کوئلے کی چوری

آپ نے یہ محاورہ تو ضرور سن رکھا ہوگا کہ کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہوتا ہے۔ اگر آپ کی کوئلے کی اپنی کان ہوتی اور آپ کان کنوں کو کم اجرت دے کر اُن سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر جلد از جلد امیر بننے کے خواہشمند ہوتے تو آپ کو مذکورہ محاورہ ہر گز اچھا نہ لگتا۔ میں نے کوئلے کے کئی دلال دیکھے ہیں (اُن میں سے ایک تو نصف صدی سے میرے بہترین دوست ہیں)مگر اُن کا چہرہ بفضل تعالیٰ ہر گز سیاہ یا سیاہی مائل نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ کوئلے کے کاروبار کا انسان کے چہرے کی رنگت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چلئے ایک اور محاورہ متروک ہوا۔ نیا محاورہ یہ ہونا چاہئے کہ کوئلے کی چوری (بالخصوص جب وہ لاکھوں ٹن کی ہو) میں رُوسیاہی کا خطرہ زیادہ ہے بشرطیکہ آپ رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں۔
یہ الفاظ لکھے جا چکے تو مجھے خیال آیا کہ اب وہ رُت گئی جب مجرم رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے تھے۔ دستِ قاتل پر لگے ہوئے خون کے دھبّے خشک ہو جانے کا مرحلہ طے نہ ہوتا تھا کہ کوتوال قاتل کے ہاتھ کو ہتھکڑی اور پائوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیتا تھا‘ اب ویسی تندہی کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کالم نگار وثوق سے لکھ سکتا ہے کہ جب قارئین مندجہ بالا سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ضرور سوچیں گے کہ یہ لاکھوں ٹن کوئلہ ملک کے کس علاقے میں چوری ہوا؟ خیبر پختونخوا یا بلوچستان سے؟ قارئین مگر جب یہ پڑھیں گے کہ چوری کی اتنی بڑی واردات پاکستان میں نہیں ہوئی‘ تو اُن پر کیا بیتے گی کہ ہماری تاریخ ایسی بڑی بڑی چوریوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ لاکھوں ٹن کوئلہ(جو واردات سے پہلے تولا گیا تو 3 لاکھ 85 ہزار ٹن نکلا) چین اور روس کے درمیانی ملک منگولیا سے چوری ہوا۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میرے ہم وطن اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ بلوچستان میں سونے‘ چاندی اور تانبے کے ذخائر اور خیبر پختونخوا میں قیمتی پتھروں سے نظر ہٹا کر اپنا معیار اتنا گرالیں گے کہ کوئلے جیسی حقیر چیز چوری کرنے پر اُتر آئیں گے۔
ادھر اُدھر کی باتیں کالم کا ایک تہائی حصہ لے گئیں مگر اب وہ مرحلہ آچکا جب آپ کو یہ بتایا جائے گا کہ ماہِ رواں منگولیا میں کون سا سیاسی زلزلہ آیا۔ گزشتہ کئی سو سال سے اہلِ منگولیا صورتِ خورشید جیتے رہے۔ اُن کا ادھر ڈوبے اُدھر نکلنے والا معاملہ رہا۔1945ء میںInner Mongolia چین کا حصہ بننے کے بعد سوویت یونین کا بھلا ہو کہ اُس نے بچے کھچے مفلوک الحال منگولیا کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیا۔ وہاں بہترین تعلیمی نظام قائم کیا‘ قیمتی معدنیات کی کان کنی شروع کر دی اور منگولوں کی انگلی پکڑ کر اُنہیں صنعتی ترقی کی شاہراہ پر چلایا۔ جب سوویت یونین ٹوٹ کر تاریخ کا حصہ بن گیا تو اُس وقت تک منگولیا نے اپنے قدموں پر چلنا سیکھ لیا تھا۔ منگولیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُس کا دارالحکومت (Ulaanbaatar) دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرد دارالحکومت ہے۔ موسم سرما میں وہاں اوسط درجۂ حرارت منفی تیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے مگر کمال کی بات یہ ہے کہ ہڈیوں میں گودا جما دینے والی اس سردی میں بھی وہاں ہزاروں مظاہرین تین ہفتے سے قریباً چار لاکھ ٹن کوئلے کی چوری کے خلاف پُر زور اور پُرجوش مظاہرے کرنے میں مشغول ہیں۔ منگولیا کی کل آبادی 33 لاکھ ہے‘ جس میں سے ایک تہائی خطِ غربت سے نیچے ہے۔ آپ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پاکستان اور منگولیا میں تین اتنی واضح قدرِ مشترک ہیں کہ ہمیں خود کو اس کا برادر ملک ہونے کا سرکاری اعلان کر دینا چاہئے۔پہلی تو یہ ہے کہ منگولوں کا جد امجد چنگیز خان تو کسی نہ معلوم مقام پر ابدی نیند سو رہا ہے مگر شمالی پنجاب کے ہر دوسرے نوجوان کی سرشت میں چنگیزخانی روّیہ اور مائل بہ تشدد مزاج گئے گزرے زمانے کے چنگیز خان کی یاد ہر دم تازہ کرتا ہے۔ دوسری بات بھی کچھ کم توجہ طلب نہیں کہ ملک عزیز کی اشرافیہ کی طرح منگولیائی کرتا دھرتا بھی مجرموں کے ٹولوں کے ساتھ مل کر کروڑوں اربوں ڈالروں کے قومی سرمایہ کو دن دہاڑے لوٹنے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ تیسری اور آخری بات۔ ہماری طرح اُن کی ایک تہائی آبادی بھی خطِ غربت کے نیچے بے بسی اور بے کسی کے عالم میں اس طرح زندہ ہے کہ بصد مشکل سانس لے رہی ہے مگر اُن پر زندہ ہونے اور زندگی بسر کرنے کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ جب تک منگولیا میں Oyu Tolgoi کے مقام سے تانبے کی کان سے معدنی ذخائر عالمی منڈی میں نہیں آجاتے‘ وہاں کوئلے کی بالادستی اور برتری قائم رہے گی۔ ماسوائے ایک واقعہ کے‘ جب مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا‘ تین ہفتوں میں مظاہرین پُر امن رہے ہیں۔ منگولیا کے اخبارات ہوں یا ریڈیو یا ٹیلی وژن‘ سب جانتے ہیں کہ لاکھوں ٹن کوئلہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس صفائی سے چرایا گیا ہے کہ اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا‘ لیکن وہ اس موضوع پر بات نہیں کرتے کہ اس چوری کا ذمہ دار کون ہے؟ بلکہ کون لوگ ہیں؟ یہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی کارروائی ہے۔ مگرملکِ عزیز کی طرح منگولیا میں بھی سوشل میڈیا نے رنگ میں بھنگ ڈال کر چوروں کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔ اُس نے سارے راز فاش کر دیے جس پر منگولیائی عوام حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن دوسری طرف حکمرانوں کے دلوں میں یہ اُمید جاگ رہی ہے کہ سردی کا موسم تو ابھی شروع ہوا ہے‘ مظاہرین کب تک منفی 30 ڈگری درجہ حرارت کا مقابلہ کریں گے؟ سخت سردی انہیں آخر کار پسپا کر دے گی۔
اس وقت تک مظاہرین کا کوئی رہنما نہیں۔ اُن کا قریب قریب وہی حال ہے جو پاکستان میں کسانوں‘ مزدوروں‘ ہیلتھ ورکروں اور اساتذہ کا ہے۔ منگولیا کے جنوب میں کرغزستان ہے وہ گزرے ہوئے برسوں میں بڑے سیاسی ہنگاموں کا میدانِ جنگ رہا ہے۔ مجھے چار سال پہلے وہاں جانے‘ ایک ہفتہ قیام کرنے اور اُن لوگوں کی بے مثال مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ میرے میزبان بار بار کفِ افسوس ملتے تھے کہ اگر میں چند روز پہلے آجاتا تو کتنا اچھا ہوتا؟ میں نے سوچا کہ شاید وہاں موسیقی اور رقص کا کوئی بڑا میلہ منعقد ہوا ہوگا‘ جس میں شرکت سے محروم رہا۔ میرے استفسار پر معلوم ہوا کہ اُن کا اشارہ ماضی قریب میں ہونے والے انقلابی مظاہروں کی طرف تھا جو دو ہفتے تک جاری رہے۔ میں نے اُنہیں یہ کہہ کر اطمینان دلایا کہ اس بار بھول ہو گئی‘ در گزر فرمایئے‘ آئندہ جب بھی اُفق پر انقلاب کے بادل منڈلانے لگیں تو آپ مجھے اولین فرصت میں یاد فرمایئے گا‘ میں پہنچ جائوں گا (بشرطیکہ میں نے لندن میں اپنے اہلِ خانہ کو اس دورے کی اصل وجہ نہ بتائی)۔
چند روز قبل ایک شام میں مرکزی لندن کے ایک ریستوران میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کرسمس کی خوشی میں کھانا کھانے گیا (شکر ہے کہ میں میزبان نہ تھا)۔ جونہی ہم لوگ بیٹھے‘ ساتھ والی میز پر پاکستان سے لاکھوں پائونڈ اور کروڑوں ڈالر چرا کر اور رشوت ستانی کا بازار گرم کر کے برطانیہ بھاگ آنے والا ایک شخص اپنی (جرمن) بیوی اور سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ جونہی اُس کو پتا چلا کہ اُس کے پڑوسی کون ہیں اور اُن کی آنکھوں سے کتنی ملامت برس رہی ہے تو اُس کے چہرے پر شرمندگی اور پسینہ نمودار ہو گیا۔ وہ وہاں سے اُٹھا اور ریستوران کے تہہ خانہ میں جا چھپا۔ میں نے ایک رُقعہ لکھا اور ہوٹل سٹاف کے ذریعے اُس تک پہنچایا دیاکہ You can run, but you can't hide۔ یہ بڑا مجرم کب پکڑا جائے گا؟ کیا ہم عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بن جانے کا انتظار کریں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں