لے کر تلخی‘ مایوسی‘ دل گرفتگی اور دل شکستگی تک‘ روشنی سے اندھیرے تک‘ بلندی سے پستی تک‘ عرش سے فرش تک‘ قدرت کی فیاضیوں اور برکتوں سے نحوستوں اور عذابوں تک۔ یہ ہے اُس سفر کا خلاصہ جو ہم نے ان گزرے ہوئے 75برسوں میں طے کیا ہے۔ بدترین خبر یہ ہے کہ عروج سے (جو ہمیں اگست1947ء میں حاصل ہوا) زوال تک کا سفر جاری ہے بلکہ وہ دن گئے جب ہم یہ سفر آہستہ آہستہ طے کرتے تھے۔ اب اس پستی‘ زوال اور شدید بحران کی طرف سفر کی رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ ہمارا نہ سیاسی نظام مستحکم ہے اور نہ معاشی نظام۔ ایک فیصد حکمران اشرافیہ تو مال مست ہے مگر مہنگائی اتنی ہے اور مزید بڑھتی جا رہی ہے کہ اب غریب حال مست بھی نہیں رہا۔ جو دیکھتے ہیں اور سن سکتے ہیں‘ وہ گونگے ہیں۔ اس فرسودہ‘ گلے سڑے اور عوام دشمن نظام کی تبدیلی کی آواز بلند نہیں کرتے۔ جو نہ جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں وہ (اپنی جہالت اور کم علمی پر پورا اعتماد کرتے ہوئے) بولتے جاتے ہیں اور وہ بھی اُونچی آواز میں۔ جب تک مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور پیپلز پارٹی کے برخاست شدہ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سچائی اور حق گوئی کا قابلِ صد تعریف مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور صد افسوس کہ وہ ہم خیالی کے باوجود اکٹھے نہیں ہوتے اور مل کر ایسا کام نہیں کرتے جو اک نئی عوامی‘ انقلابی اور عوام دوست تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہو‘ اس سفر کی درست منزل کا تعین مشکل ہے۔ اس وقت عوام دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ سوشلسٹ اور جماعت اسلامی (دایاں اور بایاں بازو) فلاحی مملکت کے قیام‘ قانون کی حکمرانی اور سلطانیٔ جمہور کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنائیں۔ رونے کا مقام ہے کہ عوام کے دشمن متحد ہیں اور عوام دوست منتشر۔ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں ہزاروں ہیں اور جامع مسجد ایک بھی نہیں۔ جب تک وہ تعمیر نہیں ہوتی بات نہیں بنے گی۔
ان گمبھیر حالات میں افتادگانِ خاک ستم زدہ‘ استحصال شدہ‘ غیر مراعات یافتہ‘ بے بس‘ بے آواز لوگ (جن کا تعلق 99 فیصد عوام سے ہے) کریں تو کیا کریں؟ ایک ہی تو وہ کام ہے جو وہ بڑی تندہی اور خشوع و خضوع سے اور ایک فریضہ سمجھ کر پچھلے 75برسوں سے کر رہے ہیں اور وہ ہے جیل میں مقید قیدیوں کی طرح آپس میں لڑنا۔ سبھی سیاسی جماعتیں (ماسوائے جماعت اسلامی) عوام دشمنی کے پرچم کو اٹھا کر‘ اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے غلاموں کی طرح اُن اندھیرے راستوں پر چلتی رہیں جن کا اختتام بھی سویرے کے بجائے اندھیرے پر ہوگا۔ دوسرا راستہ جو آپ کو کسان مزدور رہنما برسہا برس سے دکھا رہے ہیں مگر جس نقار خانے پر ایک فیصد خواص کا قبضہ ہو وہاں 99فیصد عوام کے مفاد کی بات کرنے والوں کی آواز کون اور کیونکر سنے گا؟ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سابق وزیر خزانہ نہ ہوتے تو ان کے عوام دوست ارشادات کو کبھی پذیرائی نہ ملتی۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ عوام دوستوں کو عوام دشمنوں کے صنم خانوں سے ایک اتنا اچھا پاسباں مل گیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر اور مفتاح اسماعیل کا شکریہ ادا کرکے گہری نیند پھر سو جائیں اور یہ بھول جائیں کہ جب تک 99فیصد عوام خود نہ جاگیں گے‘ سویرا نہ ہوگا۔ آپ پوچھیں گے کہ اگر وہ خود نہ جاگیں تو اُنہیں کون جگائے گا؟ جواب بہت آسان ہے۔ کسان مزدور رہنما‘ وکلا اور ان کی ہر سطح پر بار ایسوسی ایشن‘ اساتذہ (سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے) ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرز‘ طلبہ اور طالبات‘ سری لنکا اور سوڈان کی طرح گھریلو خواتین‘ صحافی اور چیکو سلواکیہ کے ڈرامہ نویس (Havel)‘ جو انقلاب کے بعد اپنے ملک کا صدر بنا‘ کی طرح ادیب اور دانشور‘ گندم‘ دھان اور کپاس اُگانے والے‘ سمندروں میں مچھلیاں پکڑنے والے جنہیں اب مگرمچھوں کو قابو کرکے عوامی راج قائم کرنا ہوگا اور وہ بھی جلداز جلد۔
2023ء نیا سال ہوگا۔ سویرے یا اندھیرے کا سال! کتنا اچھا ہوا کہ مقتدرہ نے(ماسوائے مشرقی پاکستان میں اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے کے) اپنی غلطیوں سے رجوع کر لیا۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم خود جاگیں اور دوسروں کو جگائیں۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ جاگیں گے تو سویرا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں